کالمز

دیوانوں کی باتیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(میرا یو۔ ایس ویزا اور فضائی حادثہ ) قسط نمبر ۱

تحریر: شمس الحق قمرؔ گلگت

جہاز پر جانے سے پہلے ہی میرے ذہن میں خوف کا شدید احساس تھا ، یکایک میری زبان خشک ہو گئی ، میں اپنے عرصے سے خشک ہونتوں پر زبان پھرا گفتگو کرنے کی نا کام کوشش کرتارہا ۔ میں اپنی بیوی اور بچے کے ساتھ رات کے کوئی ایک بچے ائر پورٹ پہنچا تھا ۔ ہمیں صبح چار بجیاُڑان بھرنی تھی ۔ میرا چھوٹا کنبہ خوش تھا کہ وہ امریکہ جا رہے ہیں ۔ لیکن مجھ پر غم کا پہاڑ سوار تھا ، میرے ذہن کو فضأ میں ہونے والے ایک مہیب اور خطر ناک حادثے کے سگنلز موصول ہو رہے تھے ۔ میرے بدن پر کپکپی طاری تھی ، مجھے ایسا لگتا تھا کہ میرے جسم سے جان نکل چکی ہے ، میرا جسم آہستہ آہستہ سرد ہوتا معلوم ہوتا تھا ، پورے بدن پر سوئیاں چبھتی اور چیونٹیاں رینگتی معلوم ہوتیں تھیں ۔ مجھے معلوم تھا کہ میں کسی بھیانک لیکن نامعلوم واقعے کے خوف سے سہما ہوا ہوں ، دل میں کہتا کہ دیکھ تم کتنے ڈرر پوک ہو ، موت کا ایک دن معین ہے وہ تو اپنے وقت پر آ ہی جائے گی ، موت سے براٗت ہونا تیری بس کی بات نہیں،تمہارے لیے بہتر یہی ہے کہ اپنے آپ کو سنبھالو۔ ہوش کے ناخن لو، تمہیں کونسی سزائے موت ملی ہے کہ تم یوں ٹھٹھر رہے ہو، تمہیں شرم آنی چاہئے ، کیا دنیا میں تم صرف ایک آدمی ہو جسے جہاز میں بٹھا کر امریکہ بھیجا جا رہا ہے ؟ اسی ایر پورٹ سے تمہارے جیسے ہزاروں لوگ جاتے ہیں ۔

ان خیالات سے جب میں نے اپنے آپ کو تسلی دی تو مجھے محسوس ہوا کہ میرے دماغ سے ڈر کی شدت کچھ کم ہو گئی ہے ۔ میں جب تھوڑا سا ہوش میں آیا تو معلوم ہوا کہ میرے پیٹ میں ماحول گھمیر ہے ۔ سچی بات یہ ہے کہ میں جب یکدم سے ڈر جاتا ہوں تو وقتی طور پر جلاب کی شکایت ہوتی ہے ۔ چنانچہ میں مختصر رفع حاجت کے لئے بیت الخلا کی جانب گیا ، سامنے شیشہ لگا ہوا تھا ، شیشے میں دیکھتے ہی نہ جانے کیوں مجھ پر یہ افسوس ناک خیال سرائیت کر گیا کہ میں دل ہی دل میں اپنے آپ سے مخاطب ہوکر کہنے لگا ’’ عجیب زندگی گزاری تو نے آج بن بلائے اجل کو گلے لگانے جا رہے ہو چالیس ہزار فٹ کی بلندی سے گرو گے تو کرۂ ارض کے کس حصے کے چیلوں کی ضیافت تمہاری لاوارث لاش کا مقدر بنے گی ۔ تمہاری زندگی میں تمہارے ذمے بہت سارے کام تھے ، وہ سب ادھورے کے ادھورے رہ گئے ‘‘ ان خیالات کے آتے ہیں رفع حاجت خود ساختہ طور پر معدوم ہو گئی ، بلکہ سب کچھ اندر ہی اندرسوکھ گیا ۔ میں جب بیت الخلأ سے چل کے دوبارہ انظار گاہ کی طرح آرہا تھا تو میری ٹانگوں میں خون کا دباؤ یکسر ختم ہوا تھا ۔ سامنے کرسیوں پر بیٹھے لوگ خوش گپیوں میں مصروف تھے ۔ کچھ نئی جوڑیاں تھیں جو ہنی مون منانے امریکہ جا رہی تھیں جوکہ شاید کسی بیتے لمحا ت کی یاد میں مسکرا رہے تھے ۔ اسی طرح انتظار گاہ میں ہر عمر اور ہر قماش کے لوگ موجود تھے، امریکہ جانے کی خوشی میں یہ سب لوگ پھولا نہ سما رہے تھے ،ایک صوفے پر میری بیگم صاحب اور بچہ بھی بیٹھے ہوئے تھے اور تو اور یہاں تو میرے کنبہ بھی پر تبسم تھا لیکن میرا اپنا مسٗلہ یہ تھا کہ اُن سب کی مسکراہٹوں میں میری بھیانک موت نظر آرہی تھی ایسا لگتا تھا کہ وہ سب میری عبرت ناک موت پر تماشہ کر رہے ہیں ۔ میرے ساتھ ایک بہت بڑا حادثہ پیش آنے والا تھا ۔ بورڈنگ کارڈ کو دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ یہ اجل کا پیغام ہے ۔ ہمارے بورڈنگ کارڈ چیک ہوئے ۔ تمام مسافر جہاز کی طرف ایک قطار میں چل پڑے ۔ ہماری تعداد یہی کوئی تین سو کے قریب تھی ۔ یہ سب لوگ موت کا مزا چکھنے جا رہے تھے لیکن اُن میں سے کسی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ اُن کی فلائیٹ کے ساتھ کو نسا واقعہ پیش آنے والا ہے ۔ میں نے کئی بار کوشش کی کہ کسی بہانے سے واپس ہو جاؤں لیکن بہانہ میرے پاس کوئی نہیں تھا ۔ میں جیسے جیسے جہاز سے پیوست سرنگ نما راستے میں سے ہوتے ہوئے آگے قدم بڑھاتا تو مجھے ایسا لگتا تھا کہ آج جہاز کے اندر پائیلٹ کی جگہ ملک الموت بیٹھا میرا انتظار کر رہا ہے۔ ایک خاتون نے ہمیں ویلکم کہا اُس کے ماتھے پرجو مسکراہٹ تھی اُس سے یہ یہ اندازہ لگانا کوئی بہت مشکل نہیں تھا کہ کسی قبرستان سے کوئی چڑیل جہاز پر سوار ہو گئی ہے اور انتہائی مسرت اور شادمانی کے ساتھ ہمیں وادی شہر خاموشاں کی دعوت دے کر ہمارا تازہ خون چوس لے گی۔ دل کرتا تھا کہ اُسے ایک تھپڑ رسید کروں ۔ ہم اپنی سیٹ پر جاکے بیٹھ گئے ۔ جہاز کا میزبان ہم سے کوئی پانچ گز کے فاصلے پر سامنے کھڑ ے ہو کر ہمیں لیکچر دینا شروع کیا کہ خدا ناخواستہ اگر حادثہ پیش آجائے تو مسافروں کو کیا کی احتیاطی تدابیر اور اقدامات اپنانے کی ضرورت پیش آئے گی وغیرہ ۔ میں نے دل ہی دل میں کہا کہ آخر کیا ضرورت ہے اس طرح کی بد شگونی کی ، اللہ مالک ہے کچھ نہیں ہوگا ۔

اس میزبان کے موت کے اوپر مفصل تقریر سننے کے بعد ایک نسوانی آواز بلند ہوئی ، سفر کی جو روایتی دعا کی گئی تو وہ نشتر بن کر میرے سینے میں چبھ گئی، اس دعا نے ہماری بے وقت موت کو یقینیبنا کے رکھ دیا ۔ میں نے دل ہی دل میں جہاز والوں کو یہ مشورہ دینا چاہا کہ جہاز والوں کے لچھن درست نہیں ہیں سفر کے دوران حادثات اور اُن سے نمٹنے کے طریقے بتا کے پنڈو مسافروں کے دلوں میں خوف کا ہیجان کرنا اُنہیں جیتے جی زندہ لاش بنانے کے سوا اور کچھ بھی نہیں لہذا ایسے طریقوں سے باز رہا جائے ۔ میں نے بار بار کوشش کی کہ جاکے ائیر ہوسٹس کا گلہ دباؤں تاکہ وہ ائندہ اس طرح ڈرراونی باتیں جہاز میں بیٹھے شرفاأ سے ہر گز نہ کرے اور کیپٹن کو جاکے بولوں کہ سفر میں حوادث کی باتوں سے دل گھبرا جاتا ہے بلکہ اسکی جگہ اپنے ان منہ پھٹ میزبانوں سے یہ کہلواؤ کہ ہمارا جہاز بالکل فٹ ہے ، ہم بہت انچائی میں اُڑان نہیں بھریں گے ۔ ہم آپ کو ہر صورت میں بہ حفاظت منزل مقصود تک پہنچائیں گے ۔ بیلٹ ویلٹ باندھنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ کسی بھی طوفانی موسم کا ہمارے اس جہاز پر اثر نہیں ہوگا وغیرہ وغیرہ ۔ دفعتاً مجھے خیال آیا میرا یکدم اپنی سیٹ سے اُٹھ جانا اور کاک پٹ کے اندر پٹن کے پاس جانا تخریب کاری کے زمرے میں آتی ہیں ۔ جہاز میں بیٹھے ہوئے محافظ کمانڈوز کو کیا معلوم کہ میں ایک زریں مشوررہ دینے کاک پیٹ میں جا رہا ہوں ، وہ تو پکڑ کے دھلائی کریں گے ۔ لہذا خاموش رہا ۔

موت کے مہیب سائے میرے اوپر منڈلاتے رہے ۔ مجھ پر ایک عجیب کیفیت طاری تھی ۔ میرے دونوں ہاتھ سن ہو گئے ۔ ساتھ سے گزرتی ہوئی ائیر ہوسٹس کو میں سکول کے بچوں کی طرح چھوٹی انگلی کے اشارے سے باتھ روم جانے کی خواہش کا اظہار کیا ۔ ائیر ہوسٹس میری شکل و صورت اور میری وقت بے وقت حرکتوں سے سمجھ گئی تھی کہ اُن کے جہاز میں ایک سہما ہوا اور اَن جانے فضائی خوف کا ستا یا ہوا مسافر بھی موجود ہے ، مسکراتے ہوئے باتھ روم کا راستہ بتا دیا ۔ اُٹھتے ہوئے میں نے اپنے آپ کو دوبارہ چیک کیا کہ کیا میرا پاسپورٹ میرے جسم کے ساتھ مظبوطی سے باندھا ہوا ہے تا کہ فضائی حادثے کی صورت میں میری لاش کی شناخت ہو سکے ۔ ہمارے جہاز نے رن وے پر فراٹے بھر نا شروع کیا ۔ رن وے میں ایک جگہ ایسی تھی کہ جہاں تھوڑا ر کنے کے بعد جہاز سے ایسی دل دھلا دینے والی آواز نکلنی شروع ہوئی کہ میری زبان سے تین دفعہ ’’ یا اللہ ، یا اللہ ، یا اللہ‘‘ کی نداء بے ساختہ طور پر نکلنے لگی میں نے دونوں ہاتھوں سے اپنی سیٹ کے دونوں بازو مظبوطی سے پکڑے ہوئے تھے ۔ میری بیوی مسکرتے ہوئے مجھے اپنے آپ کو سنبھالنے کو کہا جبکہ میرا بچہ مجھے دیکھ کے ہنس رہا تھا ۔ اُنہیں معلوم نہیں تھا کہ ہم فضاأ کی آخری بلندی میں کس ہولناک حادثے سے دو چار ہونے والے ہیں ۔ مجھے معلوم پڑا تھا کہ جہاز کے ایک ٹائیر کے ساتھ ائیر پورٹ کے ترکول کے نیچے سے ایک کوک کی بوتل کا تیز دھار والا ایک ڈھکنا چپک گیا تھا جو کسی بھی وقت جہاز کو حادثے سے دوچار کر سکتا تھا ۔ میں سوچتا رہا کہ جہاز کے ٹائیر کے ساتھ چپکا ہوا بوتل کا ڈھکنہ اگر ٹائیر سے نکل کر انجن کے اندر چلا گیا تو کیا ہوگا ۔ میری سوچ درست تھی ۔ اُس ڈھکنے کو ٹائیر سے نکل کر انجن کے اندر جانا ہی تھا اور ہم سب کی موت واقع ہونی تھی ۔ اتنے میں ہمارا جہاز فضا میں بلند ہوا غراتا اور بادلوں کو چیرتا ہوا لپک جھپکنے میں زمیں میں موجود قسم قسم کی روشنیوں سے جھلملاتی بڑی بڑی بلڈنگ کھلونوں کی طرح معلوم ہونے لگیں ۔ سکول کے زمانے میں آیت الکرسی یاد کی تھی ابھی فر فر یاد آنے لگی ۔ چار قل بھی اصلی ہجے کے ساتھ یاد آئے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔( جاری )

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button