کالمز

قائد اعظم کا11 اگست 1947 کا خطاب

ندیم احمد فرخ

1947 جب ہندوستان کی تقسیم مکمل ہو گئی تو قائد اعظم اس نوزائیدہ ریاست جس کا نام’’ پاکستان ‘‘ تھا اس کے پہلے گورنر جنرل منتخب کر لئے جاتے ہیں اس موقع پر قائد اعظم نے ریاست، نظریہ پاکستان اور امور ریاست پر ایک خطاب فرمایا اس خطاب کو قائد اعظم کا قانون ساز اسمبلی کا پہلا خطاب بھی کہا جاتا ہے بلا شبہ یہ خطاب عالمی طور پربھی بے حد مقبول ہوا تھا قائد اعظم نے اس خطاب میں مختلف امور جن میں ریاست، مذہبی آزادی، قانون کی حکمرانی اور مساوات کو نہایت عمدہ طریق سے بیان کیا اور اسی خطاب میں جناب جناح نے مذہب اور ریاست کو الگ الگ پیش کیا ۔ گویا 11 اگست 1947 کے خطاب میںآپ نے پاکستان کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا کہ پاکستان کیسا ہوگا میں اس تقریر کا کچھ حصہ لکھتا ہوں کہ آپ کیسا پاکستان چاہتے تھے ۔ آپ فرماتے ہیں۔

” اگر ہمیں پاکستان کی اس عظیم الشان ریاست کو خوشحال بنانا ہے تو ہمیں اپنی تمام تر توجہ لوگوں کی فلاح و بہبود کی جانب مبذول کرنا چاہیے۔خصوصاً عوام اور غریب لوگوں کی جانب اگر آپ نے تعاون اور اشتراک کے جذبے سے کام کیا تو تھوڑے ہی عرصہ میں اکثریت اوراقلیت ، صوبہ پرستی اور فرقہ بنددی اور دوسرے تعصبات کی زنجیریں ٹوٹ جائیں گی۔

ہندوستان کی آزادی کے سلسلہ میں اصل رکاوٹ یہی تھی اگر یہ نا ہوتیں تو ہم کبھی کے آزاد ہو گئے ہوتے۔ اگر یہ الائشیں نہ ہو تیں تو چالیس کروڑ افراد کو کوئی زیادہ دیر تک غلام نہ رکھ سکتا تھا ۔

یورپ خود کو مہذب کہتا ہے لیکن وہاں پروٹسٹنٹ اور رومن کیتھولک خوب لڑتے ہیں وہاں کی بعض ریاستوں میں آج بھی افتراق موجود ہے مگر ہماری ریاست کسی تمیز کے بغیر قائم ہو رہی ہے یہاں ایک فرقے یا دوسرے فرقہ میں کوئی تمیز نا ہوگی ہم اس بنیادی اصول کے تحت کام شروع کر رہے ہیں کہ ہم ایک ریاست کے باشندے اور مساوی باشندے ہیں ۔ آپ آزاد ہے آپ اس لئے آزاد ہیں کہ اپنے مندروں میں جائیں آپ آزاد ہیں کہ اپنی مسجدوں میں جائیں یا پاکستان کی حدود میں اپنی کسی عبادتگاہ میں جائیں آپ کا تعلق کسی مذہب کسی عقیدے یا کسی ذات سے ہو اس کا مملکت کے مسائل سے کوئی تعلق نہیں میرا خیال ہے کہ ہمیں یہ بات بطور نصب العین اپنے سامنے رکھنی چاہیے اور آپ یہ دیکھیں گے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہندو ہندو نہ رہے گااور مسلمان مسلمان نہ رہے گا مذہبی مفہوم میں نہیں کیوں کہ یہ ہر شخص کا ذاتی عقیدہ ہے بلکہ سیاسی مفہوم میں اس مملکت میں اس مملکت کے ایک شہری کی حیثیت سے۔”۔

سید محمد ذوالقرنین زیدی نے1970 کی دہائی کے وسط میں13 انٹرویوز ان شخصیات سے لئے جو قائد اعظم سے خود ملے تھے اور 1970 تک زندہ تھے ان انٹر ویوزکو 1990 میں قومی ادارہ برائے تحقیق، تاریخ و ثقافت اسلام آباد نے ’’ قائد اعظم کے رفقاء سے ملا قاتیں‘‘ کے نام سے شائع کیا ہے ان انٹر ویوز میں قائد اعظم کی 11 اگست والی تقریر کے متعلق چوہدری نذیر احمد جو کہ ساہیوال سے پہلی آئین ساز اسمبلی کے ممبر تھے اور وزیر اعظم لیاقت علی خان کی کابینہ کے وزیر صنعت بھی رہے وہ بیان کرتے ہیں کہ۔

’’ اس وقت بعض لوگ کہنے لگے قائد اعظم نے جو یہ فرمایا ہے کہ ہندو اپنے مندروں میں جائیں۔ مسلمان اپنی مسجدوں میں اور عیسائی اپنے گرجوں میں وغیرہ تو کیا یہ بات اسلامی نظریہ کے مطابق ہے؟قائد اعظم کی رائے کی مخالفت کرنا تو قریب قریب گناہ کے مترادف تھا لیکن اتنا مجھے یاد ہے کہ ہم لوگ آپس میں بیٹھ کر یہ باتیں کرتے تھے کہ قائد اعظم سے اس کے بارے میں بات چیت کریں گے کہ ان کاصحیح مطلب کیا ہے کوئی کہتا تھا کہ قائد اعظم نے اسلامی ریاست کے تصور کو ترک کردیا ہے۔ جہاں تک مجھے یاد ہے قائد اعظم نے اسلامی ریاست کے تصور کو ترک تو نہیں کیا تھا اور نہ ہی انہوں نے اس رنگ میں پیش کیا جس میں اقبال نے پیش کیا تھا ابھی تو مسلمانوں کے وطن کے سلسلے میں سارا نقشہ ذہین میں نہیں اترا تھا کیونکہ اس وقت گھمبیر مسائل پاکستان کو درپیش تھے جس کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے اور پھر مسلمانوں کا اتنا قتل عام ہو رہا تھا جس کا قائد اعظم کے دل اور دماغ پر بڑا اثر تھا ۔ تومیرے خیال میں بھی اسلامی ریاست کا نقشہ ان کے ذہن میں ابھرا نہیں تھا یا ان کو موقعہ نہیں ملا تھا کہ اس کو واضع کر یں۔

اس کتاب میں مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کے رکن محمد ایوب کھوڑو نے قائد اعظم کی 11 اگست والی تقریر کے متعلق بیان کیا کہ ۔

جناح کی وہ تقریر بہت اچھی تھی ان کی یہ خواہش نہیں تھی کہ اقلیتیں پاکستان کو چھوڑ کر نہ چلی جائیں ہندوستان میں ہمارے 4 کروڈ مسلمان رہ گئے تھے وہ اس ریاست کو مذہبی ریاست کا رنگ دینا نہیں چاہتے تھے وہ الو کے پٹھے ہیں جو جناح کو ولی اللہ بنا رہے ہیں وہ غلط ہیں وہ کوئی ولی اللہ نہیں تھے وہ ایک سیاست دان تھے اور مدبر تھے وہ بدلے ہوئے حالات میں مسلم لیگ کا کردار بھی بدلنے کا ارادہ رکھتے تھے ۔

قائد اعظم کی 11 اگست کی تقریر کی وجہ سے ہی بھارتی سیاست دان ایل کے ایڈوانی نے پاکستان میں مزارِ قائد پر مہمانوں کے تاثرات کی ڈائری میں لکھا تھا کہ۔ دنیا میں کئی لوگ ہیں جو تاریخ پر انمٹ نقوش چھوڑ جاتے ہیں لیکن بہت کم لوگ ایسے ہیں جو در اصل تاریخ تخلیق کرتے ہیں قائد اعظم تاریخ تخلیق کرنے والے چند لوگوں میں سے ایک ہیں۔۔ ایل کے ایڈوانی نے یہ بھی لکھا کہ آپ ہندو مسلم اتحاد کے سفیر ہیں اور ایل کے ایڈوانی نے مسٹر جناح کی 11 اگست کی تقریر کا حوالہ بھی دیا اور اس کو سراہا بھی۔

قائد اعظم نے11 اگست کی تقریر میں زبانی طور پر مذہبی آزادی ا ظہار کردیا مگر اس کے ساتھ ساتھ ان کی عملی زندگی بھی مذہبی آزادی کی علامت تھی اور ان کی سیاست مذہبی اور مسلکی پابندیوں سے آزاد تھی جس کا عملی ثبوت یہ تھا کہ پاکستان کے پہلے وزیر قانون ہندو پاکستان کے پہلے چیف جسٹس عیسائی اور پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ احمدی تھے اسی بات کا اظہار قائد اعظم محمد علی جناح نے 21 نومبر1946 کو رائٹر کے نمائندے کو انٹر ویو کے دوران کیا آپ فرماتے ہیں ۔

” اگر آپ لوگ باہمی تعاون سے کام کریں ماضی کو بھول جائیں اور گزشتہ راصلوٰۃ پر عمل کریں تو یقیناًکا میاب ہوں گے اگر آپ مل جل کر اس جذبے کے تحت کام کریں کہ ہر شخص خواہ کسی فرقہ سے تعلق رکھتا ہو ماضی میں آپ کے تعلقات ایک دوسرے سے خواہ کیسے ہی رہے ہوں اس کا رنگ ، نسل،مذہب کچھ ہی ہو اولاً،ثانیاً، آخراً اسی مملکت کا شہری ہے اس کے حقوق، مراعات اور ذمہ داریاں مساوی و یکساں ہیں تو ہم بے حد ترقی کر جائیں گے۔ ہمیں اس جذبہ کے تحت کام شروع کردینا چاہیے پھر رفتہ رفتہ اکثریت و اقلیت کے مسلمان اور فرقہ اور ہندو فرقہ کے تمام اختلافات مٹ جائیں گے ”اور قائد اعظم مسلکی تقسیم کے سخت خلاف تھے جیسا کہ

ایک مرتبہ قائد اعظم سے کسی نے پوچھا کہ: آپ شیعہ ہیں یا سنی

قائد اعظم نے الٹا اس سے سوال کیا : حضرت محمد صلی اللہ علیہ والسلم مذہباً کیا تھے؟

اس شخص نے کہا: مسلمان

قائد اعظم نے کہا: میں بھی مسلمان ہوں

اگر آج ہم پاکستان کو دیکھیں تو اس میں ہمیں تفریق نظر آئے گی جس کے قائد اعظم حامی نہ تھے آج’’ میں مسلمان تو کافر‘‘ نظر آئے گا جس کے قائد اعظم حامی نہ تھے آج اقلیتو ں کے حقوق سلب کئے جارہے ہیں جس کے قائد اعظم حامی نہ تھے آج اقلیتیں اپنی جان بچانے کے لئے ملک سے جا رہی ہیں مگر قائد اعظم اس کے حامی نہ تھے۔ قومی اسمبلی نے قائد اعظم کی اس تقریر کو آئین پاکستان کو حصہ قرار دینے کی قراردار منظور تو کی ہے مگر اس پر عمل نہیں ہوا اور قائد اعظم نے جو اصول ریاست اور شہری حقوق کے دئے تھے ہم ان اصولوں سے پیچھے ہٹ گئے ہیں اسی لئے پاکستان اس وقت مذہبی انتہا پسندی کی چکی میں پس رہا ہے ۔ قائد اعظم تو مذہبی ، مسلکی اختلافات مٹانے کی بات کرتے تھے مگر ہم تو دن بدن بٹتے ہی جا رہے ہیں ہم نے کبھی کسی مذہبی برادری کو دھکے مار کر اسلام سے باہر کردیا اور کسی اقلیتی جماعت کو ہم نے دھکے ماہر کر قومی دھارے سے نکالا اور اب ان کو ملک سے بھی نکالنے میں مصروف ہیں۔ قائد اعظم کی 11اگست 1947 میں پاکستان میں ہر شہری کو مذہبی آزادی دینے اور ریاستی کو کبھی بھی مذہبی نہ ہونے کی ہدایت تھی اور یہی قیام پاکستان کاابتدائی اور اہم نقطہ تھا مگر ہم نے اس کو پس پشت ڈال دیا

آج آزادی کے سالوں گزرنے کے بعد بھی پاکستانی معاشرہ اور پاکستانی معاشرہ کا امن قائد اعظم کی 11 اگست کی تقریر کے مطابق پاکستان کی تعمیر کا منتظر ہے۔ کاش کبھی ایسا بھی 11اگست جو خواب قائد کی تعبیر والا 11 اگست ہو۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button