کالمز

شندور کا مقدمہ (حصہ دوئم)

ممتاز حسین گوہر

(گزشتہ سے پیوستہ)

میرے انتہائی محترم عنایت اللہ فیضی صاحب! میں نے "شندور اور کو کوش لنگر (حقائق نامہ)” کے عنوان سے ایک انتیس صفحات پر مشتمل چھوٹا سا کتابچہ پڑھا۔ جسے آپ اور محمد شہاب الدین ایڈووکیٹ نے تحریر کیا ہے۔ اس کتاب کے سرورق اور اندر کے چند صفحات کو شندور کے تجاوزات پر مشتمل تصاویر سے مزین کی گئی ہے۔یہاں انتہائی غور طلب بات یہ ہے کہ اس مختصر کتابچے کے حرفے چند میں لکھا گیا ہے کہ "پڑوسی ملک کی خفیہ ایجنسی ریسرچ اینڈ اینے لی سس ونگ (RAW)نے انگریزی میں کتابچہ شا ئع کر کے شندور کو گلگت بلتستان کی ملکیت ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی اور شندور کو اس خطے کا حصہ قرار دیا جو پاکستان اور ہندوستان کے مابین کشمیر کے نام سے متنازعہ چلا آرہا ہے۔کتابچے کے مصنف رائے سرفراز شاہ کا تعلق ضلح غذر کے گاؤں گوپس سے ہے۔کتابچہ کی اشاعت کے بعد اسے خفیہ رکھا گیا۔ ایک سو کی تعداد میں کاپیاں شائع کر کے دہلی، سری نگر اور گلگت بلتستان میں خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں کو دے دیا گیا”۔

حرفے چند میں صرف اسی پہ اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ مزید لکھتے ہیں کہ بہت جلد شندور کے حوالے سے پڑوسی ملک نے پشاور میں اپنی سرگرمیوں کا جال بچھایا اور خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان حکومت کے ذمہ داران اور آفیسران نے ایک خفیہ دستاویز پر دستخط کئے۔

قارئین کرام! عنایت اللہ فیضی اور محمد شہاب الدین ایڈووکیٹ کی اس کتابچے کے حرفے چند یا ابتدائے کو پڑھنے اور یہاں لگائے گئے انتہائی حساس مگر فرضی اور خیالی قسم کے الزامات سے اس کتابچہ کی حقیقت واضح ہو جاتی ہے۔ ایک کتابچہ کا آغاز ہی انتہائی زہر آلود قسم کے الفاظ اور اور ایک شخص کے ذات پر حملوں سے ہوں اور ایک معزز شہری کو بغیر کسی ثبوت و دلیل کے پڑوسی ملک کا ایجنٹ قراردیا گیا ہو۔ ایسا کتابچہ انتیس صفحات کا ہو یا انتیس سو صفحات کا کون اسے پڑھے گا تو کون اس میں دی گئی معلومات پر یقین کرے گا۔ انتہائی انتقام کے آگ میں جھلے ہوئے اور مٹی کی محبّت میں تمام حقائق کو مسمار کر کے پسند کی دیوار بنانے سے زمینی تسلیم شدہ حقائق مسخ نہیں ہوتے۔ اس یکطرفہ مختصر کتابچہ کے آخری صفحات رائے سرفراز کی کتاب کو ’’مشکوک کتاب‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔رائے سرفراز شاہ کی کتاب اور حقائق نامہ کو بغور پڑھا جائے تو حقائق خود بخود عیاں ہو جاتے ہیں۔ خیر ان دونوں کتابوں پر کسی اور وقت تفصیل سے پھر بات ہوگی لیکن سر دست یہی کہوں گا کہ عنایت اللہ فیضی اور محمد شہاب الدین ایڈووکیٹ صاحب نے حقائق نامہ نہیں بلکہ ایک نفرت نامہ لکھا ہے. شہاب الدین صاحب کا نام میں نے پہلی بار سنا ہے مگر مجھے فیضی صاحب سے ایسی امید کبھی نہیں تھی اور یقیناً اس کے بعد آپ غذر اور گلگت بلتستان سے محبت اور وابستگی کا دعوی کریں گے تواس پر بھی سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔کیوں کہ آپ نے گلگت بلتستان سکاؤٹس، جی بی انتظامیہ، پشاور میں ایم او یو پر دستخط کرنے والے حکومتی و سرکاری افسران، گلگت بلتستان کے سابق رکن اسمبلی و مشہور معلم استاد رائے سرفراز شاہ و دیگر کے حوالے سے جس طرح کی زبان اور جس طرح سے الفاظ کا چناؤ کیا ہے اس کے بعد کئی چھپی ہوئی حقیقتیں بھی تھیلی سے باہر آگئی ہیں۔ اب اس پر مذید وضاحتوں کی ضرورت بھی باقی نہیں رہتی ہے۔

جو انسان غذر کی امن پسندی اور غذر سے محبّت کی مثالیں دیتے ہوئے نہ تھکتا ہو اس کا اچانک ایک سرحدی مسئلے پر تمام حدود و قیود پار کرنا سمجھ سے بالا تر ہے۔غذر کے جس شخص پر آپ نے را کا ایجنٹ ہونے، بھارت کے کہنے پر کتاب لکھنے اور دہلی و سری نگر میں کتابیں بیجھنے کا الزام لگایا ہے وہ کوئی عام بندہ نہیں تین دہایوں سے زائد عرصہ مختلف سرکاری سکولوں میں بطور معلم (ہیڈ ماسٹر) خدمات انجام دے کر ریٹائر ہوگئے ہیں۔ اس دوران وو دیگر اہم سرکاری عہدوں پر بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ گلگت بلتستان اسمبلی کے منتخب عوامی ممبر بھی رہ چکے ہیں. ایسے شخص پر الزام تراشی سے درس و تدریس سے منسلک دیگرافراد پر بھی سوالات جنم لے سکتے ہیں اور یقیناً آپ بھی ایک سرکاری ادارے میں ہی معلمی کے فرائض نبھا رہے ہیں۔ذرا احتیاط سے کام لینا کیوں کہ آپ نہ صرف ایک ا علی پائے کے معلم ہیں بلیک بڑے لکھاری، محقق، اور تجزیہ نگار بھی ہیں۔اور کوئی اسی طرح کے الزامات آپ پر بھی نہ لگائے۔ کیونکہ سرفراز شاہ کی طرح شندور پر آپ نے بھی کتابچہ تحریر کیا ہے۔مجھے یہ ڈر ہے کہ اس تحریر کے بعد کہیں مجھے بھی را کے اہم ذمہ دار کے طور پر پیش نہ کیا جائے یا پھر وہی بات ہی نہ دوہرائی جائے کہ مجھے بھی کہیں سے ڈکٹیشن ملی ہے اور مجھے سے بھی ایک خفیہ منصوبے کے تحت یہ تحریر لکھوائی جا رہی ہو۔ کیوں کہ حقائق نامہ سے لکھی گئی کتاب میں حقائق اتنے نہیں ہیں جتنا سہارا الزامات اور ذاتیات پر حملوں سے لیا گیا ہے۔ یہ بات یاد رہے سرفراز شاہ سے میری دور دور تک کی کوئی رشتہ داری اور نہ کسی قسم کا کوئی تعلق ہے بس اب تک ان سے ایک ہی بار بائی چانس ملاقات ہوئی ہے۔ لہذا ان سے تعلق جوڑ کر کوئی الزام لگانا بھی بے سود ہوگا۔ عجیب بات ہے شندور کے حوالے سے سرفراز شاہ کتاب لکھتا ہے تو وہ سری نگر اور نئی دہلی کا ایجنٹ اور چترال کا کوئی بندہ کتاب لکھے تو وہ خالص محب وطن پاکستانی۔ واہ کیا انصاف ہے!!

گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں پر ایک خاص سوچے سمجھے منصوبوں کے تحت قبضہ کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔گلگت بلتستان کے نامور محقق اور تجزیہ نگار علی احمد جان نے حال ہی میں ایک آن لائن بلاگ میں لکھے گئے اپنی تحریر میں اس مسئلے پر سے پردہ اٹھایا ہے۔وہ لکھتے ہیں "ہمیں یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ گلگت بلتستان کی سرحدیں اس خطے کے تنازع کے حل تک حکومت پاکستان کے پاس بطور امانت ہیں جس میں کسی قسم کی تبدیلی نہ کرنے کا اپنے وعدے کے مطابق بطور فریق ریاست کے صرف نہ وہ خود پابند ہے بلکہ اپنے شہریوں کو بھی خلاف ورزی سے روکنے کی پابند ہے۔”

وہ مزید لکھتے ہیں ” حکومت پاکستان کی یہ بین الاقوامی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے موقف کی خود پاسداری کرے اور گلگت بلتستان کے حدود اور اس کی سرزمین میں ارادی اور غیر ارادی دراندازی، قبضے اور حیثیت میں تبدیلی کے اقدامات کو روکے اور لوگوں کو اقوام متحدہ کے قرار دادوں کے مطابق سیاسی اور دیگر بنیادی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنائے۔ اگر اس خطے میں دراندازیوں اور جبری قبضے کا سلسلہ نہ رکا تو ایک طرف پاکستان اقوام عالم کی نظروں میں اپنی اخلاقی برتری کھودے گا اور اس تنازعہ کے حل کے لیے درکار حمایت سے محروم ہو جائے گا تو دوسری طرف گلگت بلتستان کے عوام کے اعتماد کو دھچکا لگے گا۔”

اور یقیناً اس بات میں کسی بھی قسم کی شک کی گنجائش نہیں ہے کہ گلگت بلتستان بلتستان کی سرحدوں کی حفاظت حکومت پاکستان اور پاک افواج کی اولین ذمہ داری ہے۔ اگر یہاں کے سرحدوں میں کسی قسم کی بھی ردو بدل ہو گی تو یقیناً مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان کے موقف کو شدید دھچکہ لگے گااور انڈیا کا موقف اس حوالے سے بھاری ہو جائے گا۔ اب یہ بات سمجھنے کی ہے کہ گلگت بلتستان کی حدود کی خلاف ورزیوں سے پاکستان کو فائدہ ہو رہا ہے یا انڈیا کو۔کرنل ڈیورنڈ نے برطانوی ہند کے زمانے میں جو لائن کھینچی ہے وہ ہمیشہ کے لیے امر ہو چکی ہے۔اب مختلف کتابوں، تحریروں،حوالوں اور دوسروں کو زبردستی کسی دشمن ملک کے خفیہ ایجنسی کے ساتھ جوڑنے سے حقائق تو کسی صورت تبدیل نہیں ہونگے البتہ عالمی سطح پر کشمیر کے حوالے سے پاکستان کا موقف کمزور ضرور ہو جائے گا۔

ایک اور اہم بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ سروے نقشہ شیٹ 12 42D/اور میپ شیٹ ”شمال مغربی سرحدی صوبہ” آف 1903 اور اس کا نواں پبلکیشن جو 1984 میں جاری ہوا یہ ظاہر کرتے ہیں کہ شندور کو پانی بہاؤ کے عالمی قانون کے تحت تقسیم کیا گیا ہے۔ اس قانون کے تحت پنجی لشٹ ہی باونڈری لائن بنتی ہے۔اگر کسی کی ذاتی خواہش پر اس عالمی سطح پر منظور کردہ قانون پر تبدیلی کی جاتی ہے تو اس سے انتہائی سنگین مسائل سامنے آ سکتے ہیں اور ملکی سلامتی کو بھی خدا نخواستہ خطرات درپیش آسکتے ہیں کیوں کہ پاکستان کے اکثر پڑوسی ممالک سے اسی قانون کے تحت سرحدیں تقسیم ہوئیں ہیں۔

شندور کے حوالے سے مجھے مجبوراًایسی تاریخی شہادتوں کا سہارا لیتے ہوئے یہ نکتہ بار بار تنگ کر رہا ہے کہ ایسی شہادتیں سامنے لا کر عوام کے جذبات کو ابھارنے سے کیا شندور کا مسئلہ حل ہو جائیگا؟کیا ان شہادتوں کو سامنے لانے کے لیے یہ موزوں فورم ہے؟ کیا ایسا تو نہیں ہو رہا کہ ہم گلگت بلتستان اور چترال کے باہمی پیار اور محبّت کی کہانیاں سنتے اور حوالے دیتے دیتے اسے قصہ پارینہ بنانے کی کوشش تو نہیں کر رہے؟

میں اپنے انتہائی محترم فیضی صاحب جن کا میں دل سے قدر کرتا ہوں اور عوام چترال کا جن کے خلوص، کلچر اور امن پسندی کا میں دل سے قائل ہوں اس تحریر میں کوئی بھی ایسی بات جوناگوار لگی ہو تو معذرت خواہ ہوں۔باقی وہ تاریخی حقائق جو آپ کو ناروا لگے ان پر میں کچھ نہیں کر سکتا۔کیوں کہ کبھی کبھار تلخ حقائق کا بھی سامنا کرنا زندہ دلی سے کم نہیں۔

میرے مطابق مسئلے کو مزید الجھانے کے بجائے سلجھانے کی اشد ضرورت ہے۔ گلگت بلتستان اور غذر کی حکومتیں اور انتظامیہ شروع سے لے کر اب تک اس مسئلے کو افہام و تفہیم سے حل کرنے میں مکمل ناکام ہو چکی ہیں۔ یہاں خیبر پختونخوا اور پنجاب سے آنے والے چیف سیکرٹریز اور دیگر متعلقہ آفیسران نے اہم مسئلے کو ہمیشہ پس پشت ڈالا ہوا ہے۔ اس بات کی واضح مثال جب 2013 میں عوام نے شندور کے مسئلے پر سوموٹو ایکشن کے لیے سپریم اپپلیت کورٹ گلگت میں درخواست دی۔اس وقت کے جج نے چیف سیکرٹری سیف اللہ چٹھہ کو شندور پر رپورٹ جمع کرانے کا کہا تو اس نے رپورٹ جمع کرانے کے بجانے اپنے تبادلے کو ترجیح دی۔ہاں البتہ غذر کے موجودہ ڈپٹی کمشنر نے جو کردار ادا کیا ہے وہ موجودہ و سابق منتخب نمائندے اور سابق افسران کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ ہے بشرطیکہ وہ اس حقیقت کو سمجھ پائیں۔

مجھے اب یہ بھی خدشہ ہے کہ آپ بھی اس تحریر کے بعد مجھے کسی سازشی عناصر، ریڈیو آگاشوانی کا نمائندہ یا پھر کسی کا ایجنٹ ڈکلئیرنہ کر دیں۔

مجھ کو ظا لم کا طرفدار نہیں لکھ سکتے

کم سے کم وہ مجھے لاچار نہیں لکھ سکتے

جا ں ہتھیلی پہ لئے بول رہا ہوں جو سچ

اس کو اس دور کے اخبار نہیں لکھ سکتے

محترم فیضی صاحب!آپ نے خود یہ بات کہہ دی تھی کہ اپنی مٹی سے محبّت ہے تو اس کے تحفظ سے کیسے پیچھے ہٹ سکتے ہیں۔ لیکن میرا اس حوالے سے بھی موقف واضح ہے اور میں اس وقت ایک قدم نہیں بلکہ مکمل پیچھے ہٹ جاوٗں گا جب قانونی و تاریخی طور یہ علاقہ چترال کا حصہ قرار دیا جائے۔ اگر ثالث اور غیر متنازع فریق یہ فیصلہ دے دیں تو اس فیصلے کے آگے میں سر تسلیم خم کروں گا۔لیکن بیانات اور زور زبردستی کی بنیاد پر نہیں۔کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ دونوں علاقے کے تمام ذمہ دار اور متعلقہ سٹیک ہولڈرز یہ لکھ کر دیں کہ ایک غیر متنازع فریق جس پر سب کا اتفاق ہے جو بھی فیصلہ کرے سب کو قابل قبول ہوگا۔ اگر اس مسئلے کو اسی طرح ہی الجاتے رہیں گے تو میرے حساب سی کبھی حل نہیں ہوگا۔بلکہ اس مسئلے کی وجہ سے دونوں علاقوں کے عوام ایک دوسروں سے دور ہو جاتے رہیں گے۔خلیج بڑھے گی، سازشی عناصر عملی طور پر سامنے آجائیں گے دونوں علاقوں کو لڑا کر اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کوششیں کریں گے۔ سال کے جن تین دن دنوں میں یہ میدان آباد ہوتا ہے اور دونوں اطراف کے عوام ایک دوسروں سے ملتے ہیں یہ سب بھی ختم ہوتا جائے گا۔ اگر ہم شندور کو بھی کشمیر بنائیں گے تو کچھ لوگ پستے رہیں گے اور کچھ کی دال روٹی گھلتی رہے گی اور یہ بروقت سمجھنا چاہئے کہ کون رل جائیں گے اور کون رلاتے رہیں گے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button