کالمز

کوئٹہ میں دہشت گردی کا ذمہ دار کون ہے؟

تحریر: سید انور محمود

افغان جہاد نے جہاں پاکستان سے ایک آزاد انداز فکرکو چھین لیا، وہیں داخلی اور خارجی رویوں میں بھی نمایاں تبدیلی آگئی۔ جن کی بات پسند نہیں آئی ان کو مار دیا اور جن کی سوچ مختلف لگی ان کو غائب کروا دیا۔ عرصہ ہوا ضیاالحق کی لگایا ہوا جہاد کا پودا تناور درخت بن چکاہے۔ صوبہ  بلوچستان کےدارالحکومت کوئٹہ شہر میں پہلا حملہ سردار نثار کی گاڑی پہ ہوا جس کے نتیجے میں ان کا گارڈ اور ڈرائیور ختم ہوئے۔ یہ پہلا قتل تھا مگر اب یہ تعداد ہزاروں میں ہے۔ مارنے والے اتنے اطمینان سے مارنے آتے ہیں گویا انہیں مکمل یقین ہے کہ ان کے اس فعل کے پیچھے مذہب سے لے کر ریاست تک تمام سرکردہ لوگ موجود ہیں۔پاکستان کیلئے ایسا سانحہ کوئی نئی بات نہیں رہی اور سانحے کا معمول بن جانا ہی دراصل سب سے بڑا المیہ ہے،تھوڑئے دن بعد کوئٹہ میں کیا ہوا کسی کو یاد نہیں ہوگا سوائے انکے جن کے گھروں سے جنازئے اٹھے ہیں۔

آپریشن ضرب عضب اور قومی ایکشن پلان سے بچ نکلنے والے عناصر بدستور قومی سلامتی کے درپے ہیں اور موقع ملتے ہی کونے کھدروں سے نکل کر آتش و آہن کا کھیل شروع کر دیتے ہیں۔ آپریشن ضرب عضب کی وجہ سے بم دھماکوں، خودکش حملوں اور ٹارگٹ کلنگ کے سنگین واقعات میں مسلسل کمی سے بلوچستان میں معمول کی سماجی تجارتی اور معاشرتی سرگرمیاں بحال ہونے کی وجہ سے ایسا لگتا تھا کہ رقبہ کے لحاظ سے ملک کا یہ سب سے بڑا صوبہ اندرونی اور بیرونی دشمنوں کی سازشوں اور تخریب کاری کی مجنونانہ کارروائیوں سے بچتے بچاتے اب رفتہ رفتہ امن سکون کے راستے پر چل نکلا تھا، لیکن آٹھ اگست اور گیارہ اگست   کو ہونے  والی دہشت گردی کے نتیجے میں جو دل دہلا دینے والے سانحے ہوئے انہوں نے تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ کوئٹہ میں گذشتہ چار روز میں دہشت گردی کے دو واقعات  ہوچکے ہیں، کوئٹہ جو کبھی پھلوں کا شہر کہلاتا تھا اب  موت  کا شہربن چکا ہے۔

کوئٹہ میں 15سال میں دہشت گردی کے چھ بڑے واقعات میں ایک جیسی ہی منصوبہ بندی کی گئی۔ 8 اگست2016کوئٹہ سول ہسپتال میں ہونے والا دھماکا 8 اگست2013 کو پولیس لائن کوئٹہ میں ہونے والے خودکش دھماکے کے ساتھ اس لیے مماثلت رکھتا ہے کہ اس دھماکے میں پہلے ایئر پورٹ روڈ پر ایس ایچ او کو ٹارگیٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا۔ سہ پہر کو جب ایس ایچ کی پولیس لائن میں نماز جنازہ ادا کی جارہی تھی تو خودکش حملہ آور نے اپنے آپ کو اڑا دیا۔ اس واقعے میں ڈی آئی جی، سنیئر پولیس افسران سمیت44 پولیس اہل کار جاں بحق ہوگئے تھے اور60 پولیس اہل کار زخمی ہوئے تھے۔آٹھ اگست 2016  کی صبح کوئٹہ میں  ایک بڑی دہشت گردی  اسی منصوبہ کے تحت ہوئی کہ پہلے چھوٹا واقعہ اور پھر اس واقعے کی وجہ سے جمع ہونے والے زیادہ افراد کو نشانہ بنایا جائے۔ کوئٹہ کے علاقے منوجان روڈ پر بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر بلاول انور کاسی نامعلوم افراد کی فائرنگ سے جاں بحق ہوگئے تھے، ان کی لاش سول اسپتال لائی گئی تھی،  لاش ہسپتال پہنچی تو اس وقت وکلا بھی جمع ہونا شروع ہو گئے۔ وکلا کی بڑی تعداد اسپتال میں موجود تھی اور جب بلال انور کاسی کے درجنوں ساتھی وکلا لاش کی طرف بڑھے  تو دھماکہ ہو گیا اور ہر طرف لاشیں ہی لاشیں نظر آئیں، دھماکے کے بعد فائرنگ کی آوازیں بھی سنی گئیں۔

کوئٹہ کے سول ہسپتال پر ہوئے خونریز خود کش بم حملے میں جاں بحق ہونے والوں میں نجی ٹی وی آج نیوز اور ڈان نیوز کے کیمرہ مین بھی شامل ہیں۔ جاں بحق ہونے والوں میں ہسپتال میں زیر علاج مریضوں کے باہر بیٹھے رشتہ دار بھی شامل ہیں۔ خود کش بم حملے میں 74افراد جاں بحق اور120سے زائد زخمی ہوگئے۔ جاں بحق ہونے والوں میں زیادہ تعداد وکلا برادری کی ہے جس میں بلوچستان بار کے سابق صدرباز محمد کاکڑ بھی شامل ہیں۔ اس حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ ان دونوں دھماکوں کے لیے باقاعدہ پلاننگ کی گئی اور8 اگست کی تاریخ بھی اسی پلاننگ کے تحت رکھی گئی۔ دو دن بعد 11 اگست 2016 کو فیڈرل شریعت کورٹ کے جج ظہور شاہ وانی کے قافلے کو ریموٹ کنٹرول بم دھماکے سے نشانہ بنایا گیا جس میں 14 افراد زخمی ہو گئے، جس میں چار پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔ اس واقعہ سے ایک رات پہلے ہی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کی ہدایت پر کوئٹہ شہر کے مختلف علاقوں میں شدت پسندوں کے خلاف کومبنگ آپریشن بھی شروع کیا گیا تھا۔

حکمرانوں  کو عام لوگوں  کی  نہ تو پرواہ ہے اور نہ ہی انہیں یہ فکر ہےملک کے اسپتالوں میں عام لوگوں کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے۔ ہما رئے ارباب اختیار یعنی وزیر اعظم ، وزرا، افسر شاہی اور ملک کے دولت مند ملک میں موجود  ہسپتالوں  سے اپنی چھوٹی سے چھوٹی  بیماری کا علاج کروانا پسند نہیں کرتے جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ ہمارئے ملک  کے ہسپتالوں میں سہولت اور بہتر علاج ناپید ہیں یہ ہی وجہ ہے کہ وہ  اپنے اور اپنے بچوں کے علاج یورپ اور امریکہ سے کرواتے ہیں۔ دہشت گرد اب اسکولوں ، عدالتوں اور ہسپتالوں کو نشانہ بنارہے ہیں۔ بلوچستان میں کالعدم دہشت گرد تنظیموں کے کئی گروہ سرگرم عمل ہیں جنہیں بعض غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں کی عملی مدد حاصل ہے،  افغان سرحد سے جہاں بھارتی قونصل خانوں کی صورت میں دہشت گردوں کے تربیتی مراکز موجود ہیں چور دروازوں سے تخریب کار آتے رہتے ہیں خود صوبے کے اندر موجود تخریبی عناصر بھی موقع کی تلاش میں رہتے ہیں ایسی صورت حال میں حکومت کو سکیورٹی انتظامات پر زیادہ توجہ دینی چاہئے، دہشت گرد خواہ کوئی بھی ہوں، داعش، طالبان، کالعدم تنظیمیں یا ’را‘، اب بہت ہوگیا، حکمران  جواب دیں کہ وکلاء کی ایک نسل مٹانے والے کون ہیں؟ اور سول اسپتال تک دہشت گرد کیسے پہنچ گیا؟ بعض وقت متعلقہ ادارے بروقت فیصلے نہیں کر پاتے حالیہ سول ہسپتال کا واقعہ بھی ایسی ہی غفلت کا نتیجہ ہو سکتا ہے حکام نے واقعے کے بعد ہسپتال کے احاطے میں جیمرز لگا دیئے یہ پہلے لگا دیئے جاتے تو زیادہ موثر ہوتے۔

وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری نے کہا ہے کہ یہ واقعہ بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کی کارستانی ہے۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان  کے ’را‘ پر الزام لگانے کی تصدیق  بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کی  بھارت کی یوم  آزادی   کے موقعہ پرکی  گئی تقریر سے ہوگیا۔ بھارت وہی مکروہ کھیل بلوچستان میں کھیل رہا ہے جو مشرقی پاکستان میں 1971 میں کھیلا گیا تھا۔ نریندر مودی کو گلگت، بلوچستان یاد آیا پر مقبوضہ کشمیر یاد نہ آیا جہاں بھارتی فوج نہتے کشمیریوں پرمظالم کی نئی داستان رقم کررہی ہے۔ 10 اگست کو قومی اسمبلی میں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ سانحہ کوئٹہ کی ابتدائی تفتیش میں چند شواہد ملے ہیں، کوئٹہ سانحہ ایک روٹین کا دہشت گرد حملہ نہیں تھا۔ اگلے دن وفاقی وزیر داخلہ یہ بھول گئے کہ کوئٹہ میں  کیا ہوا تھا بلکہ انہوں نے وہی گندی سیاست شروع کردی، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف  پر انہوں نے ذاتی الزامات کی بارش کردی، جس کے جواب میں  پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف دونوں  نے ان  پرجوابی حملہ کیا جو وہ چاہتے تھے یعنی کوئی حکومت سے یہ نہ پوچھے کہ  کوئٹہ میں دہشت گردی کا ذمہ دار کون ہے ؟

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button