کالمز

سرزمین شندور اور’ راء‘ کی مبینہ سازش 

کریم اللہ

گو کہ جشن شندور انعقاد ہوئے تقریباََآدھا ماہ کا عرصہ بیت چکے ہیں لیکن اب تک شندور کی ملکیت کے حوالے سے مختلف آرا ء تجزیوں کی صورت میں آئے روز دیکھنے کو ملتی ہے۔ اس جشن کے انعقاد سے قبل خیبر پختونخواہ حکومت اور حکومت گلگت بلتستان کے درمیان ناکام مزاکرات کے بعد غذر کے ممبر قانون ساز اسمبلی اور پارلیمانی سیکٹری فداخان فداصاحب نے بیان دیا کہ گلگت بلتستان علیحدہ سے شندور میں پولوٹورنامنٹ منعقد کرے گا ۔ پھر کیا تھا کہ سوشل میڈیا سے لے کر الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا تک ہر جگہ اس مسئلے پر بحث شروع ہوئی کسی کو فداخان فدا کے اس بیان میں پڑوسی ملک بھارت کے خفیہ ادارے را ء کی سازش کی بو محسوس ہوئی تو کسی نے عجائب خانوں سے نواردات نکال کر حق ملکیت ادا کیا شندور کے زمین کی ملکیت سے متعلق الفاظ کی یہ جنگ آج بھی انتہائی شدت سے جاری ہے جہاں ایک طرف چترال سے تعلق رکھنے والے نامور ادیب وکالم نویس ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی دلائل کے انبار لئے میدان میں موجود ہے تو وہیں شہاب الدین ایڈوکیٹ بھی فیضی صاحب کے شانہ بشانہ الفاظ کی اس لڑائی میں حق اداکرتے ہوئے نظر آرہے ہیں پھر غذر والے کیوں خاموش بیٹھے ادھرشندور کی ملکیت اور عالمی قوانین سے متعلق ممتاز حسین گوہر صاحب کی خوبصورت تحریروں سے لطف اندوز ہو رہے تھے کہ درمیان میں برادرمحترم فدا علی شاہ غذری بھی دل کو چھونے والی تحریروں کے سات میدان میں کود پڑے اور یوں ہر جانب دلائل اور جوابی دلائل کا ایک انبار لگ گیا اس دوران ہم جیسے تاریخ کے آدنیٰ طالب علم کے لئے اس ساری شور وغل میں سیکھنے کو بہت کچھ مل رہا ہے ۔

ادھر اطلاع آئی ہے کہ ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی اور شہاب الدین ایڈوکیٹ نے مل کر 29اوراق پر مشتمل ایک کتابچہ شائع کرتے ہوئے شندور کو برسوں پرانی تاریخی روایاتوں کے ذریعے لاسپور کی ملکیت ظاہر کرچکے ہیں ادھر غذر کے سابق ایم ایل اے سرفراز شاہ صاحب کی کتاب کا بہت چرچا ہے ۔ لیکن ہماری حالت ایسی ہے کہ نہ تو فیضی اور شہاب الدین ایڈوکیٹ کے شندور پر لکھے گئے حقائق نامہ کو پڑھنے کا ابھی تک اتفاق ہوا ہے اور نہ ہی سرفراز شاہ کی کتاب کہیں نظروں سے گزری ہو ۔ اس کے علاوہ شندور کی تاریخی حیثیت سے متعلق بھی ہمارا علم ناقص ہے۔ یوں اس ساری صورتحال میں ہم نے اس متنازعہ مسئلے پر بات کرنے کی بجائے فیصلہ کیا ہے کہ دنوں شدتوں کے درمیان کوئی اعتدال کا راستہ ڈھونڈھ نکالاجائے ۔

امر واقعہ یوں ہے کہ پچھلے سال شندور ویلفر سوسائیٹی نامی ایک تنظیم جس کا سربراہ رسالہ ’ماہنامہ شندور‘ کے چیف ایڈیٹر محمد علی مجاہد ہے کی جانب سے پشاور کے پرل کانٹی نینٹل ہوٹل میں جشن شندور سے متعلق ایک سیمینارکا انعقاد ہو اجس میں اس وقت کے گلگت بلتستان کی نگران حکومت کے ارکین ، سول سوسائیٹی کے اہلکار وں ، صحافیوں ، دانشوروں ، گلوکاروں سمیت چترال سے ایم پی اے مستوج سید سردارحسین ، ایم پی اے چترال سلیم خان ، ایم پی اے بی بی فوزیہ ، سیاسی جماعتوں کی قیادت ، صوبائی مشیر سیاحت سمیت اعلیٰ سیاسی وسماجی وعسکری قائدین نے شرکت کی ۔ گلگت بلتستان سے آئے ہوئے مہمانوں کو کورکمانڈر پشاور ہدایت الرحمن نے نہ صرف استقبال کیا بلکہ وہ ان کے ہاں مہمان بھی ٹہرے اگر میں غلط نہیں تو اس سیمینار میں کور کمانڈر پشاور بھی بنفس نفیس شریک تھے ۔لیکن آفسوس اس بات کی کہ اس سیمینار میں معزز دانشور کو نہیں بلایا گیا جس کی وجہ سے شور برپا ہوا کہ اس سیمینار کے انعقاد میں بھارتی خفیہ ایجنسی راء نے فنڈنگ کی ہے اس کے بعد محمد علی مجاہد کی ذات پر بھی تابڑ توڑ حملوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہواجو ہنوز جاری ہے ، صرف محمد علی مجاہد نہیں بلکہ اس ساری شور وغل میں گلگت بلتستان کے کئی سیاسی وسماجی شخصیات کی ذات کو بھی متنازعہ بنا کر انہیں راء کا ایجنٹ کے طورپر پیش کیاجارہاہے ۔ مثلاََ فیضی صاحب کے بقول وہ پشاور میں تھے لیکن اس سیمینار کو ان سے خفیہ رکھا گیا اور اسے اس کی اطلاع آل انڈیا اور آکاشوانی ریڈیو کے ذریعے ہوئی، سوال یہ پوچھتاچلوں کہ کیا فیضی صاحب کے پاس اس نشریات کی کوئی ریکارڈنگ بھی موجود ہے یا ان دونوں ریڈیوں چینلوں کے ویب سائٹ پر جاکر ان خبروں کی لنک بھی اپنے کالموں سے منسلک کرتے تو حالات کو سمجھنے میں آسانی ہوتی اگر آل انڈیا ریڈیواور ریڈیوآکاشوانی نے سیمینار کی اس خبر کو نشر کیاتھا تو بھارت کے منہ پھٹ ٹی وی چینلوں اور اخبارات میں بھی وہ خبر نشر ہوچکی ہوگی فیضی صاحب سے گزارش ہے کہ وہ ان سارے خبروں اور تجزیوں کو جمع کرکے اپنے فیس بک پیچ میں اب لوڈ کریں تاکہ ہم بھی دیکھے کہ آخر ہواکیاتھا، الزامات کے اس سلسلے میں سابق حکومت گلگت بلتستان میں وزیر اطلاعات محترمہ سعدیہ دانش کو بھی ملوث کیا گیا ۔

یہاں بنیادی مسئلے کی جانب توجہ مرکوز کرنا مناسب سمجھتا ہوں یہ کہ جن اشخاص پر راء سے پیسے لینے یا ان کی ہدایات پر عمل پیرا ہو کر شندور کی زمین کو متنازعہ بنانے کے الزامات ہے ان کو چاہئے کہ وہ عوام کے سامنے اپنی صفائی پیش کرے اس سلسلے میں محمد علی مجاہد کی خاموشی کئی قسم کے سوالات کو جنم دے رہی۔ کیونکہ ان کے منعقد کردہ سیمینار کے بعد سے ہی الزام تراشی کا یہ سارا سلسلہ جاری ہے یہ محمد علی مجاہد کی اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنی صفائی دے ،محمد علی مجاہد جتنا خاموش رہینگے اتنا ہی ان کی ذات متنازعہ ہوتی جائے گی ۔ ڈاکٹر فیضی صاحب کی جانب سے تسلسل سے نام لئے بغیر ان پر راء کے ایجنٹ ہونے کے الزامات لگ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ نامور صحافی ودانشور محمد شریف شکیب کابھی اس سارے شوروغل میں خاموش رہنا حالات کو اوربھی کنفیوز کررہے ہیں، پشاور میں منعقد ہونے والی اس سیمینار میں وہ نہ صرف موجود تھے بلکہ پروگرام کے سارے انتظامات بھی ان کے پاس تھی پھر یہ خاموشی کیامعنی رکھتا ہے کہیں ایسا تو نہیں کہ’کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہورہی ہے‘‘۔ذرائع سے پتہ چلا ہے کہ سابق ایم ایل اے غذر سرفراز شاہ نے فیضی صاحب کے خلاف ہرجانے کا کیس دائر کیا ہے اس میں کتنی صداقت ہے خدا ہی بہتر جانتا ہے لیکن ان کی جانب بھی فی الحال خاموشی چھائی ہوئی ہے ، سعدیہ دانش کو یا تو اس سارے ڈرامے کا علم نہیں یا وہ بھی خاموشی میں اپنی عافیت سمجھتے ہیں حالانکہ وہ بھی صاحب علم لکھاری ہے جو اپنا مدعا بیان کرسکتے ہیں نہ جانے کیوں وہ خاموشی میں عافیت سمجھے ہوئے ہیں ۔ اس کے علاوہ اور کئی کردار ایسے ہیں جن کی شخصیت اس ساری ڈرامہ سازی کے دوران مشکوک ہوتی جارہی ہے ان میں ایم پی اے مستوج سید سردارحسین ،ایم پی اے فوزیہ بی بی ، حکومت خیبر پختونخواہ اور کئی سیاسی راہنما شامل ہے۔ سیمینار کے اگلے چند دنوں کے اندر اندر لاسپور میں پروپیگنڈاکیاگیا کہ ایم پی اے مستوج سردارحسین پشاور میں منعقدہ سیمینار میں شندور گلگت بلتستان کے حوالے کردی ہے اس کے بلدیاتی انتخابات پر جو تباہ کن اثرات مرتب ہوئے وہ اپنی جگہ ، لیکن اب بھی یہ سوال تشنہ لب باقی ہے کہ کیا چترال کے منتخب نمائندے نے مبینہ طور پر راء کے ایک ایجنٹ کے دھوکے میں آکر شندور کا سودا کرلیاتھا؟

ضرورت اس امر کی ہے کہ جن اشخاص پر الزامات کی بوچھاڑ ہورہی ہے وہ جلد از جلد اپنی صفائی پیش کرے ورنہ ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی ، شہاب الدین ایڈوکیٹ ، فداعلی شاہ غذری یا گوہر حسین کے لکھے گئے حقائق ناموں سے مسئلہ حل ہونے کی بجائے مزید پیچیدہ ہوسکتا ہے ۔ اور کسی بھی قسم کے غیر سنجیدہ بیانات غذر اور چترال کے عوام میں پائی جانے والی برسوں پرانے رشتوں میں دراڑکا باعث بن سکتی ہے ۔

یہ بھی بتایا جارہاہے کہ شندور کی ملکیت کے معاملے پر کیس عدلیہ میں چل رہاہے اگر اس بات میں صداقت ہے تو لکھاریوں کو یہ بھی لکھنا چاہئے کہ وہ کیس کس کورٹ میں ہے اور کس نے یہ کیس دائر کررکھا ہے اگر واقعی عدلیہ میں شندور کی ملکیت سے متعلق کوئی کیس زیر سماعت ہے تو کم ازکم اس حساس ایشو کو میڈیا میں اچھالنا اور الزامات کی بوچھاڑ کی ضرورت نہیں۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ اپنے ناپسندیدہ افراد پر فتوے لگانے میں ہماراکوئی ثانی نہیں۔ ڈاکٹر صاحب گزشتہ دو سالوں سے بغیر ثبوت کے کئی افراد پر مسلسل راء کا ایجنٹ ہونے کے الزامات عائد کررہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر راء نے پشاور کے ایک پانچ ستارہ ہوٹل میں آکر سیمینار منعقد کی اور شندور کی زمین کو متنازعہ بنا دیا تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ آئی ایس آئی سمیت بیسیوں خفیہ اداروں کو اس کی ذرہ بھی بو محسوس نہ ہوئی اور پھر اکیلے فیضی کو کہاں سے اطلاع ملی کہ راء یہ سازش کررہاہے؟ سیکیورٹی اور انٹیلی جنس اداروں پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس حساس معاملے کی چھان بین کرے اگر واقعی فیضی صاحب کے پاس چند افراد کی راء کے ساتھ مل کر پاکستان کے خلاف سازشوں میں ملو ث ہونے کے ثبوت ہیں تو ان کوبھی چاہئے کہ وہ انہیں ذرائع ابلاغ میں اچھال کر عوام کو گمراہ کرنے کی بجائے عدلیہ کا رخ کریں اور ان غداران ملک کے خلاف مقدمہ درج کرے۔ لیکن بغیر ثبوت کے دوسروں پر کیچڑ اچھالنا نہ صرف ادبی بددیاتنی ہے بلکہ ایک سنگین جرم بھی ہے ۔ایک جانب بلا ثبوت کے الزامات لگانے والے سنگین جرم کے مرتکب ہورہے ہیں تو دوسری جانب ان الزامات پر خاموشی اختیار کرنے والے ان سے بھی زیادہ مجرم ہے ۔

رہ گئی گلگت بلتستان میں چلنے والے بعض علیٰحدگی پسند یا قوم پرست تحریکوں کی تو شائد فیضی صاحب کو ان تحریکوں کے پس منظر کا زیادہ علم نہیں نئے یا پھر مخالف بیانئے کو سازش قراردینا سماجی علوم سے لاعلمی کا مظہر ہے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button