کالمز

کہ اہل حق کا مترجم میرا قلم کردے

تحریر: ایمان شاہ

میری ذاتی رائے غلط یا درست ہوسکتی ہے۔۔۔۔۔۔ لیکن زمینی حقائق کو سامنے رکھ کر پوری ایمانداری، دیانتداری اور ہر قسم کے تعصب سے بالاتر ہوکر دیکھا جائے تو دفاع وطن میں سب سے زیادہ جانوں کے نذرانے ضلع غذر سے تعلق رکھنے والے جوانوں نے پیش کی ہیں۔۔۔۔۔ اور اعداد شمار سمیت زمینی حقائق یہ بتارہے ہیں کہ گلگت بلتستان کے10اضلاع میں سب سے زیادہ پسماندہ، سب سے زیادہ نظرانداز کیا جانے والا اور سب سے کم ترقی والا ضلع بھی غذر ہے۔۔۔۔۔۔

دفاع وطن کیلئے جانوں کے نذرانے پیش کرنے سے زیادہ قربانی میرے نزدیک کوئی اور نہیں ہے۔

کارگل جنگ میں ضلع غذر کے 101فوجی جوانوں نے جام شہادت نوش کیا۔۔۔۔۔پاکستان کا سب سے بڑا فوجی اعزاز ’’نشان حیدر‘‘ کا اعزاز بھی ضلع غذر سے تعلق رکھنے والے ایک بہادر سپوت لالک جان کے حصے میں آیا۔۔۔ تمغۂ جرأت، تمغۂ بسالت، تمغۂ شجاعت اور دیگر تمغوں کا ذکر کیاجائے تو شاید پاکستان کا کوئی ایسا شہر یا ضلع ہوگا جس کے حصے میں اتنے شہداء، اتنے تمغے آئے ہوں ۔۔۔۔ غذر کو پسماندہ رکھنے کا بظاہر تو کوئی جواز نہیں، لیکن پالیسی سازوں کو شاید معلوم ہو کہ اتنی ساری قربانیوں کے حامل علاقے کے عوام کو پانی، بجلی، صحت، لاء اینڈ آرڈر، روزگار اور حکومتی امور میں سب سے کم حصہ دے کر کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں۔۔؟

ضلع غذر کے ہیڈ کوارٹر گاہکوچ میں قائم ضلعی ہیڈکوارٹر ہسپتال میں کوئی سپیشلسٹ ڈاکٹر نہیں ہے، تین میڈیکل آفیسرز ضلعی ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں مریضوں کو صرف ابتدائی طبی امداد دیتے ہیں جبکہ مریض کے پاس مرض بڑھنے کی صورت میں دو ہی راستے موجود ہیں۔۔۔ یا تو سینگل میں قائم پرائیویٹ ہسپتال میں علاج کرائے بصورت دیگر گلگت جہاں پر پرائیویٹ علاج کے اخراجات کا سب کو علم ہے۔۔۔۔۔

تحصیل اشکومن کی آبادی تقریباً40ہزار کے قریب ہے۔۔۔۔۔۔۔40ہزار آبادی کیلئے صرف ایک میڈیکل آفیسر اور ڈسپنسری نماء ہسپتال جہاں ادویات نام کی کوئی شے موجود ہی نہیں ہے۔۔۔۔ تحصیل گوپس اور یاسین کی حالت بھی کچھ زیادہ حوصلہ افزاء نہیں ہے۔۔۔۔

تعلیمی سہولیات، بجلی کی صورتحال اور پانی کی فراہمی او رروڈ انفراسٹرکچر کو دیکھ کر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے اور کچھ بھی نہیں۔۔۔۔ ضلع غذر کے عوام اپنی امن پسندی کیلئے مشہور ہیں اور شاید ان کی امن پسندی کا غلط فائدہ اٹھایا گیا ہے اور تقریباً تمام تر بنیادی انسانی ضروریات سے محروم رکھا گیاہے۔۔۔۔

سیاسی شعور رکھنے والے غذر کے غیور عوام ان تمام تر زیادتیوں کے باؤجود خاموش رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔۔۔ ان کا یہ طرز عمل درست ہے یا نہیں اس کا فیصلہ خود غذر کے عوام پر چھوڑتا ہوں اور موجودہ صوبائی حکومت میں ضلع غذر کی نمائندگی کا تقابلی جائزہ چند دیگر اضلاع سے کرتے ہوئے ارباب اختیار کو جگانے اور آئینہ دکھانے کی کوشش کرؤں گا کہ ایک ضلعے کو جان بوجھ کر زندگی کے تمام شعبوں میں نظر انداز کیوں کیا جارہا ہے۔

یہاں پر یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ ضلع غذر کی آبادی2لاکھ ہے، اس کی سرحدیں شندور کے ذریعے صوبہ کے پی کے اور اشکومن مترم داس کے ذریعے تاجکستان اور وسط ایشیاء سے ملتی ہیں۔۔۔۔ ضلع غذر سے ممبران قانون ساز اسمبلی کی تعداد تین ہے۔۔۔۔۔اس ضلعے کو ٹیکنوکریٹ، خواتین کی مخصوص نشستوں، گلگت بلتستان کونسل اور صوبائی کابینہ سے باہر رکھا گیا ہے۔۔۔۔۔

دوسری جانب ایک چھوٹا ضلع گانچھے بھی ہے۔ اس ضلعے پر موجودہ حکومت نے نوازشات کی بارش کردی۔۔۔خواتین، ٹیکنوکریٹ، گلگت بلتستان کونسل، پارلیمانی سیکریٹری اور کابینہ میں بھرپور نمائندگی۔۔۔۔۔

ضلع استور کی صورتحال بھی خوش نصیب اضلاع میں ایک ضلع جیسی ہے، کابینہ میں نمائندگی، خواتین کی مخصوص نشست اور پارلیمانی سیکریٹری ا ور اب اطلاعات یہ بھی ہیں کہ وزیر اعلیٰ اپنا ایڈوائزر بھی استو ر سے لیں گے۔

اس تقابلی جائزے کا مقصد ہر گز یہ نہیں ہے کہ میں کسی ضلعے کو زیادہ نمائندگی دیئے جانے کیخلاف ہوں۔۔۔۔۔ مجھے اس بات کا احساس ہے کہ باقی تمام اضلاع کی حکومتی سطح پر بھی بھرپور نمائندگی ہے، ترقیاتی سکیموں پر کام کی رفتار بھی تیز ہے، روزگار کے حوالے سے بھی کم از کم ضلع غذر سے بہتر صورتحال ہے۔۔۔۔

ضلع غذر کے عوام ماضی کی تمام حکومتوں سمیت موجودہ حکومت کو بھی اب کوسنے لگے ہیں، جس کا جواز بھی موجود ہے۔۔۔ مایوس ہوکر اس ضلعے کے عوام اب پاک فوج کی جانب دیکھ رہے ہیں۔۔۔۔۔۔ ضلع غذر کو نظرانداز کرنا ارباب اختیار کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔۔۔۔۔ داناؤں کا قول ہے کہ’’ اگربلی کو ہر طرف سے گھیرا جائے اور تمام دروازے بند کردیئے جائیں تو بلی بھی پلٹ کر جھپٹنے کا حربہ استعمال کرتی ہے۔۔۔۔”

جمشید خان دکھی کے ان اشعار سے ساتھ اجازت۔

یہ شوقِ نفس پرستی کو میرے کم کردے
مجھے خود اپنی نگاہوں میں محترم کردے
میں سامراج کے چہرے کو بے نقاب کروں
کہ اہل حق کا مترجم میرا قلم کردے
گنہ گار بہت ہے دکھی اے رب کریم
کرم کا اہل نہیں ہے مگر کرم کردے

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button