کالمز

اُس بدنصیب قوم کا اک فرد میں بھی ہوں

گلگت بلتستان ایک ایسا خطہ ہے جہاں سال کے چاروں موسم،ہر قسم کے فروٹ،پھل سبزیاں پائی جاتی ہیں اور یہاں کے پہاڑ خزانوں سے بھرے پڑے ہیں اس خطے کی جغرافائی حیثیت بھی منفرد ہے یہاں بہنے والے دریا سے پورا پاکستان سیراب ہوتا ہے یہاں کی خوبصورتی اور سیاحتی مقامات سیاحوں کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہیں دنیا کا آٹھوں عجوبہ شاہراہ قراقرم یہاں سے گزرتا ہے اور شاہراہ قراقرم کا ایک سرا خنجراب میں چین کی سرحد سے ملتا ہے تو دوسرا پاکستان سے ان علاقوں کو ملاتا ہے ۔لیکن یہاں آج تک ایسی قیادت پیدا نہ ہو سکی جو اس خطے کے باسیوں کو انسانی بنیادی ضروریات فراہم کر سکے۔اس خطے کی تقدیر سنوارنے کے لئے کچھ نہیں بس مخلص قیادت کی ضرورت ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ گلگت بلتستان میں بہنے والے دریاؤں سے اتنی بجلی پیدا کی جا سکتی ہے جس سے گلگت بلتستان کے کونے کونے تک بجلی کی ضروریات پوری ہونے کے بعد ملک کے دیگر حصوں کو بھی بجلی دی جا سکتی ہے۔اس قسم کے منصوبوں پر ماضی میں محض سیاسی اعلانات ہو تے رہے عملی طور پر کچھ نظر نہیں آتا۔۔۔البتہ موجودہ وفاقی اور صوبائی حکومت نے گلگت بلتستان کے ہیڈ کوارٹر گلگت پر رحم کھاتے ہوئے ہینزل پاؤر منصوبے کو منظور کر لیا ہے امید کی جا سکتی ہے کہ غیر معمول اہمیت کے حامل اس منصوبے کی تعمیر میں روایتی تاخیر نہیں کی جائے گی اگر خدا نخواستہ اس منصوبے کی تعمیر میں کسی قسم کی غفلت بھرتی گئی تو قوم حکمرانوں کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔

اسی طرح سیاحت کے شعبے پر توجہ دیکر گلگت بلتستان میں روزگار کے مواقع پیدا کئے جا سکتے ہیں ہوٹل انڈسٹری کو بوسٹ اپ کیا جا سکتا ہے ۔ایک محتاط اندازے کے مطابق رواں سال تین لاکھ سے زائد سیاح گلگت بلتستان آئے ۔اور اگر ایک سیاح گلگت بلتستان میں مجموعی طور پر 20ہزارروپے بھی خرچ کرتا ہے تو گلگت بلتستان کے ترقیاتی بجٹ جتنی آمدنی گلگت بلتستان میں ٹرانسپورٹرز،ہوٹل مالکان،دکاندار اور دیگر تاجروں کو حاصل ہو سکتی ہے دنیا کے بعض ممالک ایسے بھی ہیں جن کی معیشت کا دارو مدار مکمل طور پر سیاحت پر ہے۔گلگت بلتستان میں بھی سیاحت کے شعبے پر توجہ دیکر یہاں کے عوام کے معیار زندگی کو بلند کیا جا سکتا ہے رواں سال حکومت اپنے وعدے کے مطابق گلگت بلتستان کے سیاحتی مقامات پر ٹورسٹ انفارمیشن سنٹرز کا قیام عمل میں نہ لا سکی تا ہم گزشتہ سال سے رواں سال انتظامات قدرے بہتر تھے۔آئندہ ٹورسٹ انفارمیشن سنٹرز سمیت سیاحوں کو دیگر سہولیات کی فراہمی کے لئے اقدامات ناگزیر ہیں۔

جیسا کہ آغاز کے سطور میں عرض کیا ہے کہ گلگت بلتستان کی جغرافیائی حیثیت منفرد ہے اور مشق وسطیٰ کا مرکز ہے یہاں شمال مشرق میں درہ خنجراب کے ساتھ چین کی سرحد ملتی ہے چپورسن کی سرحد افغانستان اور تاجکستان سے ملتی ہے جنوب مغرب میں واقع ضلع غذر کی سرحدیں افغانستان اور واخان سے ملتی ہیں بلتستان کی سرحدیں لداخ،مقبوضہ کشمیر اور انڈیا سے ملتی ہے ۔شاید گلگت بلتستان دنیا کا واحد خطہ ہے جس کی سرحدیں اتنے ممالک سے ملتی ہوں۔جبکہ صرف چین کے ساتھ ہمارے سفارتی اور تجارتی روابط ہیں باقی ممالک کی سرحدیں بند ہیں ان سرحدوں کو کھول کر تجارتی مقاصد کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے ۔

گلگت بلتستان کے بیشتر پہاڑ بظاہر تو گنجے دکھائی دیتے ہیں لیکن ان کے اندر خزانے بھرے پڑے ہیں۔پہاڑوں کی ساخت اور ان میں چھپے خزانوں پر تحقیقات کرنے والے ماہرین کی رائے ہے کہ گلگت بلتستان کے پہاڑوں سے حاصل ہونے والی معدنیات سے نہ صرف گلگت بلتستان بلکہ پورا پاکستان امیر اور خوشحال خطہ بن سکتا ہے دنیا میں ایسے بھی ممالک ہیں جن کی پوری معیشت معدنیات سے چلتی ہے اور دنیا کے امیر خطوں میں شامل ہیں۔

ان چند سطور میں گلگت بلتستان کی چیدہ چیدہ خصوصیات اور ان کے محاصل کا ذکر کیا گیا اگر گلگت بلتستان کی تمام خصوصیات کا ذکر کیا جائے توکالم طوالت اختیار کر جائے گا بس عرض اتنا ہے کہ ان وسائل سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے اور وسائل کو استعمال کرنے کے لئے مخلص قیادت کی ضرورت ہے ۔

میرا حقیر سا مشورہ کہ حکمران اقتدار کے نشے میں نہ رہیں ایسا نہ ہوکہ نشہ اتر جائے اور اپنے آپ کو تنہا محسوس کریں کیوں کہ اقتدار کا نشہ زیادہ دیر نہیں رہتا ایک نہ ایک دن اتر ہی جاتا ہے ،کیا ہی اچھا ہو ایک ایسا کام ہی کر جائیں کہ لوگ برسوں یاد رکھیں۔

اسلام دین حق ہے یہ انکار بھی نہیں

مسلم عمل کے واسطے تیار بھی نہیں

دیرو حرم فروش بھی ہیرو ہیں آج کل

غدار اس زمانے کا غدار بھی نہیں

معیار دوستی کا کروں خاک تذرکرہ

اب تو تعصبات کا معیار بھی نہیں

اُس بدنصیب قوم کا اک فرد میں بھی ہوں

جس کا جہاں میں قافلہ سالار بھی نہیں

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button