کالمز

الطاف حسین  کی تقریر کا ردعمل

تحریر: سید انور محمود

 پیر 22 اگست 2016 کو متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے سربراہ  الطاف حسین  کی تقریر اور اس کے بعد ہونے والی ہنگامہ آرائی کے بعد میں نے فیس بک  پر ایک   پوسٹ جاری کی  تھی جس میں نے اپنے پڑھنے والوں سے  یہ سوال پوچھا تھا کہ ‘‘کیا  قائد اعظم غلط تھے؟’’۔  آگے میں نے لکھا  ‘‘کیا  اردو بولنے والے (مہاجر) اب بھی یہ خیال کرتے ہیں کہ ایم کیو  ایم  کے قائد الطاف حسین  ان کی صیح نمائندگی کررہے ہیں، میرئے نزدیک تو 26 سال قبل جب وہ کراچی چھوڑ کر چلے گئے تھے اس دن کے بعد نہ تو ان کو ایم کیو ایم کی قیادت کرنی چاہیے تھی اور نہ ہی مہاجروں کی ۔  لیکن آج انہوں نے پاکستان کو گالیاں دیکر اور پاکستان مخالف نعرئے لگاکر یہ ثابت کردیا کہ وہ اب پاکستانی نہیں رہے۔  ان کی  آج  کی گئی تقریر شاید ہی کوئی مہاجر قبول کرئے، اس لیے اب نہ وہ ایم کیو ایم کے رہنما رہے ہیں اور نہ ہی مہاجر عوام کے، جسکا ثبوت یہ ہے کہ ایم کیو ایم  کے کافی رہنما وں نے الطاف حسین  کی اس تقریر کا رد عمل دیتے ہوئے  ایم کیو ایم   سے علیدہ ہونے کا اعلان کیا ہے، کچھ رہنماوں نے سوشل میڈیا پر ‘‘پاکستان زندہ باد’’ کا پیغام دیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا قائد اعظم غلط تھے یا وہ سارئے مہاجر جنہوں نے  پاکستان کےلیے اپنا آبائی وطن  چھوڑا؟

میرئے سوال کے جواب میں  جنہوں نے جواب دیا  انہوں نے  الطاف حسین کی تقریر کی مذمت کی۔ الطاف حسین کی پیر 22 اگست 2016 کی تقریر سے ایم کیو ایم کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ یہاں تک کہ ایم کیو ایم کے رہنما بھی اس خطاب کی حمایت نہیں کر سکتے۔ ایم کیو ایم کے کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن کے باعث بہت سے افراد کی ہمدریاں الطاف حسین کے ساتھ تھیں مگر ان کی 22 اگست  کی تقریر نے سب کچھ بدل دیا ہے۔ الطاف حسین کی پاکستان مخالف تقریراورکارکنوں کو پرتشدد واقعات پراکسانےکےبعدرینجرز ایم کیو ایم کے مرکزی دفتر نائن زیرو میں داخل ہوئی۔ نائن زیرو کے علاوہ خورشیدبیگم سیکریٹریٹ ،ایم پی اےہوسٹل کی تلاشی لی گئی اور پانچ افراد کو گرفتار کیا گیا۔ نائن زیرو کے علاوہ خورشیدبیگم سیکریٹریٹ ،ایم پی اےہوسٹل  کو سیل کردیا گیا، ساتھ ہی  گلشن معمار،گلشن اقبال ، گلستان جوہر ،جمشیدکوارٹر سمیت پورئے کراچی میں متحدہ کے دفاتر میں رینجرز اور پولیس نے تلاشی لینے کے بعد تمام دفاتر سیل کردیے۔کراچی کے علاوہ پورئے سندھ  میں موجود  ایم کیو ایم کے دفاتر سیل کردیے گئے۔ اس موقع پر ایم کیوایم کی ویب سائٹ بھی بند کردی گئی۔ رات گئے  ایم کیو ایم  کی رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینر ڈاکٹر فاروق ستار، سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خواجہ اظہار الحسن کو رینجرز حکام کراچی پریس کلب کے باہر سے پوچھ گچھ کے لیے اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔ اس کے بعد رینجرز نے ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹر عامر لیاقت کو پوچھ گچھ کے لیے ان کے دفترسے تحویل میں لے لیا ہے۔ ان تینوں کے علاوہ ایم کیو ایم کے متعدد رہنما اور 50 سے زیادہ کارکنوں  کو رینجرز نے گرفتار کرلیا ہے۔

منگل 23 اگست  کی دوپہر ڈاکٹر فاروق ستار، خواجہ اظہار الحسن اور ڈاکٹر عامر لیاقت کو رینجرز نے رہا کردیا۔ڈاکٹر فاروق ستارنےاپنی رہائی کے بعد کراچی پریس کلب میں سینیٹر نسرین جلیل، ڈاکٹر خالد مقبول، خواجہ اظہار الحسن، ڈاکٹر عامر لیاقت حسین، آصف حسنین، اقبال محمد علی خان، خواجہ سہیل منصور، ڈاکٹر ارشد وہرا سمیت پارلیمنٹیرین کی ایک بڑی تعداد کی موجودگی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے پیر کو کراچی پریس کلب کے باہر ایم کیو ایم کے بھوک ہڑتالی کیمپ میں پاکستان مخالف نعروں اور میڈیا ہائوسز پر کئے جانے والے حملوں پر معذرت کرتے ہوئے واقعے سے لاتعلقی کا اظہار کردیا ہے اور کہا کہ ہم ہی ایم کیو ایم ہیں، متحدہ قومی موومنٹ اب پاکستان سے چلائیں گے، کارکن یا قائد کو پاکستان مخالف نعرہ نہیں لگانے دیں گے۔ ایسے عمل کو نہ دہرانے کی ذمہ داری ایم کیو ایم لیتی ہے۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ ایم کیو ایم کو بار بار اس قسم کی صورتحال سے دوچار ہونا پڑ رہا ہے جس کی وجہ خراب صحت  ذہنی تنائو کو قرار دیا گیا لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ پہلے ذہنی تناؤ ، خرابی صحت کا مسئلہ حل کیاجائے، جبکہ قائد ایم کیو ایم نے اپنے بیان پر ندامت کا اظہار کیا ہے۔

ڈاکٹر فاروق ستار کا کہنا تھا کہ ہمارئے اس بیان کو ڈکٹیشن یا ڈر وخوف نہ سمجھا جائے جو پیر کو کہنا چاہتے تھے وہی کہا ہے، ہماری کوشش تھی کہ یہ پریس کانفرنس کل ہی کرتے، گذشتہ رات بھی آئے تھے مگر ہمیں ہمارا مؤقف پیش نہیں کرنے دیا گیا اور ہمیں یہاں سے لے جایا گیا، کل کی تمام صورتحال پر ہمارے موقف کو لوگوں کے سامنے آنا چاہئے تھا مگر پریس کانفرنس نہ ہونے کی وجہ سے ایسا نہ ہوسکا۔ انہوں نے کہاکہ اب ہماری پریس کانفرنس کو کسی اور کا ڈکٹیشن سمجھا جائے گا۔  پریس کا نفرنس کے دوران ایم کیوایم کے رہنماوں اور کارکنوں نے  ‘‘پاکستان زندہ باد’’ کے فلک شگاف نعرئے لگائے، یہ نعرئے واضع طور پر الطاف حسین  کی تقریر کی نفی کررہے تھے۔ اس سے پہلے  ایم کیو ایم کے رکن  قومی اسمبلی رشید گوڈیل نے اپنے ٹوئٹ میں کہا کہ ‘‘سب سے پہلے پاکستان تھا اور رہے گا’’۔ جبکہ بابر غوری نے اپنے ٹویٹر پیغام میں ’’پاکستان زندہ باد‘‘ تحریر کیا۔ ایم کیو ایم کے رکن سندھ اسمبلی فیصل سبزواری نے اپنے ٹوئٹ میں کہا ہے کہ‘‘ مادر وطن کا مطلب یکساں پاکستان ہے، امید ہے ایسا ہی دیکھیں گے’’۔سنیٹر طاہر مشہدی نے اپنے ٹوئٹ میں کہا کہ  ‘‘مجھے پاکستان کی خدمت پر فخر ہے،خدمت کرتا رہوں گا، کسی کو اپنی قوم کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دوں گا’’۔ بعد میں ایم کیو ایم کے رہنماڈاکٹر عامر لیاقت حسین نے ایم کیو ایم  اور سیاست چھوڑنے کا اعلان کیا جو لازمی کسی دباو کا نتیجہ ہے۔

الطاف حسین کی تقریر کا ردعمل ایم کیو ایم کے لیے ایک زلزلہ سے کم نہیں  کیونکہ بات تقریر تک رہتی تو صرف الطاف حسین پر فرد جرم عائد کیا جاتا لیکن  الطاف  حسین نے تین نیوز چینلز کےلیے اپنے کارکنوں کو واضع طور پر بھڑکایا  تو عقل سے کوری کسی عورت نے نیوز چینلز کو سبق سکھانے کے لیےبھائی سے اجازت طلب کی تو جواب میں بھائی نے تین مرتبہ بسم اللہ کہا  جسکے بعد ایم کیو ایم کے کارکنوں نے نیوز چینل اے آر وائی کے دفتر پر حملہ کر دیا۔ اے آر وائی نیوز نے اپنی ٹرانسمیشن کے دوران اپنے دفتر پر ہونے والے حملے کی فوٹیج میں دکھایا کہ کیسے حملہ آور دفتر میں توڑ پھوڑ کر رہے ہیں۔  کراچی میں اس حملے کا نوٹس لیتے ہوئے ڈی جی رینجرز میجر جنرل بلال نے اپنے ایک بیان میں کہا، ’’لاقانونیت کے ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔ رینجرز کی نفری کو تینوں  نیوز چینلز کے دفتر کے باہر تعینات کر دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر فاروق ستار کو ابھی دو کام کرنے  ہیں،  پہلے حکومتی اداروں کو اس بات کا یقین دلانا ہوگا کہ ایم کیو ایم اب لندن سے نہیں پاکستان سے چلائی جارہی ہے،  دوسرئے ان کو اپنے ان  کارکنوں کو فارغ کرنا ہوگا جو مختلف جرائم میں ملوث  ہیں یا تھے۔ اس کے باوجود الطاف حسین کی تقریر کے آفٹر شاک  ایم کیو ایم کو کافی عرصئے تک بھگتنے ہونگے جیسے ابھی رینجرزنےمتحدہ قومی موومنٹ کے اراکین اسمبلی کو طلب کرکے تحقیقات کرنا شروع کردی ہیں۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button