کالمز

"حقائق نامہ”

تحریر: شاہ عالم علیمی

اس ملک میں ابتدا سے یہی ہوتا رہا ہے کہ صاحب طاقت اور صاحب اقتدار نے ہمیشہ اپنے مخالفین کو غدار، ملک دشمن اور ایجنٹ کہہ کر نیچا دیکھانے کی کوشش کی ہے. اب تو انتہا یہ ہوچکی ہے کہ چھوٹے موٹے لوگ بھی اپنے مخالفین کو انھی ہتھکنڈوں کے ذریعے سے بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں.

مہذب قوموں کا دستور یہی ہے کہ وہ کسی مسلے کو بات چیت اور منطق کے ذریعے سے حل کرتے ہیں. مگر ہمارے یہاں منطق اور دلیل کی کوئی اہمیت نہیں ہے. بس اپ روایاتی ذریعوں طاقت ، جھوٹ فریب اور دھوکہ دہی کے ذریعے سے ہی اپنے مقاصد حاصل کر سکتے ہیں. جذبات جب انسان کے دل و دماغ پر قبضہ کرلیتے ہیں تو اس انسان پر خود کا کنٹرول نہیں رہتا. اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اگر کوئی قوم علم، فلسفہ اور منطق کی بجائے جذبات سے کسی مسلے کا حل نکالنا چاہیے تو اس کا انجام تباہی کے سوا کچھ بھی نہیں.

صرف جذبات سے اگر کوئی قوم ترقی کرتی تو وہ افغان ہونی چاہیے تھی جہاں ہر ایشو کا حل جذبات اور گولی کے ذریعے سے ڈھونڈنے کی کوشش کی گئی تاہم نتیجہ ہمارے سامنے ہے. میرا خیال ہے کہ ایک بدترین جیت سے ایک بہتر ہار ہی بہتر ہے جس میں انسانوں کا بھلا ہو.

حال ہی میں چترال سےتعلق رکھنے والے صاحبان مسٹر شہاب الدین اورمسٹر عنایت اللٰہ فیضی نے شندور گلگت بلتستان کے حوالے سے ایک پروپیگنڈا پیپر شائع کیا. جو انتیس صفات پر مشتمل ہے. اس پیپر میں ان دونوں صاحبان نے جس طرح جذبات کے رو میں بہہ کر بات کی ہے وہ انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور قابل مذمت ہے. اگرچہ ایسی چھوٹی ‘حرکتوں’ کا جواب دینا ضروری نہیں ہے لیکن اس میں سونی وطن گلگت بلتستان اور گلگت بلتستان کے بہادر جوانوں کے خلاف بلاواسطہ جس قسم کی زبان استعال کی گئی ہے اور جس طرح کی بات کرنے کی جسارت کی گئی ہے اس کی مذمت کرنا اور جواب دینا ضروری محسوس ہوگیا ہے.

دنیا میں دو چیزیں ایسی ہیں جنھیں چاہ کر بھی تبدیل نہیں کیا جاسکتا ہے. اول کسی انسان کی سر گزشت اور دوم کسی ملک/ سٹیٹ کا جعغرافیہ. اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ قدرتی طور پر naturally اپس میں جوڑے ہوئے ہوتے ہیں.

پروپیگنڈا پیپر، جس کا نام "شندور اور کوکش لنگر ‘ حقائق نامہ” رکھا گیا ہے، میں شندور اور لنگر کُھوکش کو چترال اور خیبر پختونخوا کا حصہ دیکھانے کی کوشش کی گئی ہے. کافی تعداد میں چھاپ کر مخصوص جگہوں کے علاوہ جی بی میں بھی تقسیم کی گئی. کسی طرح وہ ہماری نظر سے بھی گزری۔ تاریخ اور تاریخی حقائق کو مروڑ کر اپنے مفاد میں استعمال کرنے کی کوشش کے علاوہ انتہائی ضعیف دلیلوں اور الزام تراشیوں اور گالم گلوچ سے کام لینے کی کوشش کی گئی ہے. جو کہ قابل مذمت ہونے کے ساتھ ساتھ مصنفین صاحبان کی زہنی سطح کو بھی ظاہر کرتا ہے.

اس پیپر میں محب وطن گلگت بلتستانی قوم کو غدار اور گلگت بلتستان سکاؤٹس کے بہادر جوانوں کو بلاواسطہ طور پر ان کی صفات سے محروم دکھانے کی کوشش کی گئی ہے. جس کا واحد مقصد ہمیشہ کی طرح گلگت بلتستان کی سرحدوں پر قبضے کو مضبوط بنانا اور گلگت بلتستان کی سرحدوں سے سونی وطن کو محروم رکنھے کی کوشش کرنا ہے. یہاں پر ہم اس پیپر کے کچھ چیدہ چیدہ نکات کا جائزہ لیتے ہیں.

اس پیپر کے صفحہ نمبر1 کے شروع میں ہی غذر گلگت بلتستان کے ایک بزرگ سرفراز شاہ کو حدف تنقید بنایا گیا ہے. سرفراز شاہ نے 2014 میں گلگت بلتستان کی تاریخ اور سرحدوں پر ایک مستند کتاب لکھی تھی. مصنفین صاحبان نے کتاب کو کتابچہ کہہ کر پکارا ہے.اور لکھا ہے کہ اس کتاب کو بھارت کی خفیہ ایجنسی نے شائع کروایا. انھوں نے لکھا ہے کہ کتابچے کو خفیہ طور پر دہلی اور سری نگر سے شائع کیا گیا.

سب سے پہلے تو یہ کہ سرفراز شاہ گلگت بلتستان کے ایک نامور سابق اکیڈمشین Academician ہیں. انھوں نے اپنی پوری زندگی گلگت بلتستان میں تعلیم کے فروغ کے لیے صرف کی۔ ریٹائرڑمنٹ کے بعد وہ ممبر لیجسلیٹیو اسمبلی Member Legislative Assembly گلگت بلتستان رہے. 2014 میں انھوں نے گلگت بلتستان کی تاریخ اور سرحدوں پر پہلی بار مکمل اور جامع کتاب لکھی. جسے گلگت بلتستان کے علاوہ کراچی اسلام اباد اور پشاور سے شائع کیا گیا۔ کتاب کو عوامی حلقوں میں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا.مسٹر عنایت اللٰہ اور مسٹر شہاب الدین اگر یہ ثابت کردے کہ کتاب ہذا کو خفیہ طور پر دہلی اور سری نگر سے شائع کیا گیا اور اس میں کسی بھی خفیہ ایجنسی کا ہاتھ ہے تو میں ذاتی طور پر ان دونوں صاحبان کو ایک لاکھ ڈالر اور ساتھ ہی شندور کے علاوہ غذر کا آدھا حصہ دینے کو تیار ہوں. اور اگر انھوں نے ایسا نہیں کیا تو یقیناً وہ جھوٹے اور علاقے میں انتشار پھیلانے کے ذمہ دار ہیں. جس پر کتاب کے مصنف یقیناً ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا حق رکھتے ہیں.

انھوں نے مزید لکھا ہے کہ "شندور پختونخوا کا حصہ ہے لیکن 20 اپریل 2015 کو پشاور کے ایک ہوٹل میں ایک خفیہ دستاویز کے ذریعے شندور کو گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا کے درمیان مشترکہ زمین قرار دے دیا گیا. اس دستاویز کے پیچھے بھی بھارتی خفیہ ایجنسی ‘را RAW’ کا ہاتھ ہے. ‘را’ نے پختونخوا کے سیاحت کے مشیر امجد افریدی سے اس پر دستخط کروایا”

اول تو یہ کہ شندور آن ریکارڈ اور قدرتی طور پر گلگت بلتستان کا حصہ تھا، رہا ہے اور رہےگا. گلگت بلتستان پر ڈوگرں اور انگریزوں کے راج کے خاتمے کے چند دنوں بعد پاکستان کا قبضہ ہوا. 17 نومبر 1947 سے لیکر 2008 تک گلگت بلتستانیوں کا اپنی سرحدوں پر خود کا کنٹرول نہیں رہا. ہمسایہ صوبے این ڈبلیو ایف پی موجودہ خیبر پختونخواہ نے دیامر کے مقام پر بھاشہ تانگیر سوات بارڈر شونجی سوات سرحد اور غذر چترال میں مختف سرحدوں پر قبضہ جمائے رکھا. جس پر حال ہی میں گلگت بلتستانی قوم نے آواز اٹھانا شروع کیا ہے. کیونکہ اب گلگت بلتستان پہلے کی نسبت ذیادہ خود مختار ہے.

دوم یہ کہ اپریل 2015 کو پختونخواہ اور گلگت بلتستان کی حکومتوں نے طویل بحث و مباحثے کے بعد مشترکہ طور پر یہ فیصلہ کیا کہ شندور گلگت بلتستان کا حصہ ہے اور یہ کہ اج تک شندور کے مقام پر میلے کا اہتمام پختونخواہ حکومت کرتی رہی ہے. لیکن اب اسے اہستہ اہستہ جی بی کی طرف منتقل کیا جائےگا. جو کہ ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت پاکستان کی طرف سے ایک احسن اقدام ہے. جس کے اثرات کو اس سال ہم نے محسوس بھی کیا. ہم سمجھتے ہیں کہ پختونخواہ حکومت جی بی کی سرحدوں کا پورا کنٹرول گلگت بلتستان کے حوالے کرنے میں جلدی کرے. مصنفین صاحبان نے یہاں ایک بار پھر ارادی یا غیر ارادی طور پر نہ صرف جی بی حکومت کو بلکہ خود اپنی پختونخواہ حکومت کو بھی بھارتی خفیہ ایجنسی را کی ایجنٹ کہا ہے. جو کہ کافی مضحکہ خیز بات ہے.

صفحہ نمبر 2 میں مصنفین صاحبان نے شندور کا جعغرافیہGeography اپنی طرف سے لکھا ہے. جس میں ایسے جگہوں اور پہاڑوں کے نام بھی شامل کیے ہیں جن کا حقیقی دنیا میں وجود نہیں ہے. اور کسی گمنام مصنف کا حوالہ بھی دیا ہے. جو مصنف صاحبان کے نقطہ نظر کی تائید کرتا نظر ارہا ہے. البتہ حقائق سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے. پھر انھوں نے شندور کی تاریخ لکھنے کی کوشش کی ہے. جس پر ہم یہ کہنا ضروری سمجھتے ہیں کہ گلگت بلتستان اور چترال جیسے علاقوں کی تاریخ ذیادہ تر لوک دستانوں پر مشتمل ہے. اسے مصنفین جیسے لکھاری توڑ مروڑ کر اپنے مقاصد کے لیے اسانی کے ساتھ استعمال کرسکتے ہیں. جس میں اپنے اباو اجداد کو ہیرو اور اپنے مخالفین کو زیرو بھی ثابت کیا سکتا ہے. البتہ برصغیر پاک و ہند پر انگریزوں کے قبضے اور گلگت بلتستان پر ڈگرہ سکھوں کے قبضے سے اج تک کی تاریخ پر کسی کو شک و شبہ نہیں.

صفحہ نمبر 3 میں مصنفین صاحبان لکھتے ہیں کہ ” گلگت بلتستان کے لوگ شندور پر بات کرتے ہوئے پہاڑ کی چوٹی(Crest of Mountain) کا بڑا ذکر کرتے ہیں. اس کا تعلق اباد اور میدانی علاقوں سے نہیں. پہاڈی چوٹی وہاں سرحدی حدبندی ہوتی ہے جہاں انسانی بستی نہ ہو. گھر نہ ہو عبادت خانے نہ ہوں………پہاڈی چوٹی کا اصول نانگا پربت ، کے ٹو اور تریچ میر پر چسپان ہوتاہے. شندور اور بروغل پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا”

صاحبان قدر نے کیا خوبصورت بات کی ہے. کہتے ہیں. ” اس کا تعلق اباد اور میدانی علاقوں سے نہیں” بالکل بجا فرمایا کیونکہ گلگت بلتستان کے نقطہ نظر سے شندور ایک غیر اباد سرحد ہے. اور قدرت کی طرف سے ایک میدان نہیں بلکہ پہاڑ کی اخری چوٹی ہے جو کہ سطح سمندر سے بارہ ہزار فٹ سے ذیادہ کی بلندی پر واقع ہے. گلگت بلتستانیوں نے دردِ دل کے واسطے اپنے غریب اور نادار چترالی بھائیوں کو یہاں مال مویشی چرانے کی اجازت دی. ان کو کیا پتہ تھا کہ یہی بھائی انگریزوں کی طرح نمک حرامی کرکے ہمسایہ صوبے کی شہہ پر ان کی زمین پر ہی قابض ہونے کی کوشش کرینگے. پھر انھوں نے انسانی بستی کا ذکر کیا ہے. شندور میں کوئی انسانی بستی اباد نہیں. البتہ مال مویشی چرانے والے غریبوں کے لیے عرضی پناہ گاہیں ضرور ہونی چاہیے. وہ بھی صرف تین مہینے کے لیے. انسانی بستی وہ ہوتی ہے جہاں انسان سال کے بارہ مہینے رہتا ہو. انھوں نے بروغل کا بھی ذکر کیا ہے. جس کا مقصد بروغل چترال کے ساتھ غذر گلگت بلتستان کی سرحد پر بھی قبضہ جمانے کی طرف اشارہ ہے. جو کہ ان کے ناپاک ارادوں کو ظاہر کرتاہے. (جاری ہے)

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button