ضلع چترال کا بڑا قصبہ چترال کہلاتا ہے ۔اور یہ پورے ضلع کا صدر مقام یعنی ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہے۔اس کی آبادی ایک لاکھ ہے یہاں 8ہزار دکانیں اور 20 ہزار گاڑیاں ہیں ۔چار یو نیورسٹیاں ،12کالج ،اور 34سکول ہیں ۔ٹاون میں ائیرپورٹ ،چترال سکاوٹس کا ہیڈ کوا رٹر 600 سال پرانا شاہی اور 100سال پرانی شاہی مسجد بھی ہے۔مگر یہ ٹاون سیدوشریف ،دیر ،تیمرگرہ اور ڈگر کی طرح ترقی یافتہ ٹاون نہیں ہے۔باہر سے آنے والا سیاح اور اخبار نویس یہ بات ماننے کو تیار نہیں کہ یہ ٹاون پورے ضلع کا ہیڈ کوارٹر ہے۔اس کی چار بڑی وجوہات ہیں۔ٹاون میں نا لیوں اور گلیوں کی صفائی کا کو ئی سسٹم نہیں ہے ۔ٹاون کی جو سڑکیں 2012ء ا ور2015 ء کے سیلابوں میں ٹوٹ گئی تھیں ۔ان کی مر مت نہیں ہوئی۔ٹاون کی بائی پاس سڑک 2009 ء میں شروع کی گئی تھی۔7سالوں سے ادھوری پڑی ہے ۔یہ صرف ڈیڑھ کلومیٹر سڑک ہے ۔جس کو 7سالوں سے شہباز شریف جیسے کسی حکمران کا انتظار ہے۔اور چو تھی وجہ یہ ہے کہ ٹاوں کے بڑے بازار میں سڑیٹ لائٹ کا کو ئی انتظام نہیں اگرچہ امیر گلاب خان ایڈوکیٹ اور ان کے ساتھیوں نے پبلک بونو لائرز کے نام سے تنظیم بنائی ہے ۔تاہم فندنگ وسائل اور مناسب فیس نہ ہو نے کی وجہ سے اس تنظیم نے عوامی مفاد کا کوئی مسئلہ مجاز عدالت میں پیش نہیں کیا ۔چترال ٹاون کے اندر گلیوں اور نا لیوں کی صفائی کے لئے سابقہ میو نسپل کمیٹی اور مو جودہ ٹی ایم اے کی طرف سے کبھی منصوبہ بندی ہی نہیں ہو ئی ۔اس کام لئے نہ کوئی نو کری بھرتی ہوا ۔نہ کو ئی ٹریکٹر ٹرالی یا کچرا گاڑی آئی۔یہ شعبہ شروع سے خالی چلا آرہا ہے ۔اب بھی خالی ہے ۔سیلابوں سے سڑکوں کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ پہلے ہو تا تھا۔اب نہیں ہو تا ۔جنرل فصل حق ،جنرل افتخار حسین شاہ،افتاب احمد شیرپاوٗ،اکرم خان درانی اور امیر حیدر خان ہو تی سیلاب زدہ سڑکوں کے لئے( اے ڈی پی)میں فنڈ رکھتے تھے۔اے ڈی پی سے باہر بھی اپنے صوابدیدی فنڈ استعمال کر تے تھے۔کبھی کریش پروگرام سے کبھی امبریلا فنڈنگ سے سڑکوں کی مرمت کے لئے وسائل مہیا کرتے تھے۔2012ء کے سیلاب کے بعد اے ڈی پی میں پیسے رکھے گئے تھے۔نگران حکومت نے ان کو خر چ نہیں کیا۔مئی2013 ء میں نئی حکومت آگئی تو ایسے تمام کام بند کر دیے گئے۔2015ء کے سیلاب میں جو سڑکیں بہہ گئیں اور پل ٹوٹ گئے۔اُن کے لئے ایک پائی نہیں ملی۔سکول جانے والی بچیاں جھولے میں بیٹھ کر ندی اور دریا پار کر تی ہیں۔ڈپٹی کمشنرکے دفترکے سامنے جھولا لگا ہوا ہے ۔ضلع ناظم اور ڈپٹی کمشنر سمیت تمام حکام ہر روز بچیوں کو جھولے میں ندی پار کر تے ہو ئے دیکھتے ہیں۔مگر اُن کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔نہ فنڈ ہے نہ اختیار ہے۔چترال ٹاون کی ڈیڑھ کلومیٹر بائی پاس سڑک پر 2009 میں کام شروع ہوا۔سابق وزیراعلیٰ امیر حیدر خان ہوتی نے اس کے لئے 87کروڑ دو قسطوں میں ریلیز کئے ۔زمینات کے معاوضے اداکئے گئے ۔چیوپل کے قریب پہاڑ کی کٹائی کی گئی۔دوندیوں پر آرسی سی پل تعمیر کئے گئے۔اس کام میں سابق ڈپٹی کمشنر رحمت اللہ وزیر اور سا بق کما نڈنٹ چترال سکاوٹس کر نل نعیم اقبال نے گہری دلچسپی لی۔2013 ء سے 2015ء تک دوسال کام بند رہنے کے بعد پچھلے سال حکومت نے فنڈ ریلیز کر دیے۔اور سابق جی او سی میجر جنرل نادر خان فنڈریلز کرانے میں اہم کرداراداکیا۔مگر ابھی کام ادھورا تھا ۔فنڈ ختم ہو گیا گزشتہ 10مہینوں سے کام ادھورا پڑا ہے ۔حکومت نے مزید فنڈ دینے سے انکار کیا ہے ۔اس طرح سٹریٹ لائٹ کا مسئلہ ہے ۔میلینم ڈیولپمنٹ گو لز(MDGs)کے وفاقی تحت حکومت نے 2014-15 چترال ٹاون میں سولر سسٹم سے لائٹ کی تنصیب کے لئے 90لاکھ روپے اور بونی بازارکے لئے 70لاکھ روپے ریلیز کئے۔کام کا ٹینڈر ہوا۔ایم این اے شہزادہ افتخار الدین نے بورڈ لگا کر کام کا افتتاح کیا۔
وہ آئے بزم میں اتنا ہم نے دیکھا
اس کے بعد چراعوں میں روشنی نہ رہی
افتتاح کے بعد پورا سال گذرگیا۔کام بند پڑا ہے ۔اُس منصوبے کو آسمان نے کھا لیا یا زمین نگل گئی۔کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا ۔سنا ہے شاید ہم نے درست سنا ہے کہ 7ستمبر کو وزیراعظم میاں محمد نواز شریف چترال کا دورہ کر نے والے ہیں۔اُن کے دورے کے موقع پر شاید صوبائی گورنر ،وزیراعلیٰ،اور وزیراعظم کے مشیر امیر مقام بھی چترال کا دورہ کر ینگے۔مگر ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر کا مسئلہ یہ ہے کہ ڈسٹرکٹ ہید کوارٹر کے سلگتے ہو ئے مسائل اُن کے سامنے کون رکھے گا ۔اگر نیا جی اوسی اس مو قع پر موجود ہوا تو یقیناًیہ مسائل حکمرانوں کی خدمت میں پیش ہونگے۔اگر جی او سی اس مو قع پر مو جود نہ ہو تو کیا ہو گا؟ایم این اے شہزادہ افتخار الدین اور ضلع ناظم حاجی معفرت شاہ ان مسائل کا ہنگامی بنیادوں پر حل کر نے کی استدعا ضرور کر ینگے۔تاہم حکمرانوں کی توجہ ان مسائل کے حل پر مرکوز ہو گی یا نہیں؟غالب نے کیا بات کہی ہے!
ہم نے مانا کہ تفاعل نہ کروگے لیکن
خاک ہو جا ئنگے ہم نے تم کو خبر ہو نے تک
Dr. Sb? Is it all about new Pakistan?? then old Pakistan was better then it.