کالمز

گلگت سی پیک کانفرنس اور سلیم صافی کا سوال

کافی سارے دوست، احباب اور قارئین کی جانب سے حالیہ دنوں گلگت میں منعقدہونے والی چائینہ پاکستان اکنامک کوریڈور(سی پیک) کانفرنس کے حوالے سے میری خاموشی پر سوالات اٹھائے گئے کہ اس کانفرنس کے حوالے سے کالم کیوں نہیں لکھا گیا۔اب میں انہیں کیسے سمجھادوں کہ گلگت بلتستان کا ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ سوشل میڈیا پر اسلام آباد سے سرکاری خرچے پر کانفرنس میں شرکت کے لئے مدعوصحافی واینکرپرسن سلیم صافی کے ایک ہی سوال پراس قدرمدہوش ہیں کہ ان کے سامنے اب مجھ جیسے ایک ان پڑھ اور جاہل انسان کی کوئی اوقات نہیں رہی۔اسی لئے فضول کی دماغ خراشی سے خاموشی اختیار کرنے کو ہی غنیمت جانی،مگرپھرخیال آیا کہ فیس بکی ناقدین ودانشوروں سے ہٹ بھی ایک دنیا ہے جو سی پیک میں شامل منصوبوں اور ان کے ثمرات سے مستفید ہونے والے علاقوں سے متعلق حقائق سے نا آشنا ہے ۔لہذااس دنیا کے مخلوق کوآگاہی مجھ جیسے ان پڑھ لکھاری کے قلم کے تواسط سے ہی حاصل ہوسکتی ہے،چاہے سوشل میڈیا کے دانشورگلگت کے آن پڑھ صحافیوں کو جتنا بھی لعن طعن کیوں نہ کریں۔

اگرچہ اقتصادی راہداری اور گلگت بلتستان کے موضوع پر راقم کے متعددکالم اخبارات میں شائع ہوچکے ہیں۔ان سب میں میری یہ کوشش رہی ہے کہ سی پیک کے تحت پاکستان اور چین کے مابین طے پانے والے منصوبوں کے بارے میں گلگت بلتستان کے عوام کو اگاہ کیا جائے کہ دونوں ممالک کے مابین46ارب ڈالرکے کن منصوبوں پر دستخط ہوئے ہیں اور ان میں سے جی بی کے حصے میں کتنے منصوبے رکھے گئے ہیں۔اس سلسلے میں میں اپنے ہر کالم میں اس بات کا ذکر کرتا رہا ہوں کہ پلاننگ کمیشن آف پاکستان کی ویب سائٹ پر دستیاب دستاویزات میں بدقسمتی سے گلگت بلتستان کی تعمیروترقی کاکوئی منصوبہ شامل نہیں ۔ میں اپنی اس بات اور اپنی تحریروں پر اب بھی قائم ہوں اور یہ چیلنج کرتا ہوں کہ اگروفاق یا گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت کے کسی نمائندے کو میری ان باتوں سے اختلاف ہے تو وہ46ارب ڈالر کے ان منصوبوں میں سے کوئی ایک منصوبہ بمعہ لاگت عوام کے سامنے رکھ دیں کہ سی پیک سے گلگت بلتستان کو فلاں منصوبے کے تحت اتنا فائدہ ہونے جارہا ہے۔میں اس بات پر اس لئے زور دے رہا ہوں کہ اکسویں صدی کے اس دورمیں زبانی باتوں اور بے تکے دعوؤں کی کوئی اہمیت نہیں ۔اگر اہمیت ہے تو تحریری معاہدوں اور دستاویزات ہی کی ہے اورسی پیک کے دستاویزات میں مجھے گلگت بلتستان کا ذکر کہیں پر بھی دکھائی نہیں دے رہا ہے۔یہ بات صرف میں ہی نہیں کر رہا، بلکہ گلگت بلتستان کا ہرذی شعورفرد سی پیک کے حوالے سے تحفظات کا اظہار محض اس وجہ سے کررہا ہے کہ اقتصادی راہداری سے متعلق کسی بھی دستاویزمیں اس گیم چینجر منصوبے کے گیٹ وے کا کوئی وجود نہیں۔المیہ یہ ہے کہ یہی باتیں وفاقی اور صوبائی حکمرانوں کو ناگوار گزرتی ہیں اور وہ ریاستی طاقت کے زریعے سی پیک میں گلگت بلتستان کا حصہ مانگنے والوں کا منہ بندکرانے کی مذموم کوششوں میں مصروف نظرآتے ہیں۔

جہاں تک گلگت میں منعقدہ سی پیک کانفرنس کا تعلق ہے، تو یہ کانفرنس بظاہر بہت شاندار رہی۔ صوبائی حکومت اور قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے کانفرنس کے انتظامات میں کسی قسم کی دقیقہ فروگزاشت نہ رکھی گئی تھی۔کانفرنس کے مقررین اور شرکاء کا انتخاب بھی قابل اطمینان تھا،جو بولنے اور سننے میں کوئی اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ اسلام آبا د سے مدعو صحافی سلیم صافی اور وفاقی وزیراحسن اقبال کے درمیان دلچسپ مکالمے اوردوسرے روزآرمی چیف جنرل راحیل شریف کی آمد نے کانفرنس کی رونقوں کوتو چارچاند لگا دیا۔لیکن اس کے باوجود کانفرنس گلگت بلتستان کے عوام کی سی پیک سے متعلق خوابوں کو تعبیر نہ دے سکی۔ وہ اس لئے کہ د دوروزہ کانفرنس کے نام پر کروڑوں روپے اڑانے کے باوجود سی پیک میں گلگت بلتستان کے شیئرکا تعین نہیں کیا جاسکا۔

چونکہ سی پیک کے حوالے سے گلگت بلتستان میں یہ پہلی اعلیٰ سطحی کانفرنس ہونے جارہی تھی اور جی بی کے عوام کی اس کانفرنس سے بہت زیادہ توقعات تھیں۔خود مسلم لیگ(ن) کے صوبائی حکمران اور اپوزیشن جماعتوں کے ارکان قانون سازاسمبلی بھی اس خوش فہمی میں تھے کہ شاید اکنامک کوریڈور منصوبے کے روح رواں و وفاقی وزیرمنصوبہ بندی احسن اقبال جیسا قابل اور ہوشیارترین وزیر اس کانفرنس میں سی پیک سے گلگت بلتستان کو حاصل شدہ ثمرات بمعہ لاگت فنگرٹپس میں بیان کریں گے،مگروفاقی وزیرنے اپنی روایتی تقریرمیں گلگت بلتستان کے حکمرانوں اور عوام کو ایک مرتبہ پھرسبزباغ دیکھانے کی کوشش کی ۔جس پر جب کانفرنس کی پہلی صف میں صوبائی حکومت کے خرچے پر اسلام آباد سے تشریف فرماصحافی سلیم صافی نے سی پیک سے متعلق ایک اہم نکتے پرسوال اٹھایا تو وفاقی وزیرنے ٹال مٹول سے کام لیا اوراگلے روزکے سیشن میں شریک ہوئے بغیر اسلام آباد روانہ ہوگئے۔

کانفرنس کے اختتام پر ایک رکن اسمبلی نے بتایا کہ یہ کانفرنس تو ’کھودا پہاڑ،نکلا چوہا‘ کے مترادف رہا،کیونکہ لوگ جس امید اور مقصدکی غرض سے کانفرنس میں شرکت کے لئے آئے تھے، انہیں سی پیک کے حوالے سے وفاقی وزیرکی بریفنگ،منصوبوں کی تفصیل اور سکرین پر دیکھائے جانے والے نقشے سے مایوسی کے سواکچھ نہیں ملا۔تاہم آرمی چیف کی آمد اور جاندار تقریر سے جی بی کے عوام کویہ حوصلہ ضرور ملا کہ حکومت نہ سہی تو کم سے کم افواج پاکستان کو گلگت بلتستان کی سلامتی اورعوامی مسائل کا ضرور ادراک ہے۔کیونکہ گلگت بلتستان کے عوام جن دیرینہ مسائل کے حل کے لئے وفاقی حکومت کی طرف دیکھ رہے تھے وہ تو آرمی چیف نے حل کرنے کا اعلان کرڈالا۔جگلوٹ تا سکردو روڈ کی تعمیراورشاہراہ قراقرم کو مسافروں کے لئے محفوظ بنانا یہاں کے عوام کا دیرینہ مطالبہ تھا، جسے جنرل راحیل شریف نے حل کرنے کی یقین دہانی کرواکرعوام کے دل جیت لئے۔یہی وجہ تھی کہ کانفرنس کے شرکاء نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا پرتپاک استقبال کیا اور ان کے حق میں نعرے بھی لگائے۔اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ گلگت بلتستان کے عوام پاکستان سے کس قدر عقیدت رکھتے ہیں۔کانفرنس میں پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاکر گلگت بلتستان کے عوام نے یہ بھی ثابت کردیکھایا کہ گلگت بلتستان کا کوئی بھی فرد پاکستان مخالف نہیں۔اگر تھوڑی بہت مخالفت ہوبھی رہی ہے تو وہ حکومتی پالیسیوں کی ہورہی ہے،ریاست کی نہیں۔کیونکہ ریاست اور حکومت میں زمین اسمان کا فرق ہوتا ہے جو ہمارے سیاستدان سمجھنے سے عاری ہیں۔گلگت بلتستان کے عوام سی پیک کی مخالفت میں بھی نہیں بلکہ وہ اس منصوبے کی کامیابی کے لئے دعاگوہیں اورایک قانونی و جمہوری طریقے سے اس اہم منصوبے میں اپنا حصہ مانگ رہے ہیں ۔اس کے باوجود حکمرانوں کی جانب سے انہیں شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاک فوج کسیکام کے کرنے میں جب ایک مرتبہ دلچسپی ظاہرکرتی ہے تو وہ کسی بھی قیمت پر پایہ تکمیل تک پہنچاکر دیکھاتی ہے ،اسی لئے عوام کوبھی سول حکومت یا سیاستدانوں کی نسبت آرمی چیف کے اعلانات پر پختہ یقین ہوتا ہے۔کاش آرمی چیف کی طرح اگر احسن اقبال بھی سی پیک کے معاملے پر گلگت بلتستان کے عوام کو اعتمادمیں لینے میں کامیاب ہوجاتے توانہیں بھری محفل میں سیلم صافی کے سوال پر اس قدرندامت نہ ہوتی۔

کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ گلگت بلتستان میں اقتصادی راہداری میں حصہ مانگنے والوں پر غداری کے مقدمات درج کرکے پابند سلاسل کیا جاتا ہے اور وفاقی دارالحکومت سے آئے ہوئے ایک صحافی کواسی موضوع پر وفاقی وزیرسے سوال پوچھنے پر ہیروبناکر پیش کیا جاتا ہے؟سلیم صافی نے کوئی نئی بات نہیں کہی،انہوں نے بھی وہ سوال اٹھایا جو گلگت بلتستان کے لوگوں کے زہنوں میں ایک عرصے سے گردش کررہی ہے۔ اگر سیلم صافی نے وفاقی وزیر کے سامنے سچائی پر مبنی سوال اٹھایا تھا تو پھر عوامی ایکشن کمیٹی کے عہدیداران کو کس جرم کی سزا دی جارہی؟ کیونکہ عوامی ایکشن کمیٹی کا بھی یہ اولین مطالبہ ہے کہ’ اقتصادی راہداری میں گلگت بلتستان کی موجودہ آئینی وجغرافیائی حیثیت کو مدنظررکھتے ہوئے حصہ دیا جائے‘۔ یہ مطالبہ صرف عوامی ایکشن کمیٹی کا نہیں بلکہ گلگت بلتستان کے عوام کی مشترکہ آواز ہے ،جسے ریاستی طاقت کے زریعے دبانے کی کوشش حکمرانوں پر بھاری ثابت ہوسکتی ہے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button