کالمز

سی پیک اور ہمارے رویے

 دنیا بہت فاسٹ ہوگئی ہے۔ اس کی ہر کروٹ نئے انقلابات کو جنم دے رہی ہے۔ نئے نئے امکانات سامنے آرہے ہیں۔ اسی طرح نئے نئے تقاضے چیلنج بن کر راستہ روکے کھڑے ہیں۔

پہلے زمانوں میں دوسرے ملکوں پہ چڑھائی کر دیتے تھے۔ حکومتوں کو تاراج کرکے خزانے لوٹ لیتے تھے۔ اپنا زیر نگیں بنا کے خراج وصول کر لیتے تھے۔ کشتوں کے پشتے لگا کر فاتح عالم کہلاتے تھے۔ طاقت کے زور پر حاصل ہوئی دولت سے اپنی سلطنت چلاتے تھے۔

اب دنیا کا چلن بدل گیا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی نے فتح و شکست، عروج و زوال کا انداز بدل دیا ہے۔ اب دوسرے ملکوں پر براہ راست حملہ نہیں کرتے۔ ویسے تو ہزار ہزار میل سے زیادہ تک ضرب لگانے والے میزائل بھی ہیں۔ آواز سے تیز جنگی جہاز بھی ہیں، اور ایٹم بم بھی۔۔۔۔۔۔ مگر یہ سب ہاتھی دانت کی طرح ہیں۔ اس مجسمے (ہوا) کی طرح ہے جسے کھیت میں پرندوں کو ڈرانے کے لیے بانس کے ایک ڈنڈے پر چڑھایا جاتا ہے۔ تاکہ اس کے خوف سے پرندوں سے ان کا اناج محفوظ رہے۔ یہ نیوکلیائی ہتھیار بھی ایسے ہی ہیں۔

اب دوسروں پر قابو پانے کے لیے انہیں اندر سے کم زور کر دیتے ہیں۔ ان کی اجتماعیت کو اس طرح کھوکھلا کر دیتے ہیں کہ بہ ظاہر ٹانگوں پہ کھڑے ہوتے ہیں مگر ایک ہلکی مار سے بھی زمین بوس ہو جاتے ہیں۔

قوم ٹکڑوں میں تقسیم ہو جاتی ہے۔ کبھی مسلک کے نام پہ، کبھی زات پات اور زبان کے نام پہ، کبھی حقوق اور مفادات کے نام پہ ڈگڈگی بجا بجا کے اسے نچاتے ہیں۔ اور پھر ناچتے ناچتے قوم ایسی پاگل ہوتی ہے کہ انجام بھول جاتی ہے۔

کیا ہم، بہ حیثیت پاکستانی بھی اور گلگت بلتستانی بھی اپنا انجام بھول گئے ہیں؟ امید ہے نہیں بھولے ہوں گے۔

پچھلے کچھ عرصے سے CPEC کا غلغلہ ہے۔ دنیا کی سیاست میں یہ محض پاک چائنا اقتصادی منصوبہ نہیں۔۔۔۔ کئی ملکوں کے لیے براہ راست ایک چیلنج ہے۔ ان کے مفادات پہ ایک کاری وار ہے۔ ان ملکوں میں انڈیا کے علاوہ بھی طاقتیں ہیں۔ اس خطے کے بھی۔۔۔ سات سمندر پار کے بھی۔ پہلے تو صرف پاکستان کی مخالف طاقتوں سے اندیشہ رہتا تھا۔ اب تو چائنا کے دشمن بھی اس پروجیکٹ کی وجہ سے مخالفوں میں شامل ہو گئے ہیں۔ ایسے میں دشمن کے مقابلے کے لیے پہلے سے زیادہ چوکنا اور پر عزم ہونا ہے۔

اب دشمن طاقتیں CPEC کو سبوتاژ کرنے کے لیے جنگ نہیں چھیڑیں گی۔ میزائل نہیں چلائیں گی۔ بلکہ ہماری قومی جڑوں میں اتر کر بنیادوں سے ہلانے کی کوشش کریں گی۔ ماضی میں جس طرح کے زہریلے رویے پنپتے رہے ہیں۔ بدامنی اور خوف کے جو بادل چھائے رہے ہیں۔ خاکم بہ دہن کہیں پھر سے دشمن اس کو ٹارگٹ نا کرے۔ اس راکھ میں دبی چنگاری کو پھر سے ہوا نا دے۔

اور پھر ایک ہی علاقہ، ایک ہی گلی محلہ، ایک ہی بازار، ایک ہی تعلیمی ادارہ اور ایک ہی دفتر میں کام کرنے والے ہم لوگ اس آگ میں جل کر راکھ نا بن جائیں۔۔۔۔

بس اس کے لیے احساس زندہ رکھنا ہے۔ میڈیا کی ہر خبر درست بھی نہیں ہوتی ہے۔ سیاست دانوں کی ہر بات قابل قبول بھی نہیں ہوتی ہے۔ اسی طرح تجزیہ کاروں کی ہر رائے معقول بھی نہیں ہوتی۔

اس لیے عوام ہر خبر، ہر بات اور رائے کو آخری نا سمجھیں۔ ہر پہلو سے اسے پرکھیں۔ تبھی ایک سنجیدہ اور باوقار قوم بن کر CPEC جیسے گیم چینجر سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ ورنہ کالا باغ اور دیامر بھاشا ڈیمز کی طرح یہ منصوبہ بھی کچھ عرصہ ڈھول بجا بجا کر خاموش ہو جائے گا۔ اور ملک اور قوم پھر سے ترقی معکوس کے کانٹوں میں الجھ کر رہ جائے گی۔

 

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button