کالمز

وادی یاسین (آخری قسط)

ملٹری تمغے پانے والے شہداء:

سب سے بڑا فوجی اعزاز : لالیک جان شہید نشان حیدر (ہندور)

اسکے علاوہ صوبیدار امان ( تھوئی)، نائب صوبیدار محمد ظفر خان راجہ( طاوس) ، ان بڑے بڑے تمغو ں کے علاوہ بہت بڑی تعداد میں ملٹری جن میں تمغہ بسالت وغیرہ شامل ہیں۔

یاسین میں اس وقت سکولوں اور کالجو ں کی تعداد کچھ اس طرح سے ہے۔

1

ان سکولوں کی تر تیب اس طرح سے ہے کہ حکو مت کی جانب سے منظور شدہ دو ہائی سکول اور دو مڈل سکول ہیں لیکن دو مڈل سکولوں کیلئے مدرسین کو قر بانی کا بکرا بنایا گیا ہے چونکہ وہ بغیر فنڈ کے چلا رہے ہیں اس طرح چھ پرائمری سکو لوں کو بغیر فنڈ کے مڈل کے طور پر چلایا جا رہا ہے اسی طرح ۳۸ سیپ یعنی ( SAP ) سو شل ایکشن پروگرام کے تحت چلایا جا رہا ہے۔ اور سات نن فار مل سکول کے طور پر چلائے جارہے ہیں اور کچھ نجی اور گورنمنٹ کے ملے جلے سکول ہیں جن کو پبلک سکو ل کا نام دے کر چلائے جا رہے ہیں جن کی تعداد پانج ہے۔ اس طرح کالج چار ہیں اور چار کے چار پرایؤیٹ ہیں

یاسین میں مراکز صحت کی تعداد کچھ اس طرح سے ہے۔

2

سول سپلائی ڈپارٹمنٹ کے ڈپوز :

یاسین میں تین جگہ سول سپلائی کے ڈپو ہیں اور یہ سنٹرز یاسین، ہندور اور تھوئی کے مقام پر ہیں

traditional-musicians-of-yasin-valley

شاعری:

یاسین میں یہ ایک المیہ رہا ہے معلوم نہیں شاید حکمران طبقہ کھوار بولنے والے تھے ، کیونکہ کہا یہ جاتا ہے کہ یسن کی راجدہانی میں شاید آخری بروشو یا برشاسکی بولنے والے راجہ تیلی تی تھم اور عیش تھم تھے اور ان کے بعد حکمران طبقہ یا کھوار پولنے والے تھے یا کسی اور وجہ سے بروشاسکی کے بجائے کھوار میں زیادہ گیت یا گانے وغیرہ گائے جاتے تھے مگر چند ایک مشہور گانے جن میں شکاری کے دو گانے کھوار میں ناظرین کی نذر کی جاتی ہیں۔

لال غریسن (ایک مشہور گانا لیکن یہ گانہ کھوار میں ہے)

یہ مشہور گانا جو کہ ہر شادی بیاہ کے مو قع پر گایا جا تا تھا شکا ری کا گانا ہے شکا ر پر جا نے اور خاص کر مار خور کے بارے میں ہے کہ حالات اور موسم کس طرح ساز گار ہو تو شکار کیا جا سکتا ہے اور پھر شکار کے بعد شکاری جب واپس گھر آتا ہے تو گھر پر کیا رسومات ہو تے ہیں کے بارے میں ہے۔ کھوار رسم الخط نہیں آتا ہے اس لئے اردو میں ہی لکھتا ہوں جو کچھ اس طرح سے ہے۔

(لال غریسن)

لال بیو با غائی تاتے لال غریسن
کئی گولوتے با غائی تاتے لال غریسن

لو ٹ گولو تے باغائی تاتے لال غریسن
لا ل سورآور گوئی تاتے لال غریسن

گان مو لا وار گوئی تاتے لال غریسن

لال بِندو مِستو تاتے لال غریسن
کئی ٹِکو مِستو تاتے لال غریسن

غِچ کما لا شیر تاتے لال غریسن
کار چَرینیہ شیر تاتے لال غریسن

شکاری کمالا آئی تاتے لال غریسن
سورو آہو تاراو تاتے لال غریسن

لال تُو آہو گنے تاتے لال غریسن
کئیو تے تاراو تاتے لال غریسن

کئی تُو آہی گنے تاتے لال غریسن
کئی پھتکِن دیت تاتے لال غریسن

سرنگو چرو کو تاتے لال غریسن
آہی ٹِکہ لاکھے تاتے لال غریسن

پوشی مہ دوجے تاتے لال غریسن
آئی مہ غزً اؤ تاتے لال غریسن

داھرا تورے تاتے لال غریسن
چنو بش کا ردو تاتے لال غریسن

گنی راہی آریر تاتے لال غریسن
جم موشو جام جاو تاتے لال غریسن

بایو غیر و جاو تاتے لال غریسن
میرزہ لی میرزہ تاتے لال غریسن

غرو

یہ بھی شکاری کا گیت ہے خاص کر مار خور کا شکار کر نے کے بعد اس کی تعریف کر کے شکاری مار خو ر کے سینگوں کو گردن میں لٹکا کر یہ گیت گاتے ہو ے آتا ہے ۔یہ بھی کھوار میں ہے۔

ہوہو ی تکو کورار یار ا گیرو ریم اے،
تکو کورار یار ا گیرو ریم اے

بو کو دو دیری یار گیرو ریم اے،
ہوہو ی زُ مکو پا میرار گیرو ریم اے

ہوہوی مستکو آمبیزًن (ambaiz^in) تو کا سیس ریم اے
ہوہو ی شبلو کیو گازہ تو کا سیس ریم اے

شبلو کیو گازہ تو کا سیس ریم اے
ہو ہو ستکو گمبوریا ن تو چاپیس ریم

اے ہوہو ی غِچ کو مخمورین تا غِچ ریم اے
ست کو یو زو غان تو پیس ریم اے

یوزوغ تا ن دوری تان بیر ریم اے
ہوہو ی ست کو خنجرین تا فتک ریم اے

ہوہوی بو کو دو دیری تو لا لیس ریم اے
ہوہو ی تو کو داھرہ نی سیس ریم اے

ہوہوی زمکو زومالا تو پاریس ریم اے
ہوہوی پو نکو پغو لین تا پونگ ریم اے

ہوہوی جل کو جل پو شین تا ری گیش ریم اے
ہوہوی سرنگو وخارین تا سرنگ ریم اے

ہوہوی تکو دوشمن تا سرنگ ریم اے
ہوہوی پھستکو کفنین تا پھوست ریم اے

بروشاسکی کے چند مشہور گانے :

تھاوسا سًِران جی بتین سرحد چے لم بلیش مولا غا حوالا،
فکر کا مکور ایتاس سسے جی چے لم بلیش

وی وی دریغ دنیا کھوت دنیا خوبی گرو گرو چُم بو خوشان یا نصیب ا خا چے منا جی یار بتھنم گا لو

سیا ست اکومن خوش اُن با ننی مو وخشی گو گو ئنگم غانا کا چے بُری قبا مو جی یار امِن زرگرے وشلی

وی وی دریغ دنیا کھوت دنیا خوبی گرو گرو چُم بو خوشان یا نصیب ا خا چے منا جی یار بتھنم گا لو

جہ بنگی دیوانہ جہ آیا دوست مو نشائی شوا رفیق کا منو کا جوانی کا بادشاہی

وی وی دریغ دنیا کھوت دنیا خوبی گرو گرو چُم بو خوشان یا نصیب ا خا چے منا جی یار بتھنم گا لو

قالب گو چم جدا جہ روح دو گو بندی جوانے خرچے خانہ خرچ ایچُم بائے جی یار بر یک تھینی مو گاندی

 وی وی دریغ دنیا کھوت دنیا خوبی گرو گرو چُم بو خوشان یا نصیب ا خا چے منا جی یار بتھنم گا لو

جوانی تے غیرات کھی گلی جہ ہیر چمبا گو خسمتو لے با تھب بو لتوتے ستار نیا نے جی گو صفا تنگ ایچمبا

وی وی دریغ دنیا کھوت دنیا خوبی گرو گرو چُم بو خوشان یا نصیب ا خا چے منا جی یار بتھنم گا لو

یار کھند وم سوداگار می بان گو حقا مزدور جہ دوست خفسو لے یا خفسم دوسا کا گویا گوروم می غا تور

وی وی دریغ دنیا کھوت دنیا خوبی گرو گرو چُم بو خوشان یا نصیب ا خا چے منا جی یار بتھنم گا لو

کلام ۲ :

حولی پنڈال نی غانے دینار لپ مو یئشم چے کا جیو
بلبل مو خیال تے کا حلیس اسچے دیچم چے کا جیو

ایچم صفت گو تھنے چستی بے نذیر منیمی جیو
ابس گلہ ایچم با گو گس جہ آچم زِر منیمی جیو

ای یا دسن مو نتے حلیس متظر منیمی جیو

حولی پنڈال نی غان جہ بلبل مو شن غینی جیو
گوئینم گو گو ئنگی چے مک گومے مو ژینگ غینی جیو

ایچم صفت گو تھنے چستی بے نذیر منیمی جیو
ابس گلہ ایچم با گو گس جہ آچم زِر منیمی جیو

ای یا دسن مو نتے حلیس متظر منیمی جیو

جہ بلبل چغا چہ جو چغا چی مجلس میمی جیو
جہ ٹُکن دنگ چے گلہ جہ روح گو چے ڈس منی می جیو

ایچم صفت گو تھنے چستی بے نذیر منیمی جیو
ابس گلہ ایچم با گو گس جہ آچم زِر منیمی جیو

ای یا دسن مو نتے حلیس متظر منیمی جیو

درین گَری کا دُلم کھر ینا ٹنگ جپ منی می جیو
جی بی ھئی بو لتم ایچم دیوس می غا چق منیمی جیو

ایچم صفت گو تھنے چستی بے نذیر منیمی جیو
ابس گلہ ایچم با گو گس جہ آچم زِر منیمی جیو

ای یا دسِن مو نےِ تے حلِس مُتا ظر منیمی جیو

مندر جہ بالا کلام مشہور بروشاسکی شاعر مچھی کے ہیں

اسی طرح جدید دور کے شاعری کا ایک نمونہ بھی پیش خدمت ہے جو کہ لالیک جان نشان حیدر کے خدمات کے حوالے سے بلبل مراد بلبل یاسین کا کلام اور دوسرا ایک ترانہ ہے ۔

لالک جان بائے جہ بتھانے سلسلہ کابلے شغنان
سلامہ دیشقلتی می حویل یہ دوھٹے طوفان

ہاین گو ہنگ چے سًُورا رحمت باران لالک جان
بشہ کہ تل ا میلچن گو ایتُم احسان لالک جان

کا ر گلے ہر دَن یٹے شہید یشو دوا ملتن
ما ملتن ہمیش زندہ بہشت برین ہاین

منا گوشً کھا ٹ اَیتُم جغا نی غا گو کھرا یَن
شہید یارایو نویا بہشت گون گو سًَر لالک جان

جنگ خبر دے یل گونزنگ فت نت رہی ایتی
غانک سفر �آے تی کا ٹ سًُو می اِییا تتی

ٓ ایسُم برنگ شوُا نت ہمت نی چھی ھو دوغٹی
کار گلے نا وارسًھ چھر کہ گو حقا میدان لالک جان

گو ویلجی برنگ عیان گو منہ شیر خانہ یاران
چھیش یا ٹے اُن نکو ئچ منے مِن دشًمیو حیران

تسقن دو سًو چیمی غان دیشقلتم بائے نارتھے جوان
گویک ہمیش دواسی تاریخ تابان لالک جان

سًِلے اُ ن قق نکومن تا بش آفتابہ دریش
مرید حسین ؑ اُن با امر ہر حکمتہ دو نیش

ہمت اُن گویا اِیتا منے کا اکوتی بندیش وزیر ،
جرنیلے ایتی گو ہنگ چے نعرہ لالک جان

غیرت اسلام نیا جوشولے ہیک نارہ دیلی
یارایو شہید منین یسنے شیر زخمی منی

ہول سًُو را ایو منین دومین زندہ فت آئے تی
اوسکو مورچہ ینگا نکون تے تھپے پارہ لالک جان

گو ینگا با لت اپامے بلبلے یاسینے ارمان
بشہ کہ اتو شیمی گو اِیتُم احسان لالک جان

بتھنے یک دیو سم پاکستان شان لالک جان
ہاین گو ہنگ چے سًُورا رحمت باران لالک جان

ایک ترانہ ( ترانہ یاسین)

قرآن یک با یاسین اسلامِ ایس با یاسین

اُن با عجیب حسین لے جہ بابائے یاسین

غازی تنگے ہاین با شہید یشو ملتن با
اسلامے بٹ نیو کھن با اُن با حیدر مُسکین

مستوج چم تا بشام خاشً حک مت گُر گنم حکیم
برنگ اکھر چم اپی تاریخ رقم مبین

بیارچی ہو لے کورنگ دیشقلتین بڈل بدنگ کُھل
اوتین ہِن ہِن نو سًَن و ا جہ شیر کو ٹی یاسین

قر غزے ہول کا دو مین قلمقے فوج کا دو مین
بخدور مہری مہ یر نت اوتین ہک دمہ سازین

افواج گوہرامان با دلباز مہری جان با
ہر جنگہ لالک جان با گوتے دنیا غا یقین

لالکے کارگل گُر گُنی قصاص مڈوری ینی
نشان حیدر دو سًُو می حیدر گو یک لے یاسین

چھمو گڑھ سکھ کہ دولاس کا رگلے چھر کہ براس
گوتے گو یرم میراس ان بشہ رک لے یاسین

گو سًِل شرابے شیرین گو چھر می کوہ سینین
جوتنگ یارقند قالین سًَن جنت با لے یاسین

علمے ہنر ایتنگ مہ سفر جاری ا وسنگ
مہ برنگ اثر منیش ما گو کے جا اسے غرنگ

اُن پاکستانے حہ با لے بزرگانے سًَغۃ می یر
اسلا مے سہ با سِن لے بلبلے یاسین

قرآن یک با یاسین اسلامے ایس با یاسین
ان با عجیب حسین لے جہ بابائے یاسین

saib

جنگ یا لڑائیاں :

یہا ں میں ان لڑائیوں کا ذکر کروں گا جو یاسین والوں نے بیرونی حملہ آوروں کے خلاف لڑی ہیں ۔ مندرجہ ذیل لڑائیاں مشہور ہیں جو یاسین یا یٰسین کی حدود سے باہر جا کر لڑی گئیں ۔

(۱) قر غزسے معرکہ : قرغز یا روسیوں سے تھما رائے اور بر کولتی کے درمیان کہیں پر لڑی گئی جس میں صرف ایک ایک بہادروں کا مقابلہ ہواجو کہ یا سین کی جانب سے نمبر دار مہری تلوار بعض اور قرغز کی کسی نیزہ باز کے درمیان مقابلہ ہوا ، اور یاسین کا مشہور تلوار باز مہری نے جیت لیا تو دشمن دم دبا کر بھاگ گیا

(۲) بیارچی یا شروٹ شکائیوٹ کا معرکہ: جس میں سکھ اور ڈوگرہ فوج کو تلوار باز بدنگ اور بڈول نے تہس نہس کر کے شکست دیا

(۳) بھوپ سنگھ پڑی کا مشہور معرکہ:

جس میں ڈوگرہ جنرل بھوپ سنگھ اور اس کی فوج کا صفایا کیا گیا اور صرف ایک بوڑھی خاتون کسی طرح سے بھا گنے میں کامیا ب ہوئی اور ایک گائے کی مدد سے تیر کر دریائے گلگت بلتستان کو عبور کر کے مہاراجہ کو اس بات کی خبر دیا کہ یاسین والوں نے جنرل بھوپ سنگھ اور اس کی فوج کا صفایا کر دیا

(۴) المق کے فوج کے ساتھ معرکہ:

جس میں شاہ تغزی کوچکِ کی بہادری اور حاضر دماغی نے المق کے سپاہ سلار کو موت کے آغوش میں دھکیل کر بھاگنے پر مجبور کیا

(۵)اس کے علاوہ مقامی راجوں کے ساتھ بہت سی جھڑپیں ہو تی رہیں

(۶) مڈور ی کا خون آشوب معرکہ :

mudori-from-sultanabad

جس میں اپنوں کی غداری کی وجہ سے انتہائی درد ناک شکست سے یاسین والے دو چار ہوے۔ لیکن اسے شکست نہیں کہا جاسکتا اس لئے کہ ڈوگرہ پر یاسین والوں کا اتنا خوف طاری تھا کہ قریباََ ایک صدی تک حکومت گلگت بلتستان پر کرنے کے باوجود نہ ڈوگرہ اور نہ ہی ان کا کوئی اہلکار یاسین جانے کی ہمت رکھ سکتا تھا اور اس طرح 1948 ؁ء میں ایک پولیٹیکل ایجنٹ کاب صا حب جب یاسین گئے اور اس نے جب یاسین کے لوگوں کی خوداری کو للکار ا ، تو یاسین کے کچھ جیالوں نے گھوڑے سے گرا کر مار کے سورما بنایا اور جب ڈوگرہ حکومت نے ان کو گرفتارکیا اور ان کو گرفتار کرنے کیلئے راجہ صفت بہادر کا لڑکا جو انسپکٹر پولیس تھا کو بھیجا گیا اور جب پولیس نے ہتھکڑیاں ان کے سامنے پھینک دیا جیسا کہ ڈرانا مقصود ہو تو یاسین کے ایک بہادر سپوت نے آگے بڑھ کر ، ان ہتھکڑیوں کو چوما اور انسپکٹر کو غصہ آیا اور پوچھا کہ کیوں چوم رہے ہو تو اُس نے برجستہ کہا کہ جناب انہی ہتھکڑیوں میں راجہ صفت بہادر کو گرفتار کیا جاکر لے گئے تھے کیا یہ میری خوش نصیبی نہیں کہ ہمیں بھی ان میں جھکڑ کر لے جایا جائیگا ، تو انسپکٹر یہ کیسے گوارا کر سکتا تھا کہ یاسین والوں کی وجہ سے اس کے باپ کو گرفتار کیا گیا تھا اور پھر آج وہی یاسین والے اس بات پر فخر محسوس کر رہے تھے بلکہ اشاراتاََ طنزکر رہے تھے کہ تمھارا باپ بھی اسی طرح گرفتار کیا گیا تھا تو آج اگر ہم گرفتار ہوئے تو کیا ہوا، تو انسپکٹر صاحب نے ان کو ہتھکڑیاں پہنائے بغیر ہی گلگت جیل پہنچایا اور انہی دنوں میں آزادی گلگت کی تحریک بھی شروع ہوا اور ڈوگرہ گورنر گھنسارہ سنگھ نے اپنی کتاب گلگت ۱۹۴۷ء ؁ سے پہلے(GILGIT BEFORE 1947) میں اس کا ذکر اس طرح کیا ہے کہ یاسین والے بڑے انقلابی لوگ ہیں کاب صاحب کو مارنا ایک بہانہ تھا اصل میں یہ آزادی گلگت کی بنیاد ِ ڈال دیا گیا تھا یہی سے انقلاب گلگت شروع کیا گیا۔

مڈوری کے جنگ میں یاسین کا راجہ چترال گیا ہوا تھا اور چید ہ چیدہ لوگ بھی ان کے ساتھ گئے تھے یاسین کے لوگون کو اپنوں کی بیوفائی نے مار دیا ، عسیٰ بہادر پونیالی نے یاسین ہندور کے ارسلا خان نامی شخص کو یاسین کی گورنری کا جانسا دے کر غداری کرنے پر امادہ کیا اور مڈوری قلعہ کے سرنگ کو بند کیا گیا اور قلعے کا دروازہ کھلوایا جس کی وجہ سے ڈوگروں نے نہتے لوگوں کو تہس نہس کیا بہت سوں کو مار ڈالا اور شیر خوار بچوں کو نیزوں او ر تلوارں کی دار پر رکھا گیا اور ٹکڑے کیا گیا، لیکن جب واپسی پر ڈوگروں کا ایک جتھہ جب غازی گوہرآمان کے قبر کی بے حرمتی کی غرض سے چیترنگ میں ان کے قبر پر پہنچ گئے تو کہتے ہیں کہ ان کی قبر اس طرح ہلنے لگا جیسے بونچال آیا ہو اور ڈوگرے بھاگ گئے لیکن جب دوسرا جتھہ جب قبر کے نزدیک گیا تو قبر شق ہو گیا اور اس میں سے ہزاروں کی تعداد میں تمبوڑیاں نکل گئے اور ڈوگروں پر اس زور سے حملہ آور ہوے کہ وہ دم دباکر بھاگنے پر مجبور ہوے اور ان تمبوڑیوں نے یاسین کی آخری حدود تک ان کا پیچھا کیا یہی وجہ تھی کہ جب تک ڈوگر ہ گلگت میں رہا یاسین کا رخ نہ کرسکا اور سکھوں نے کہا کہ گوہر آمان مر کر بھی ہمیں نزدیک نہیں آنے دیتاہے ۔

راجہ عبدالرحمان کی جانشینی کا غلط فیصلہ:

تحقیق طلب، کہتے ہیں کہ راجہ نے اپنے بڑے صاحبزادے صوبیدارمیجر یوسف کو اپنا ولی عہد مقرر کیا تھا لیکن ہنزہ کا میر اور راجہ عبدالرحمان کی دوسری بیوی جو کہ راجہ وخان کی شہزادی تھی اس بات پر خوش نہ تھے چونکہ راجہ کا دوسرا بیٹا جان صاحب میر آف ہنزہ کا داماد تھا اور وخک خونزہ کا بیٹا تھا ۔ اس لئے ان دونوں نے راجہ صاحب کو مجبور کیا کہ وہ ۱۹۳۵ ؁ء کی کشمیر کے دربار کے مو قع پر اپنی جانشین کو تبدیل کرے اور صوبیدر میجر یو ؁سف کی بجائے جان کو جانشین مقرر کریں اور راجہ نے مجبورہو کر یہ ارادہ کر کے کشمیر روانہ ہوا کہ جانیشنی تبدیل کرے گا ۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے جب راجہ اور ان کا قافلہ بونجی پہنچا تو تار ملا کہ جان صاحب وافات پا گیا ہے لیکن ایک صاحب جو کہ پڑھا لکھا تھا تار پڑھ کر راجہ کو صورت حال سے اگاہ رکھنے کی بجائے دروغ گوئی سے کام لیا اور راجہ کو نہیں بتایا کہ ان بیٹا فوت ہوا ہے اور جب کشمیر پہنچے تو مہاراجہ کو بھی تار ملگیا تھا ، اتالیق بہادر امانشاہ سے روایت ہے کہ مہاراجہ نے ایک ہفتے تک راجہ کو ٹالتا رہا کہ یاسین جا کر مجھے تار دیدو میں آپ کے جانشین کو تبدیل کرونگا مگر بد قسمتی راجہ نے نہیں مانا اور مہاراجہ نے بھی گوارا نہیں کیا کہ راجہ کو صحیح صورت حال سے اگاہ کریں شاید مہاراجہ نے یہ سوچا ہو گا کہ راجہ کے اپنے لوگ اسے نہیں بتا راہے ہیں تو مجھے بتانے کی کیا ضرورت ہے یا یہ کہ راجہ کے اپنوں نے ہی مہاراجہ یہ بتایا ہو کہ راجہ کو اندھیرے میں رکھا جائے واللہ عالم ب الصواب۔

راجہ شاہ عبدالرحمان کا فوت ہونا :

۱۹۳۵ء ؁ میں کشمیر کے دورے سے جب واپس آرہے تھے تو کہتے ہیں کہ جوٹیال گلگت کے مقام پر کسی پنڈت نے اچانک راجہ کو اس کے بیٹے جان صاحب کی موت کی خبر سنائی اور راجہ کو دل کا دورہ پڑا اور موت کا باعث بنا اور چونکہ راجہ نے اپنے بڑے بیٹے صوبیدار میجر یوسف کے جگہ جان کو اپنا جانشین مقرر کیا تھا اور وہ راجہ کے کشمیر پہنچنے سے قبل ہی فوت ہو چکا تھا اور جب راستے میں یہ جان لیوا خبر اچانک ملا تو جانبر نہ ہو سکا اور اللہ کو پیارے ہو گئے اور ان کی وافات کے بعد راجہ میر باز خان یاسین کا راجہ مقرر کیا گیا لیکن ان کو یاسین کے لوگوں نے مار بھگایا اور ایک سال تک اتالیق غفران نے حکومت کیا اور ۱۹۴۰ ؁ء میں انگریز پولیٹیکل ایجنٹ اور ڈگروں نے صوبیدار محبوب ولی خان ولد راجہ سکندر آف نگر کو راجہ بنا کر یاسین بھیجا لیکن یاسین والوں نے اس کو سکھ اور آرام سے رہنے نہیں دیا۔ کئی بغاوتیں ہوئیں ، سندی کے پولو گرونڈ میں پولو کھیلتے ہوے مارا اور زخمی ہو ا ، تو تمبوڑیوں کے کاٹنے کا بہانہ بنایا گیا ، رحمت امان ( سلطان آباد والے) نے چیترنگ میں مار کر گھوڑے سے گرایا اور چھ ماہ تک گلگت سکاوٹس کی چھاونی گوپس میں نظر بند رہا، خلیفہ بلو کا کہنا ہے کہ ایک دفعہ یاسین کے عوام راجہ محبوب ولی خان کو مار بھگانے کے لئے چمر کھن میں جمع ہو گئے اور کئی دن تک یہ ہڑتال جاری رہا اور پھر سندی کا ایک معتبر شخص محمود شاہ کو یہ پیغام دے کر ڈور کھن بیھجا گیا کہ راجہ یاسین چھوڑ کر چلا جائے اور جب یہ بوڑھا شخص جب ڈورکھن پہنچا تو راجہ نے پریشانی کے عالم میں پوچھا کی دادا جان لوگ کیا کہتے ہیں تو اس دلیر شخص نے بر جستہ کہا کہ ( نذر) یعنی جناب لوگ کہ راجہ نگر چلو نگر چلو کہتے ہیں تو راجہ گھبر ا گیا اور بھاگنے کی تیاری شروع کیا اور بلو خلیفہ کا کہنا ہے کہ اس نے جب دیکھا کہ راجہ گھوڑے پر سوار ہو کر بھاگنے کی تیاری کر رہا ہے تو ہمارے درمیان یہ گفتگو ہوئی اور راجہ نے بھاگنے کا ارادہ ترک کیا

میں (بلو خلیفہ) نے کہا کہ راجہ صاحب کہا ں کی تیاری ہے

راجہ محبوب ولی خان: میں گلگت جارہا ہوں

بلو خلیفہ: راجہ صاحب حکومت کے خاطر راجے اپنے سگے بیٹے سے لڑائی کر تے ہیں اور آپ نہتے یاسین والو ں سے گھبرا کر بھاگ رہے ہیں

راجہ : پھر مجھے کیا کرنا چاہیے

بلو خلیفہ : کسی کو گوپس چھاونی بھیجو ادو ، وہاں نگر کے فوجی ہیں اور کمان تمھارے بھائی کر رہا ہے وہ فوجی بھیجے گا تویاسین والے فوج سے مقابلہ نہیں کریں گے اور تمھاری راجگی بر قرار رہے گی

راجہ : گھوڑے سے اتر کر تو پھر یہ لو اسی گھو ڑے پر تم خود جاکر یہ کام کرو

بلو خلیفہ نے خود، راجہ کے تیز رفتار گھوڑے پر سوار ہو کر راجہ کے بھائی سے امداد طلب کیا اور گلگت سکاوٹس کی نگر کی پلاٹون سے کچھ فوجی مشین گن وغیرہ لے کر آگئے اور بلو خلیفہ کا کہنا ہے کہ ان فوجیوں نے اپنی تعداد کو زیادہ دیکھانے کی غرض سے قلعے میں موجود تمام لوگوں کو پورے قلعے کے چار دیواریوں پر اس طرح ڈپلائی کیا کہ دور سے وہ بھی فوجی نظر آئیں اورساتھ ہی راجہ کی ہر کاروں کو پر پگنڈ ہ پر مامور کیا کہ فوج نے قلعے کی دفاع کا کام سنبھالا ہے اور ایک پلا ٹون آئی ہے ۔

اس طرح یاسین والوں کی کامیابی پھر اپنوں کی وجہ سے کھٹائی میں پڑ گیا اور ، راجہ کے طبعی موت تک وہ راجہ رہا اور ۱۹۶۷ء ؁ میں فوت ہو گئے۔

 

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button