کالمز

آل انڈیا ریڈیو کا تیر ھواں پیج

چھوٹی سی خبر آئی ہے کہ آل انڈیا ریڈیو نے 16ستمبر 2016سے اپنا تیر ھواں ویب پیج بھی جاری کر دیا ہے اس پر تازہ ترین خبر یں تبصرے اور خصوصی نشریا ت دیدی گئی ہے آل انڈیا ریڈیوکے نئے ویب پیج کی اہمیت یہ ہے کہ اس کا تعلق بلوچستان میں علیحدگی پسند تحریک سے ہے اور یہ بلوچی زبان میں آل انڈیا ریڈیو نئی دہلی کے ڈائریکٹر پروگرامز امن مجولدار نے ویب پیج جاری کرتے ہوئے اپنے بیان میں کہاہے کہ آل انڈیا ریڈیو ایکسٹر نل پبلسٹی ونگ 27زبانوں میں پروگرام ایک گھنٹہ دورانیے کا ہے ادارے میں جدید ٹیکنالوجی کو فروغ دینے کا مربوط اور جامع پروگرام موجود ہے جس کے تحت نئے بلوچ ویب سائٹ کے ہمراہ ایک ڈیجیٹل موبائل اپلی کیشن بھی جاری کردیا گیا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پیغام پہنچ سکے اور نئی نسل کو اس پروگرا م سے استفادہ کرنے کے مواقع مل سکیں بلوچی ویب سائٹ ایسے وقت پر لانچ کیا گیا جب افغان صدر اشرف غنی بھی نئی دہلی میں موجود تھے اور پاکستان کو سبق سکھانے کی دھمکی دے چکے تھے سفارتی زبان میں کسی بھی اعلان کا مخصوص وقت اپرچونیٹی یا موقع کہلاتا ہے آل انڈیا ریڈیو نے موقع سے فائدہ اُٹھایا ہے عنقریب گلگت بلتستان کی زبانوں میں بھی ایسے ہی پروگرام لانچ کئے جائینگے اس خبر میں پاکستان کی حکومت اور میڈیا منیجروں کے لئے تین پیغامات یہ ہیں پہلا پیغام یہ کہ پڑوسی ممالک اس دور میں ریڈیو کو ٹیلی ویژن سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں دوسرا پیغام یہ کہ پڑوسی ممالک کا ایکسٹرنل پبلسٹی ونگ بہت فعال کردار ادا کرتا ہے اور تیسرا پیغام یہ ہے کہ پاکستان میں علحیدگی پسند تحریکوں کی مدد کے لئے پڑوسی ممالک ریڈیو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں دوسری طرف پاکستان کی صورت حال یہ کہ ہماری حکومتوں نے پبلسٹی ،کاونٹر پبلسٹی اور ایکسٹرنل پبلسٹی کے حوالے سے موثر کا م کرنے والے دو مربوط شعبوں کا کام بند کر دیا ہے 1988 ؁ء سے یہ شعبے کام نہیں کرتے پہلا شعبہ مانیٹر نگ کہلاتا ہے اس شعبے دشمن ممالک کے نشریات اداروں لمحہ بہ لمحہ مانیٹرنگ کی جاتی تھی دوسرا شعبہ کاونٹر پبلسٹی کہلاتا تھا اس شعبے میں ماہرین کی خدمات حاصل کرکے دشمن کے پروپگینڈے کا جواب دیا جاتا تھا پشتو میں ریڈیو پاکستان پشاورسے عبداللہ جان مغموم ’’خواگہ تراخہ‘‘کے زیر عنوان ریڈیو کا بل کے پروپگینڈے کا جواب دیا کرتے تھے شاپسند خان اور پائندہ خان کی گفتگو بھی اس سلسلے کی کڑی ہو ا کرتی تھی ۔لاہور، کوئٹہ ،ملتان اور راولپنڈی سے بھی اس طرح کے پروگرام نشر ہوتے تھے۔

1988 ؁ء میں ریڈیو پاکستان کے انجینرنگ کا شعبہ اپنی غیر طبعی موت مرگیا کوئٹہ ،پشاور ،لاہور ،ملتان اور راولپنڈی کے سٹیشن خاموش کر دیئے گئے چترال دیر ،سوات اور گلگت میں بیٹھ  کر ریڈیو پاکستان کے کسی بھی سٹیشن کے پروگرام سننا محال ہو گیا 1988تک پاکستان کے تمام سٹیشن سنائی دیتے تھے 1965 ؁ء اور 1971 ؁ء کی جنگوں میں لوگوں کی معلومات کا اہم ذریعہ بلکہ واحد ذریعہ ریڈیو پاکستان ہوا کرتا تھا انجینرنگ کے شعبے کی تباہی کے نتیجے میں اے ایم شارٹ اور میڈیا ویو بند کر دیئے گئے پھر ایک مرحلہ وار پروگرام کے تحت ایف ایم چینلرز لائے گئے ان کا دائرہ محدود ہے اور پروگراموں کا کوئی مقررہ معیار یا سکرپٹ یا ریڈیو چوکی (آرجے)کی تربیت کا نظام موجود ہے جس کے جی میں جو بات آتی ہے وہ نشر ہو جاتی ہے رطب و یابس اور ’’الم غلم‘‘سب کچھ سننے کو مل جا تا ہے۔

نئی خبر کے حوالے سے قومی اسمبلی اور سینٹ میں پوچھنے کے لئے چار اہم سوالات بنتے ہیں پہلا سوال یہ ہے کہ دفتر خارجہ ،وزارت اطلاعات اور وزارت داخلہ کے درمیان دشمن کے پروپگینڈے کو مانیٹر کرنے اور اس کا جواب دینے کے لئے کیا مکنیزم ہے ؟اگر کوئی مکینزم نہیں ہے تو کیوں ؟دوسرا سوال یہ کہ دشمن کے پروپگینڈے کو مانیٹر کرنے کا جونظام 1988تک موجود تھا اس کو کن مصلحتوں کی بنیاد پر ختم کر دیا گیا ؟تیسرا سوال یہ ہے کہ ریڈیو پاکستان کے اے ایم ٹرانسمیٹروں سے شارٹ ویو اور میڈیم ویو نشریات کو ملکی سرحدوں کے اندر اور سرحدوں سے باہر سامعین تک پہچانے کا سلسلہ کیوں بند کیا گیا ؟اور چوتھا سوال یہ ہے کہ بلوچستان ،فاٹا ،کراچی اور گلگت بلتستان میں دشمن کے زہر یلے پروپگینڈے کا جواب دینے کے لئے حکومت کے پاس کونسی حکمت عملی ہے دیر سے رکن اسمبلی صاحبزادہ طارق اللہ ،مردان سے رکن اسمبلی علی محمد خان ،کوہاٹ سے رکن اسمبلی شہریار آفریدی اگر یہ سوالات اسمبلی کے فلورپر اٹھائیں توبہتر ہوگا اسی طرح سینٹ میں سنیٹر الیاس بلور ،سنیٹر فرحت اللہ بابر ،سنیٹر ثمینہ عابد اور سنیٹر سراج الحق یہ سوالات اٹھاسکتے ہیں یہ مسئلہ اس قدر اہم ہے کہ کہ انٹر سروسزپبلک ریلیشنزکو بھی اس پر توجہ دینی چاہئے اور ستمبر کے آخر میں منعقد ہونے والی کور کمانڈر ز کانفرنس میں اس کو زیر بحث لانا چاہئے یہ ملکی سلامتی کا اہم مسئلہ ہے جنگی محاذ پر جس جنگ کو ہماری مسلح افواج نے جیت لیا ہے میڈیا کے محاذ پر ناقص حکمت عملی اور ناقص کار کردگی کی وجہ ے ہماری قوم پسپا ہورہی ہے۔

ایک زمانہ تھا جب ریڈیو پاکستان کو اشفاق احمد ،سعادت حسن منٹو ،احمد نڈیم قاسمی ،فارغ بخاری ،پروفیسر طہٰ خان ،امیر حمزہ شنواری جیسی قدآور ادبی شخصیات کا تعاون حاصل تھا ایک یہ وقت ہے کہ ریڈیو پاکستان پر کسی قد آور ادبی ،عملی اور قومی شخصیت کی آواز سنائی نہیں دیتی دشمن کے مذموم پروپگینڈے کا جواب دینے کے لئے کوئی مکینزم نہیں ہے ریڈیو کا بل اور آل انڈیا ریڈیو کی مانیٹرنگ کے ساتھ ساتھ موثر کا ونٹر پبلسٹی بھی وقت کا اہم تقاضا ہے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button