ویسے تو گلگت بلتستان کے مقامی حکمرانوں کے بے تکی اخباری بیانات کو وفاق پاکستان اور گلگت بلتستان کا سمجھدار طبقہ لطیفے کے طور پر ہی پڑھتے ہیں لیکن ہمارے حکمران آج بھی اس بات کو سمجھنے کیلئے تیار نہیں ۔ گزشتہ دو ہفتوں سے گلگت بلتستان کو آئینی پیکج دینے کے حوالے سے مقامی اخبارات میں روزانہ انہی افراد کی واہیات پر مبنی بیانات شہ سرخیوں میں پڑھ رہا ہوں گزشتہ مہینوں میں وزیر اعلیٰ صاحب پاکستان کے الیکٹرانک میڈیا پر بیٹھ کبھی عبوری،کبھی اسپیشل اور کبھی کچھ صوبے کا مطالبہ کرکے اپنے خطے کا تماشا بنایا ہوا تھا۔
اسی طرح آج کل اسپیکر ناشاد کے بیانات مقامی اخبارات کی زینت بنے ہوے ہیں۔ ناشاد صاحب اپنے ایک حالیہ اخباری بیان میں فرماتے ہیں کہ کشمیر جیسا سیٹ اب لانے کا مطلب گلگت بلتستان میں پاکستان کا جھنڈا اُتارنا جیسے ہے، لہذا ہمیں قبول نہیں۔ فدا ناشاد کے بیان سے ایسا لگتا ہے کہ گلگت بلتستان کو آذاد کشمیر طرز کا سیٹ دینے کے حوالے سے باتیں وفاق پاکستان میں زیر غور نہیں بلکہ چائنا یا بھارت کر رہے ہیں،اسی لئے ناشاد جیسے لوگوں کو عرف عام سے شاہ سے ذیادہ شاہ کے وفادار کہتے ہیں جنہیں نہ تاریخ کا کچھ پتہ ہے نہ ہی یہ لوگ آئین اور قانون کے بارے میں یہ لوگ کچھ جانتے ہیں انکی اپنی ایک دنیا ہے جسکا نام ہے عہدہ اور موصوف اسی دنیا میں گزشتہ دہائیوں سے گم ہیں لہذا اُن کے دل ہمیشہ ایک خوف رہتا ہے کہ کوئی نیا نظام انکے عہدے کے حوالے سے مسائل پیدا نہ کرے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے جب 2009 میں نیا پیکج لانے کے حوالے سے باتیں عروج پر تھی اور راقم بھی موصوف کے ساتھ کسی نجی محفل میں شریک تھا اس وقت بھی موصوف کا یہی فرمانا تھا کہ نیا پیکج گلگت بلتستان کیلئے متحمل نہیں یہاں مسائل پیدا ہونگے اور آج 2016 میں بھی موصوف اسی انداز میں پریشان دکھائی دیتا ہے تو سوچیں اگر پاکستان گلگت بلتستان میں کوئی نیا انقلابی نظام متعارف کراتے ہیں تو یہ لوگ کہاں ہونگے انکی اوقات کیا ہوگی۔؟ ورنہ یہ بات ایک تاریخی حقیقت ہے کہ گلگت بلتستان کا الگ اپنا جھنڈا بھی ہے اور دو ہفتے تک الگ ریاست نے باقاعدہ کام بھی کیا ہے۔ یوں اگر پاکستان کے حکمران اپنی تاریخی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے مسلہ کشمیر کی ممکنہ حل تک کیلئے گلگت بلتستان کو یکم نومبر 1947 کی پوزیشن پر بحال کرتے ہیں تو پاکستان کو فائدہ بھارت اور ناشاد جیسے نام نہاد لوگوں کو بہت نقصان ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ناشاد جیسے لوگ ہر وقت اس خوف میں رہتے ہیں کہ گلگت بلتستان میں کوئی انقلابی سیاسی تبدیلی نہ آئے جس سے بھارت اور انکے عہدے کو کوئی نقصان پونچے۔ لہذا وفاق کو سمجھنے کی ضرورت ہے ناشاد اور بھارت پہلے بھی ناشاد تھے اور اب بھی ہیں اور ہماری دعا ہے کہ ناشاد اور بھارت ناشاد ہی رہے۔
یہی مسلہ مولانا شہاب کے ساتھ بھی ہے لگتا ہے مولانا کو بھی شہاب میزائل سے بڑا ڈر لگتا ہے یہی وجہ ہے کہ شہاب صاحب بھی مسلہ کشمیر کی آڑ میں شہاب میزائل رکھنے والے ملک پاکستان کو گلگت بلتستان کو حقوق دینے کے بعد حاصل ہونے والے فوائد سے پریشان رہتے ہیں۔ لہذا ہمارے سیاست دانوں اور عوام کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ریاست گلگت بلتستان کی بحالی سی پیک کے کامیابی کی ضمانت اور بھارت کی شکست ہے۔ لہذا ابن الوقت حضرات کیلئے اتنا ہی کہوں گا کہ شرم تم کو مگر نہیں آتی۔!!