کالمز

صدا بصحرا ۔۔۔۔۔ کربلا اور کوفہ کی بحث 

ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی

اسلامی تاریخ میں کربلا اور کوفہ کے دو ناموں کو ہمیشہ ایک ہی طور پر پیش کیا گیا ایک انداز میں ان نامو ں کو علامت بنا یا گیا انوری وخاقانی سے لیکر انیس و دبیر اور حالی و اقبال تک سب نے اس پر اتفاق کیا ہے کہ کربلا ظلم کی علامت ہے اور کوفہ بے و فائی کی استعا رہ ہے شاعر کے تخیل کی حد تک اس بات سے اتفاق کیا جاتاسکتا ہے مگر اسلام کی تعبیر وتشریح اور امام حسین ابن علیؓ کے مقام و مرتبہ کو سامنے رکھتے ہوئے ظلم اور بے وفائی پر قصہ ختم نہیں ہوتا بلکہ اس موڑ پر نئی کہانی شروع ہوجاتی ہے علامہ اقبال ہی کے کلام سے اس کا ثبوت بھی ملتا ہے

جلا لِ بادشاہی ہو یا جمہوری تماشا
جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیز ی

کربلا اور کوفہ کی اصل بحث یہ ہے اسلامی تاریخ میں بعض مورخین نے حضرت امیر معا ویہؓ کو پانچواں خلفیہ بھی لکھا ہے اُن کی دلیل یہ ہے کہ دورِ معاویہ میں اسلامی فتوحات کا سلسلہ جا ری رہا حضرت امیر علم کے لحاظ سے بلند مرتبے پر فائز تھے ان کی ذات میں امانت ، خطابت ، شریعت ، طریقت اور جہاد کے ساتھ سیاست اور حکومت کی صفات بھی یکجا تھیں ان کا دور خلفائے راشدین کے دور کا تسلسل تھا اس بنا ء پر امام حسن ابن علیؓ اور امام حسین ابن علیؓ نے صلح جوئی کا راستہ اختیار کیا اور اُن کو بیعت کے قابل قرار دیا جبکہ یز ید بن معاویہ کی ذات میںیہ خوبیاں یکجا نہیں تھیں وہ بادشاہ بن کر حکومت کر سکتے تھے نماز کی امامت ، منبر پر خطابت نہیں کرسکتے تھے شریعت کے مطابق فیصلے نہیں کرسکتے تھے طریقت اور جہاد کے اعلیٰ مقاصد کی تکمیل نہیں کرسکتے تھے ان کی حکومت کا مطلب یہ تھا کہ دین کو سیاست سے جدا کر دیا گیا ، مذہب اور شریعت کا کام ایک طبقے کو دید یا گیا ، حکومت او رسیاست کا منصب دوسرے طبقے کو دید یا گیا نبی آخر الزمان محمد مصطفی ﷺ نے دونوں کو یکجا کیا تھا آپ ﷺ کی شریعت سے پہلے بھی ہر پیغمبر نے دونوں کو یکجا کیا تھا حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کی مثالوں کو غیر مسلم مورخین نے بھی شرح و لبسط کے ساتھ بیان کیا ہے اس میں کوئی ابہام نہیں ہے کوئی شک یا شُبہ نہیں ہے نبی کریم ﷺ کی حیات طیبہ میں محراب و منبر اور تاج و تخت کو یکجا کر کے عملی نمونہ دکھا یا گیا ہے چار خلفائے راشدین کا دور اُسی طریقے پر گذرا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اُس طریقہ پر خلافت کی یزید ابن معاویہ کا دور اس لحاظ سے مختلف تھا کہ اُس دور میں محراب و منبر کو تاج وتخت سے الگ کر دیا گیا جس شخص کے سر پر تاج رکھا گیا اور جس کو تخت شاہی کا وارث قرار دیا گیا وہ محراب و منبر پر جلو ہ افر وز ہونے کا اہل نہیں تھا محراب و منبر کے لئے کسی دوسری شخص کو آگے لانا تھا اور یہاں دین کو سیاست سے لا ز ماً الگ کر کے دین کا کام دین دار کے سپر د کر نا تھا سیاست کا کام جس کے حوالے کر نا تھا اُس کا دیندار ہونا لازم نہیں تھا 1438 ہجر ی میں اس بحث کو دو بارہ چھیڑنے کی ضرورت پیدا ہوگئی ہے کیونکہ 1400 سال سے زیادہ کا عرصہ گذرنے کے بعد اصل بحث کو چھوڑ کر فروعات میں مسلمانوں کو الجھا یا گیا ہے مثلاً تمام فرقوں اور مسلکوں کے مسلمان امام حسین علیہ السلام سے محبت کر تے ہیں بنی کریم ﷺ اور اُن کی اولاد پر دورد بھیجتے ہیں مگر آپس میں ایک دوسرے کو مسلمان نہیں سمجھتے ایک دوسرے کی مسجدوں پر مسلح حملے کرتے ہیں ایک دوسرے کے گھر وں اور دکانوں ، دفتروں کو آگ لگاتے ہیں ان میں سے ایک مسلک یا فرقے کی حکومت کا مطلب یہ ہے کہ دیگر تمام فرقوں کے لوگوں کو قتل کیا جائے گا کسی کو بھی زند ہ نہیں چھوڑ ا جائے گا حالانکہ بنی کریم ﷺ کی مبارک زندگی میں عبداللہ بن ابی زندہ رہا اُس پر کوئی حملہ نہیں ہوا بنی کریم ﷺ نے مخالفین پر حملے کا حکم نہیں دیا یہ اسوہ حسنہ ہے مگر امام حسین علیہ السلام کے چاہنے والوں نے اسوہ حسنہ کے اس پہلو کو بالکل بھلا دیا ہے اس وجہ سے لازم ہوگیا ہے کہ محراب و منبر کو یزید ی سلطنت کے طور پرالگ کر دیا جائے اور تاج و تخت ایسے شخص کے حوالے کیا جائے جو محراب و منبر کا اہل قطعاً نہ ہو جدید علمی اصطلا ح میں اس کو سیکو لر ازم کہا جاتا ہے اگر علما ئے دین کے درمیان ذاتی دشمنی ، مسلکی اقابت اور فرقہ ورانہ تشددکا موجود ہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو بھارت کے مسلمانوں کی طرح پاکستان کے مسلمان بھی سیکولر ازم کو لازم قرارد دینے پر مجبور ہو جائینگے بھارت کے 36 کروڑ مسلمانوں کے ہر نما ئیند ہ اجتما ع میں علما ئے کرام اپنی تقریروں کے اندرسیکو لر ازم کی حمایت کرتے ہیں اور سیکو لر ازم کے حق میں قرار دادیں منظور کرتے ہیں اُن کو ہند ووں کی انتہا پسند ی سی اتنا ہی ڈر ہے جتنا پاکستانیوں کواپنے علما ئے کرام کی انتہا پسند ی کا خوف دامن گیر ہے کربلا اور کوفہ کی اصل بحث یہ ہے کہ منبر اور محراب کا کردار کیا ہو نا چاہیے ؟ حضرت اما م عالی مقام نے جو عظیم قربانی دی اس کا مطلب یہ تھا کہ منبر اور محراب کا جو اہل ہے وہی شخص مسلمانوں کے اندر تاج و تخت کا بھی اہل ہوگا دین کو سیاست سے جدا کیا گیا تو اس کے خطرناک نتائج برآمد ہو نگے آج ہمارے ہاں امام حسین علیہ السلام کی شہادت پر تقریریں کرنے والے علمائے کرام تشد د آمیز رویوں کی وجہ سے ملک کو سیکو لر ازم کی طرف دھکیل رہے ہیں اگر پاکستان کو سیکو لر ازم ریاست بنا یا گیا تو ترقی پسندوں کی محنت سے ایسا نہیں ہوگا بلکہ علمائے کرام کے انتہا پسند کر دار کی وجہ سے ایسا ہوگا اور اسلامی تاریخ تناظر میں اس کو ’’ یز دید یت ‘‘ کا نام دیا جائے گا کر بلا اور کوفہ کے لوگوں نے حضرت امام عالی مقام کو سیکولر ازم کی فتح کے لئے خون میں نہلا یا تھا علامہ اقبال نے کہا

غریب و سادہ و رنگین ہے داستانِ حرم
نہا یت اس کی حسین ابتدا ہے اسمٰعیل

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button