جاوید احمد ساجد سلطان آباد یاسین
کسی بھی ملک کی ثقافت کو اگر دیکھا جائے تو وہاں کی بولی جانے والی زبانوں یا زبان کی بہت بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ کسی بھی زبان کو اپنی اصلی حالت میں رکھنا آج کی اس دور میں ناممکن نہیں ہے تو تو کم از کم مشکل ضرور ہے اور اگر وہ زبان بھی کھوار جیسی مشکل ترین اور قدیم زبان ہو، جس کے اپنے حروف تہجی بھی نہ ہوں تو یہ امر اور بھی مشکل ہو جاتاہے کہ اس کو محفوظ کیسے رکھا جائے چونکہ آج کل میڈیا کی یلغار ہے کوئی بھی زبان اس سے محفوظ نہیں، اردو، انگریزی، اور دوسری جدید زبانوں کی آمیز ش ہو رہی ہے۔اس لئے یہ امر اور بھی مشکل ہو جاتا ہے کہ کسی ایک زبان کو اس کی اصلی حالت میں رکھا جاسکے۔ اور اس پر طرہ یہ کہ ہمارے نوجوان نسل صرف اپنے آپ کو تعلیم یافتہ دیکھانے کے لئے بھی اپنی مادری زبان میں انگریزی اور اردو کی آمیزش کو شامل کر کے اپنی زبان کی ہییت کو تبدیل کرنے میں بڑا فخر محسوس کر تے ہیں ۔ میں نے بہت سے ایسے لوگوں کو دیکھا ہے جو اپنے گھر میں بھی اپنے بچوں کے ساتھ اردو اور انگریزی میں بات کرنا فخر سمجھتے ہیں حالانکہ یہ زبان تو بچے سکول میں پڑھتے ہیںِ معاشرے میں رہتے ہوے، دوسری ساری زبانیں سیکھ سکتے ہیں، چاہے یہ اردو، انگریزی، پشتو، پنجابی، ترکی کوئی بھی زبان ہو اس ماحول میں رہ کر وہ سیکھ سکتے ہیں لیکن اگر مادری زبان اگر گھر میں بھی کسی بچے کے ساتھ نہیں بولا جاتا تو وہ کہاں جا کر سیکھ سکے گا ۔
کسی ملک یا علاقے کی زبان یا ثقافت کو محفوظ کر نے کے میرے نزدیک چار طریقے ہیں پہلی بات یہ ہے کہ اس کو اپنے گھر میں ، گاوں کی سطح پر اور علاقے کی سطح پر محفوظ کیا جائے یعنی اس زبان کے لوگ آپس میں اپنی اصلی زبان میں اصل الفاظ کے ساتھ اسعمال کریں۔ دوسری بات اس کو تحریری شکل دے کر اس کی اصل کو محفوظ کیا جائے اور ایک کتابی شکل دی جائے تاکہ دوسرے قارئین بھی اس سے استفادہ کریں، تیسری صورت یہ ہے کہ ریڈیو یا ٹیلی ویژن جیسے میڈیا سے نشر کی جائے اور اس میں اہل زبان سے استفادہ کیا جائے اور اور جو اس زبان کے ماہر ہوں ان کو بار بار موقع دیا جائے، ا ن سے انٹر ویوز کئے جائیں اور مختلف امور پر اور مختلف مواقعوں پر ان سے تقاریر کرایا جائے، اور اگر ممکن ہو تو اس زبان میں کوئی اخبار یا رسالہ ہفتہ وار یا ماہوار شائع کیا جائے اور چوتھا اور شاید کمزور ترین طریقہ ہو وہ ہے ویڈیو یا آڈیو کیسٹ یا سی ڈیز کے ذریعے محفوظ کیا جائے۔
گلگت بلتستان کی دوسری بڑی زبانیں شینا اور بلتی عرصہ تقریباََ نصف صدی سے راولپنڈی اور اسلا م آباد سے نشر کی جارہی تھیں، لیکن ان زبانوں سے تعلق اور دلچسپی رکھنے والوں کی کاوشوں اور جستجو سے پچھلے سینتیس یا اٹھتیس سالوں پر محیط عرصے سے یہ زبانیں گلگت اور سکردو سے بھی نشر ہو رہی ہیں۔ اور اس سلسلے کی ۲۹ ویں سالگرہ کے موقع پر ریڈیو پاکستان گلگت کو یہ عزاز بھی ملا کہ اس نے بروشاسکی اور وخی کے بعد کھوار پروگرام کی نشریات بھی شروع کیاتھا ۔ میں نے اس وقت بھی اپنی جانب سے ، گوپس یاسین ، اشکومن کے لوگوں کی جانب سے با لخصوص اور اہالیان ضلع غذر کی جانب سے با لعموم شکریہ ادا کیا تھا لیکن ایک بار پھر اُس وقت کے وزیر اطاعات و نشریات کا، پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کے اُس وقت کے ڈائریکٹر جنرل جاوید اختر، اور ریڈیو پاکستان گلگت کے اُس وقت کے سٹیشن ڈائریکٹر عالم خان صاحب ، شیر محمد صاحب، ڈاکٹر شیرد ل خان صاحب اور تمام کارکنان ریڈیو پاکستان گلگت کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ ان کی انتھک محنت اور کاوشوں سے کھوار بولنے والے لاکھوں لوگوں کی دیرینہ خواہش پوری ہوئی اور یہ زبان آخر کار یکم اپریل 2008 ء ، بروز منگل سہ پہر پانج بجکر دس منٹ پر اللہ تبار ک و تعالیٰ کے بابرکت نام کے ساتھ نشر ہو نا شروع ہوئی اور پانچ بج کر پچیس منٹ پر کھوار زبان کے سامعین نے جاوید احمد ساجد کی زبانی اپنی زبان میں پہلی بار خبریں بھی سنیں ، میں نیک عالم صاحب کو بھی مبارکباد پیشں کرتا ہوں کہ وہ کھوار زبان کے ریڈیو پاکستان گلگت کا پہلا اناونسر ہیں جس نے رب کریم کے نام سے اس پروگرام کا آغاز کرنے کا شرف حاصل کیا تھا۔
قارئین کرام ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ کھوار زبان کسی ایک علاقے کی وراثت یا ملکیت نہیں اور نہ ہی ہونی چاہئے۔ ، اگر ایسا ہو تا تو آج صرف چترال کے کھوو ہی اس زبان کے حقدار ہوتے یہ لفظ بھی کھووار ہے اور زبان کا آغاز بھی کھوو ہی سے ہوا، میں اس کی تاریخ کی طرف نہیں جاونگا ، چونکہ مجھے یاد ہے کہ شمس الحق نوازش نے اس پر ایک سیر حاصل اگر نہیں تو ایک جامع تقریر شروع ہی میں ریڈیو پاکستان گلگت سے سامعین کی نذرکیاتھا۔ اور بہت احسن طریقے سے اس پر روشنی ڈالا تھا ۔ میں شمس الحق نوازش کا بھی تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انھوں نے کئی مرتبہ مختلف موضو عات پر لب کشائی کر کے کھوار سننے والوں کی نہ صرف معلومات میں اضافہ کیا بلکہ ریڈیو پاکستان سے کھوار میں تقریر کرنے والے پہلے مقرر بھی کہلا ئے، جو کہ آنے والے زمانے میں تاریخ کا حصہ ہوگا، شمس الحق نوازش کو ریڈیو پاکستان گلگت کے پہلے کھوار مقرر ہونے پر بھی مبارک بادی پیش کر تا ہوں۔اور امید کرتاہوں کہ وہ اس سفر کو جاری رکھ کر کھوار کے سامعین کو محظوظ کر تے رہیں گے ۔ اسی طرح سید وفا جان وفا، عرفان جان عرفی، شکور من کلیم، حاجی مراد گشپور، اور وہ تمام فن کار، گلوکار، اناونسر، خبر نگار، اور تمام عملے کو بھی مبارک باد پیش کرتا ہوں جو کہ اپنی ہمہ جہت کاوشوں سے کھوار کی خدمت کرتے رہتے ہیں، اسی طرح ایک بار پھر میں ان تمام پڑھے لکھے کھوار زبان بولنے والوں سے بھی گذارش کرونگا کہ آئیں ہم سب مل کر اپنا اپنا حصہ اس پروگرام میں شامل کر کے اس کو مزید کامیاب بنانے میں مدد کریں ، تاکہ دنیا کو بھی معلوم ہو کہ کھوار بولنے والے یہ شاہینوں کے ہمسائے نہ صرف اپنے اصلاف کی طرح تہذیب و تمدن اور شجاعت و مردانگی کے پیکر ہیں بلکہ علم و فن کے بھی دلدادہ ہیں، یہ فنکار بھی ہیں اور سامعین بھی، یہ شاعر بھی ہیں اور گلوکار بھی ، یہ لکھاری بھی ہیں اور پڑھنے والے بھی، اور جوش ایمانی سے سر شار بھی، ، کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اب اس زبان کی ریڈیائی سفر شروع ہو ے ، دہائیاں گذر گیءں لیکن ابھی بھی امتحان باقی ہے۔ چونکہ اس کی استحکام اور وجود کو برقرار رکھنے کے لئے مواد کی ضرورت ہے مزید فنکاروں کی ضرورت ہے، نعت خوانوں، حمد خوانوں ، نعت اور حمد لکھنے والوں ، مقرروں، کی مزید ضرورت ہے ، یہ سب تب ممکن ہو گا کہ ہم سب ایکدوسرے سے مربوط رہیں۔ بے شک تعمیری تنقید کرنا ہر قاری اور سامع کا حق ہے، اس سے اصلاح ہو گی لیکن تنقید برائے تنقید صرف وقت کا ضیاع ہوگا۔ البتہ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ گلگت بلتستان میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان شینا جو کہ بتھریت سے کوہستان تک کم و بیش ہر علاقے میں بولی جاتی ہے۔ اور ہر کوئی ریڈیو پاکستان گلگت میں شرکت کر سکتاہے، اسی طرح کھوار بولنے والے بھی اپنے اپنے انداز میں اور اپنے لب و لہجے میں بات کر ے گا ، میں آخر میں ایک بار پھر کھوار کے سامعین سے گذارش کرونگا کہ آئیں اس شیرین زبان کی شیرینی کو برقرار رکھنے کے لئے مل کر کام کریں بلکہ اس کی شیرین پیغام کو زبان زد و عام کریں۔ آپ لوگ اس پرو گرام کے لئے لکھیں جو اچھا لکھاری ہے ، ڈرامے لکھیں، تقریریں لکھیں اور تقریر نشر کروائیں ، نعت وحمد لکھیں اگر اللہ نے اچھی اواز دیا ہے تو اپنی آواز کا جادو جگائیں اگر ستاری ہیں تو اپنے ستار کا جادو جگائیں اور کھوار کی خوبصورت دھنوں اور سازوں سے لوگوں کو محظوظ کریں اور سب ریڈیو پاکستان کے ساتھ اس زبان کی ترقی کے لئے تعاون کریں
Like this:
Like Loading...
Related
آپ کی رائے
comments
Back to top button