کالمز
پاکستان اور خوراک کا عالمی دن
تحریر: سید انور محمود
ہر سال16اکتوبر کو اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ‘خوراک کے عالمی دن’ کے طور پرمنایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا بنیادی مقصد عالمی سطح پر خوراک کی پیداوار میں اضافہ کرنا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی خوراک کے مسئلے سے متعلق عوام میں بھوک، ناقص غذا اور غربت کے خلاف جدوجہد میں اتحاد کو مستحکم کرنا ہے اور عام لوگوں میں خوراک کی کمی کے متعلق آگاہی پیدا کرنا ہے۔ اس دن کی مناسبت سے دنیا بھر میں مختلف تقریبات و سیمینار کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے۔وکی پیڈیا کے مطابق اگست 2016 تک دنیا کی آبادی سات ارب چالیس کروڑ (7.4 بلین) ہوچکی ہے۔ اقوام متحدہ کے نئے اندازوں کے مطابق 2050 تک دنیا کی آبادی بڑھ کرنو ارب سترکروڑ (9.7 بلین) تک پہنچ جائے گی۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ آبادی کے عالمی گروتھ ریٹ میں کمی ہوئی ہے جو دس سال قبل 1.24 فیصدتھی جبکہ اب 1.18 فیصد ہے۔اس وقت پاکستان کی آبادی 20 کروڑ کے قریب ہے جبکہ 2030 تک آبادی 24 کروڑ 40 لاکھ ہونے کا امکان ہے۔ اقوام متحدہ کے نئے اندازوں کے مطابق 2050 تک پاکستان ان ممالک میں شامل ہوگا جن کی آبادی 30 کروڑ سے زائد ہوگی۔
ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں اس وقت تقریبا 98 لاکھ 12 ہزار افرادکو غذاکی کمی کا سامناہے۔گلوبل ہنگرانڈیکس نے غذائیت کی کمی کو پانچ حصوں میں بانٹا ہے جو مندرجہ ذیل ہیں:۔
1۔ اگرکسی ملک کے غذائیت کی کمی 9.9 فیصد تک ہے تو اس ملک کی صورتحال ‘بہتر’ ہے،
2۔ غذائیت کی کمی10 سے 19.9فیصدتک ہے تو اس صورتحال کو ‘مناسب’ کہا جایگا،
3۔ غذائیت کی کمی20 سے 34.9فیصدتک ہے تو اس صورتحال کو ‘تشویش ناک’ کہا جایگا،
4۔ غذائیت کی کمی35 سے 49.9فیصدتک ہے تو یہ صورتحال ‘خطرناک’ کہلائے گی،
5۔ غذائیت کی کمی50فیصدیا اس سے زیادہ تو اس صورتحال کو ‘خطرناتک ترین’ کہا جایگا۔
پانچ فیصد سے کم میں 16 ممالک شامل ہیں، 5 فیصد سے 9.9 فیصدتک میں29 ممالک شامل ہیں، 10 فیصد سے 19.9 فیصد تک میں 23 ممالک شامل ہیں، 20 فیصد سے 34.9 فیصد تک میں 43 ممالک شامل ہیں، 35 فیصد سے 49.9 فیصد تک میں 7 ممالک شامل ہیں، جبکہ 50 فیصد یا اس سے زیادہ میں کوئی ملک شامل نہیں ہے۔
گلوبل ہنگر انڈیکس کے مطابق پاکستان میں 22 فیصدآبادی غذائیت کی کمی کا شکار ہے جس کا مطلب ہے کہ پاکستان جس کی آبادی تقریبا بیس کروڑ ہےاور اس میں سے چار کروڑ چالیس لاکھ (40.4 ملین) افراد کو غذا کی کمی کا سامنا ہے،تاہم یہ صورتحال ماضی کے مقابلے میں بہتر ہے، رپورٹ میں118 ممالک کی فہرست جاری کی گئی ہے جس میں پاکستان کا نمبر 107 بتایا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ غذائیت کی کمی کے حوالے سے پاکستان کے لیے صورتحال اب بھی انتہائی تشویش ناک ہے۔ گلوبل ہنگر انڈیکس کے مطابق غذائیت کی کمی کے حوالے سے پاکستان کا اسکور 33.4 ہے جو 2008 میں 35.1 کے قریب تھا۔ تاہم پاکستان کو اب بھی اپنے پڑوسی ممالک کے مقابل اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے کافی موثر اقدامات کی ضرورت ہے کیونکہ بھارت اور بنگلہ دیش کا اسکور بالترتیب 28.5 اور 27.1 ہے جبکہ افغانستان کی صورتحال پاکستان سے بھی بدتر ہے اور اس کا اسکور 34.8 ہے۔دنیا بھر کی قیادت اس بات پر متفق ہے کہ 2030 تک غذائیت کی کمی کو لازمی ختم کرنا ہے، لہذا پاکستان سمیت 43 ممالک اگر‘مناسب’ کیٹگری میں شامل ہونا چاہتے ہیں اور 2030 تک اپنا ہدف پورا کرنا چاہتے ہیں تو انہیں غذائیت کی کمی ختم کرنے کے لیے اپنی رفتار کو بڑھانا پڑے گا۔
عالمی یوم خوراک ایک اہم دن ہے جس پر ہمارے حکمران زیادہ توجہ نہیں دیتے ہیں۔ بہت سی ریسرچ نے ثابت کیا ہے کہ پاکستان میں خاص طور پر صوبہ سندھ میں بچوں کی غذائی ضروریات بین الاقوامی معیار کے مطابق پوری نہیں ہورہیں ہیں۔ جس کی ایک مثال تھر کا علاقہ ہے جہاں خوراک کی کمی کے باعث رواں سال میں اب تک ہونے والی اموات کی تعداد 700 سے زیادہ ہے۔ ہزاروں حاملہ خواتین بدستور غذائی قلت کا شکا ر،حکومت پاکستان نے حاملہ خواتین کی غذائیت پر کام ہی نہیں کیا ۔ غذائی قلت کے باعث تاحال ہزاروں حاملہ خواتین غذائی قلت کا شکار ہیں ۔اسپتالوں میں بچوں میں سے بڑی تعداد ایسے بچوں کی ہے جن کا پیدائشی وزن ایک کلو تک ہوتا ہے ۔ان بچوں کے وزن کو بڑھانے کے دوران وہ بچ نہیں پاتے ہیں اور ہلاک ہو جاتے ہیں ۔طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ بچوں کو اموات سے بچانے کے لیئے ان کی ماؤں کو دوران حمل اچھی غذا دی جائے ۔تا کہ زچگی کے دوران کم وزن کے بچے پیدا نہ ہوں ۔جن بچوں کا پیدائشی وزن کم ہوتا ہے انہیں بچانا مشکل ہوتا ہے۔گذشتہ چار سالوں سے ہزاروں بچوں کی اموات کے باوجود حکومت سندھ نے حاملہ خواتین کی غذائیت کے لیئے صرف عارضی بنیادوں پر پروگرام چلایا تھا جو بند ہو چکا ہے۔
خوراک کی کمی کی ایک بڑی وجہ آبادی میں تیزی سے اضافہ ہے اوریہ بات بجا طور پر درست ہے کہ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں آبادی میں بے انتہا اور تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ اس سنگین مسئلے نے ہماری اقتصادی ترقی کے ثمرات کو بے حد کم کردیا ہے۔ پاکستان میں زراعت کے نظام میں کسانوں کو ان کے حقوق نہیں ملتے جو غذائی عدم تحفظ بڑھنے کی ایک اہم وجہ ہے۔ ہمارے ہاں کسانوں کا ہر طرح سے استحصال کیا جاتا ہے، چاہے ان کا حصہ دینے کی بات ہو یا ان سے جبری مشقت لینے کی ۔ لاہور میں آئے دن کسان مظاہرئے کررہے ہوتے ہیں۔ کسانوں کو ان کے حقوق ملنے چاہئیں، جب تک حکومت کسانوں کے مسائل حل نہیں کرئے گی تب تک ان میں کام کرنے کی تحریک پیدا نہیں ہوگی۔پاکستان کا کسان انتہائی محنتی، جفاکش اور حوصلہ مند ہے، ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ ہم اپنی آنے والی فصلوں خاص طور پر گندم کی بھرپور پیداوار حاصل کریں۔ اس طرح ہم نہ صرف اپنی غذائی ضروریات پوری کرسکیں گے بلکہ عالمی منڈی میں قیمتوں کے عدم توازن کے اثرات کو بھی کم کرسکیں گے ۔ پاکستان کی حکومت کو چاہیے کہ وہ سائنسی بنیادوں پر دوسرے ممالک کے کامیاب تجربوں سے استفادہ کرے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے خصوصی مشیرڈیوڈ نیبرو کا کہنا ہے کہ آج دنیا میں بہت زیادہ لوگ بھوک کا شکار ہیں، ان کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا اور اس بات کی ضمانت حاصل کرنی ہوگی کہ ان میں سےکوئی بھی دوبارہ بھوک کا شکار نہ ہو۔ خوراک کا بحران صرف ان ممالک کو متاثر نہیں کرتا جہاں لوگ بھوک کا شکار ہیں بلکہ یہ ایک عالمی چیلنج ہے۔ پاکستان میں خوراک میں کمی کی ایک بڑی وجہ غربت کی شرح میں دن بدن اضافہ بھی ہے، مہنگائی کے باعث غریب افراد اپنی آمدنی کا 70فیصد خوراک پر خرچ کرنے پر مجبور ہیں۔پاکستانی عوام ایک ایسے استحصالی اور شرمناک نظام میں زندہ رہنے پر مجبور ہیں، جہاں اُنہیں آئی ایم ایف، ملٹی نیشنل کمپنیوں اور ملک کے وسائل پر مسلط چند فیصد مافیا نے زندہ درگور کر رکھا ہے۔ نہ علاج کرانے کےلیے پیسے ہیں اور نہ پیٹ بھرنے کا کوئی مستقل سہارا۔عالمی بینک کی رپورٹ ”ورلڈ ڈویلپمنٹ انڈیکیٹر“ کے مطابق پاکستان کے 60 فیصد افراد کی آمدن یومیہ دو ڈالر یا دو سو روپے سے بھی کم ہے، جبکہ اکیس فیصد آبادی انتہائی غربت کا شکار ہے۔ انسانی حقوق کمیشن پاکستان نے بھی ملک میں خوراک کی قلت اور اس کے عام لوگوں پر پڑنے والے اثرات پر متعدد بار تشویش کا اظہار کیا ہے۔ یہ بات یاد رہے کہ پاکستانی عوام کو خوراک تک رسائی کا حق آئین نے دیا ہے اور ریاست یہ بنیادی حق عوام کو فراہم کرنے کی پابند ہے۔محترم شاعر جبار واصف کہتے ہیں:۔
خواب کا ہے شکم سے کیا رشتہ
آنکھ کھلتے ہی بھوک لگتی ہے