کالمز
نوجوانوں کی تربیت ۔۔۔۔ ذمہ دار کون؟
اقوام کی تربیت نوجوان نسل کی تربیت پر منحصرہوتی ہے۔ ترقی و تنزلی کی سینکڑوں داستانیں شاہد ہیں کہ بحیثیت مسلم و پاکستانی قوم ہماری حالت قابل رشک نہیں۔ہمارا تعلیمی معیار، اداروں کی حالت ، نظام تعلیم و تربیت قابلِ رحم حالت میں ہے۔
مسلسل نا کامی کسی بھی انسان کے اندر منفی ارادوں کو اجاگر کرنے کی وجہ بن سکتی ہے۔ نوکری کے حصول میں ناکامی ، معاشی ناہمواریاں ، فرقہ وارانہ منافرت، بد عنوانیاں اور نا انصافیاں ایسے اسباب ہیں جو کسی بھی ملک کو تباہی کے دھانے کی طرف لے جاتے ہیں۔
یہ مسائل جب کسی بھی نوجوان کی ترقی کی راہ میں حائل ہوتے ہیں تو اس کے جذبات بپھر جاتے ہیں، وہ نفسیاتی عوارض کا شکار ہوجاتے ہیں اور ایسا منفی فکر و انداز بنا لیتے ہیں جو نہ صرف دوسروں کیلئے بلکہ اس کیلئے اپنے لئے بھی ضرر رساں ثابت ہوتے ہیں۔
ترقی کا واحد راستہ تعلیم اور جستجو میں ہے، ضروری ہے کہ ہمارے ملک کے نوجوان بھی تعلیم و تحقیق کے میدان میں ترقی یافتہ ممالک کے شانہ بشانہ چلنے کی راہ نکالیں۔ آج کے نوجوانوں میں ایسی بیداری کی لہر جگانے کی ضرورت ہے کہ وہ قت و حالات کے اگے سینہ سپر ہوں ، کیونکہ اب جنگیں میدانوں میں نہیں لڑی جاتیں، بلکہ ایسے ملک دوسروے ملک کو معاشی شکست سے دوچار کرنے کیلئے پر تول رہاہوتا ہے۔ اس حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے ہمارے نوجوانوں کے اپنے مستقبل کی ایسی منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے،کہ پاکستان کے مالیاتی ، معاشی اور اقتصادی شعبے اتنے مظبوط بنائیں کہ وہ کسی بھی سپر پاور کا محتاج نہ رہے۔ وہ نوجوان جس نے ملت کی تقدیر بدلنا تھی اس کے ہاتھوں میں ہتھیار دے دئیے جو اپنے ہی ملک و مفاد پر ضرب لگا رہا ہے۔
سائنس کی وہ ترقی جس کی بنیاد جابر بن حیان ، ابو یعقوب الکندی، اور ابن الہیشم جیسے مسلم سائنسدانوں نے رکھی تھی، امت مسلمہ کی پہنچ سے دور ہماری حالت زار پر ماتم کر رہی ہے اور منتظر ہے کہ اس قوم کا کوئی فرد ، گروہ ی طلباء پھر سے اسے ترقی بخشیں اور اپنی قوت و صلاحیت سے سائنسی میدانوں میں آگے بڑھ جانے پر صرف کریں۔ سائنس و ٹیکنالوجی ، تعلیم اور صنعتی ترقی کسی بھی ملک کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی سی اہمیت رکھتے ہیں ۔
ایسے میں ترقی کی منازل طے کرنے کیلئے ہمارے نوجوانوں کو سینہ ٹھوک کے میدان میں اترنا ہوگا۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی نے کامرانی کی نئی راہوں کی نشاندہی کی تو ہماری ابتری اور گہری ہوگئی۔
آج کے نوجوانوں میں بیداری اور شعور پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ نئے دور کا نوجوان ہی امید کی وہ جلتی شمع ہے، جو بدعنوانیوں اور لاقانونیت کے گھور اندھیروں میں روشنی پھیلانے کا موجب بن سکتا ہے کیونکہ اگر اس کی صلاحیتوں کو صحیح سمت مل جائے تو وہ نہ صرف خود اعلیٰ مقام تک پہنچ سکتا ہے، بلکہ اس کا ملک بھی دنیا میں نمایاں مقام پر کھڑا نظر آ سکتا ہے۔
قلم ایں جارسید و سر
بشکست۔۔۔