سرتاج خان کی تجزیاتی رپورٹ
چلاس دیامر کا صدر مقام ہونے کے علاوہ دیامر ڈویژن ہیڈ کوارٹر بھی شمار ہوتا ہے۔ ضلع دیامر 1973میں انتظامی بہتری کے لئے بنایا گیا ۔اس شہر کےگرد نواح کے قریبی ایریا کو بجلی مہیا کر نے کےلیے فیز ون بٹوگاہ تھک فور میگاواٹ تھور پانی کے پاور ہاوٴسز کے علاوہ ڈیزل جنریٹرز اور ڈیزل کے لئے سالانہ کثیر فنڈز صوبائی حکومت مہیا کرتی ہے۔
لیکن گرمیوں پانی زیادہ اور گدلا، جبکہ سردیوں میں پانی کی کمی کی وجہ سے اس شہر کے مقدر میں بجلی کی مسلسل کئی گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ معمول بن چکی ہے۔ محکمہ برقیات کے پاس ہزار بہانے ہیں۔ اسی طرح پانی کی غیر منصفانہ تقسیم ہورہی ہے، اور کوئی کنٹرول محکمہ واٹر سپلائی کے پاس نہیں۔ کنکشن میں قانونی اور غیرقانونی کی تمیز نہیں۔ دیامر بھاشہ ڈیم کے نکمے شہریوں کے لئے مخصوص بجلی اور پانی استعمال کرتے ہیں۔ واپڈا دیامر گزشتہ تقریباً دس سالوں میں اپنے لیے پانی اور بجلی کا بندوبست نہیں کرسکا ہے۔ متاثرین ڈیم ان کی چشم پوشی کے باعث گوناگوں مشکلات کا شکار ہیں۔
دوسری طرف نوکریوں کے اشتہارات لاہور کے غیر معروف اخبارات میں شالع کر کے ملی بھگت سے من پسند افراد میں بندر بانٹ معمول بنا ہوا ہے۔
چلاس اور دیامر ادھورے ترقیاتی منصوبوں کا قبرستان بن چکا ہے۔ سٹرکوں کی خستہ حالی آثار قدیمہ کا نقشہ پیش کر رہی ہے۔ باب چلاس سے لیکر شہر چلاس تک کی سڑکیں شہریوں اور گاڑیوں کے لیے مصیبت بنے ہوے ہیں۔
وزیراعلیٰ صاحب سے عوام نے ان مسائل کا نوٹس لینے کی اپیل کی ہے۔