کالمز

پولیس فورس سے تعاون ،ترقی کا ضامن

مجیب الرحمن

جب بھی جہاں بھی کوئی جرم ہو یا کسی کے ساتھ کوئی زیادتی ہو تو فوراً انصاف کے لئے پولیس ہی کا خیال ضرور آتا ہے۔ظالم جتنا بھی طاقتور ہی کیوں نہ ہو پولیس کے سامنے بے بس ہے،اور مجبوراً قانون کے آگے گھٹنے ٹیک دیتا ہے۔یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ قانون کی بالادستی ہی پولیس سے قائم ہے۔قانون کی بالادستی پولیس کے دم سے ہی قائم کیوں نہ ہو کیوں کہ ریاست کا قانون ہی پولیس کو یہ اختیارات سونپتا ہے اسکے علاوہ پولیس کے جوان و آفیسران ہر رشتے ناطے کو بالائے طاق رکھتے ہوئے فرائض منصبی کی بجا آوری کے لئے اپنی جانوں تک کا نذرانہ بھی پیش کر چکے ہیں۔

صدیوں بعد رواں سال پہلی بار پولیس کے بہادر جانثاروں کی یاد میں یوم شہداء پولیس منایا گیا۔تمام اضلاع میں مختلف تقریبات کا اہتمام کیا گیا اور شہداء کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا گیا اور انکے روح کے ایصال ثواب کے لئے فاتحہ خوانی اور دعائیں کی گئیں۔اس دن کو منانے کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہوا کہ پولیس کے شہداء کی قربانیاں یاد رہیں گی اور انکے لواحقین سے دلجوئی او ر باقی فورس کے جوانوں کے حوصلے بلند اور ان میں قربانی کا جذبہ مزید بڑھے گا۔اور وہ اپنی خدمات مزید بہتر انداز میں سر انجام دینگے۔

پولیس فورس کے چند جوانوں میں کمزوریاں اور خامیاں ضرور ہونگی مگر ان کمزوریوں اور خامیوں کو لیکر پوری فورس کی حوصلہ شکنی کرنا یا فورس کو مورد الزام ٹھہرانا ہر گز درست نہیں ہوگا۔چونکہ گلگت بلتستان کے بعض اضلاع میں اب بھی قبائلی رسم و رواج موجود ہیں۔جن کی وجہ سے کسی بھی ادارے کو کھل کر اپنی ذمہ داریاں سر انجام دینا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔اگر کسی ملزم یا مجرم کو گرفتار کرنے کے لئے کوئی پولیس آفیسر یا پولیس جوان کوئی اقدام اٹھاتا ہے تو وہ ذاتیات پر لیتے ہیں اور اس پولیس آفیسر یا جوان کے ساتھ دشمنی پر اتر آتے ہیں۔مثال کے طور پر گزشتہ دنوں ایک تھانے میں غیر قانونی اقدام کے سلسلے میں ایک ملزم کو لایا گیا۔بعد ازاں قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعدرہا بھی کر دیا گیامگر رہائی کے بعد ہی اس تھانے میں موجود پولیس جوان کو فون پر دھمکیاں دینے لگا۔اور مختلف مقامات پر اس پولیس اہلکار کا پیچھا بھی کیا۔ایک دن بھرے بازار میں ہی اس پولیس اہلکار پر حملہ آور ہوا۔مگر خوش قسمتی سے وہاں پر دیگر پولیس اہلکار بھی موجود تھے جنہوں نے حملہ آور کو گرفتار کر لیا۔یہی نہیں آئے روز پولیس اہلکارو ں پر یہی حملے کہیں بھی کسی بھی شکل میں ہو رہے ہیں۔

میں یہ بات وثوق سے کہتا ہوں کہ گلگت بلتستان کی پولیس کسی بھی صورت ڈرنے والی نہیں ہے۔نہ ہی کسی قسم کی قربانی سے دریغ کرتی ہے۔گلگت بلتستان کی پولیس کی قدر پوچھنی ہو تو گلگت بلتستان آنے والے سیاحوں سے پوچھ لیں۔ جو گلگت بلتستان کی پولیس اور دیگر صوبوں کی پولیس کے مابین موازنہ کرینگے۔گلگت بلتستان آنے والے ہر سیاح نے جی بی پولیس کے ہر جوان اور آفیسر کے روئے اور خدمات کی تعریف کی ہے۔دوسرے صوبوں کے کسی بھی فرد سے وہاں کی پولیس کے بارے بھی پوچھ سکتے ہیں وہ تمام حقائق اور ان شہروں کی پولیس کے رویئے سے متعلق آپکو آگاہ کرینگے۔کھلے عام رشوت تھانوں میں ایف آئی آر کا اندراج نہ کرنا اور مجرموں کی پشت پناہی کرنا عوام کو بیجا تنگ کرانا بیگناہوں کو پابند سلاسل کرنا اور انصاف کے حصول میں رکاوٹ وغیرہ کی وجہ سے وہاں کی عوام پولیس نام سے نفرت کرتی ہے اور مجبوراً کئی لوگوں نے خود سوزی بھی کی ہے۔جس کی رپورٹس روزانہ میڈیا کے ذریعے معلوم ہوتی ہیں۔اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ گلگت بلتستان کی پولیس ان تمام لعنتوں سے دور ہے۔ایسے میں پولیس کے ساتھ تعاون نہ کرنا اور انکو تنگ کرانا کسی طور ٹھیک نہیں ہے۔

پولیس اہلکار اگر ڈیوٹی کر رہا ہے تو وہ اپنی ذات کے لئے نہیں بلکہ عوام کی جان و مال کے تحفظ اور قانون کی بالادستی کے لئے کر رہا ہے۔ان سے دشمنی مول لینا یا ذاتیات پر اترنا مہذب قوموں کا شیوہ نہیں ہے۔ دن ہو یا رات ہر وقت اپنی تمام خوشیاں اور غم کو بھلا کر ڈیوٹی سر انجام دینے والوں کے ساتھ بہتر رویے اور عزت سے پیش آئیں تو انہیں بھی خوشی اور مسرت ہوگی جو ہماری حفاظت پر مامور ہیں۔اور وہ مزید جانفشانی اور لگن سے اپنی خدمات سر انجام دینگے۔تاکہ جرائم کا خاتمہ ممکن ہو اور امن و امان کی فضاء مزید قائم و دائم رہ سکے۔اور پورا ملک ترقی کی راہوں پر گامزن ہوگا۔

گزشتہ دنوں گلگت بلتستان کے مایہ ناز لکھاری صحافی ایمان شاہ صاحب کا ایک کالم نظر سے گزرا ۔جس میں انہوں نے گلگت بلتستان پولیس کے ایک بہادر حوالدار کریم داد کے کارناموں کا ذکر کیا تھا۔انکے کارناموں کی طویل فہرست تاریخوں سمیت درج کی تھی۔اور آخر میں اس کی ایک معصوم سی خواہش ون سٹیپ پروموشن کا بھی اظہار کیا۔یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ حوالدار کریم داد اور ان جیسے ہزاروں بہادر جوان بہادری کے سینکڑوں کارنامے سر انجام دے چکے ہیں۔اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھ کر ملزموں کو رنگے ہاتھوں گرفتار کر لیا ہے اور قانون کی بالادستی کو قائم رکھا ہوا ہے۔مگر افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ بہادری کے انمول کارنامے سر انجام دینے کے بعد بھی انکی محکمانہ حوصلہ افزائی نہیں ہوتی ہے۔میرے پاس حوالدار کریم کے کارناموں کی طویل لسٹ موجود ہے میں یہاں وہ سب گن لوں تو بحث طویل ہوگی۔چونکہ ایمان شاہ صاحب نے ان کارناموں کو تفصیل کے ساتھ اپنے کالم میں ذکر بھی کیا ہے۔البتہ ایک پولیس اہلکار کے لئے ان کے کارناموں کا صلہ ملنے میں کتنی دشواری ہوتی ہے اسکا اندازہ ہو سکے۔مورخہ بیس جنوری 2012کو بہتر کارکردگی کے سلسلے میں محکمانہ حوصلہ افزائی کے لئے کی گئی استدعاء میں ہوم سیکرٹری نے صدر پاکستان،وزیر اعظم پاکستان،وزیر اعلیٰ اور آئی جی پولیس کو مارک کیااور محکمانہ حوصلہ افزائی کی استدعا کی۔سات مئی 2012 کو سی ایم سیکرٹریٹ نے چیف سیکرٹری اور ہوم سیکرٹری,بائیس دسمبر 2013کو استدعا پر AG GBنے آئی جی پولیس کو مارک کیا۔ 25نومبر2014کو سی ایم سیکرٹریٹ نے ایکبار پھر چیف سیکرٹری اور آئی جی پی کو،پھر وقفے وقفے سے سی ایم سیکرٹریٹ ہوم سیکر ٹری اور دیگر کی جانب سے مارک کا سلسلہ جاری و ساری رہا۔یوں کبھی کبھار آئی جی کی جانب سے پی ایس او ،اے آئی جی سی آئی ڈی ڈی آئی جی ہیڈ کوارٹر کو ڈسکس وغیرہ کے احکامات ملتے رہے۔بالآخرایوان صدر سے بھی حوالدارکریم داد کی استدعا پرقانون کے مطابق نظر ثانی کا حکم بھی موصول ہوا۔نہ صرف یہ متعدد سیاسی شخصیات وزراء مشران اور وزیر امور کشمیر گلگت بلتستان سمیت تمام اعلیٰ حکام کی جانب سے محکمانہ حوصلہ افزائی کی سفارش کی گئی۔مگر فائل آئی جی آفس کے سرد خانے کی نذر ہوگئیں۔حوالدار کریم داد گزشتہ کئی سالوں سے محکمانہ حوصلہ افزائی کے لئے در در کی ٹھوکریں کھاتا پھر رہا ہے۔انکی شکایت بھی حق بجانب ہے کہ متعدد پولیس جوانوں کو ایک کارکردگی پر نقد انعام اور ون سٹیپ پروموشن سے نوازا جا رہا ہے۔ان میں کئی ڈرائیور اور کم تعلیم والے بھی شامل ہیں۔کئی بار حوالدار کریم داد دلبرداشتہ ہوکر خودکشی کی بھی دھمکیاں دے چکا ہے،مگر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔حوالدار کریم داد نے اب تک 48اہم کارنامے سر انجام دئے ہیں جن میں خطرناک اشتہاریوں کی گرفتاری ،مجرموں کو رنگے ہاتھوں اسلحہ سمیت گرفتارکرنا اور گلگت میں ناخوشگوار واقعات کے دوران سرکاری املاک کا تحفظ شامل ہیں۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ چلاس میں گزشتہ کئی سال قبل جب سابق ڈی آئی جی علی شیر چلاس میں بحیثیت ایس ایس پی اپنی ذمہ داریاں سر انجام دے رہے تھے ۔بازار میں سیاسی اور دیگر معاملات پر روز مرہ کی بنیاد پر جھگڑے ہوا کرتے تھے۔جھگڑوں کی روک تھام کے لئے کوئیک رسپانس فورس کا قیام عمل میں لاکر حوالدار کریم داد کو اس فورس کا کمانڈر مقرر کیا کسی کی کیا مجال تھی کہ بازار میں کوئی جھگڑا ہو۔فوری طور پر اپنی طویل جسامت اور طاقت کی بدولت فوری طور پر دبوچ لیتے تھے اور فوراً لاک اپ کا مہمان بنا لیتے تھے۔بعد ازاں حوالدار کریم داد کا تبادلہ گلگت سی آئی ڈی برانچ گلگت کر دیا گیا وہاں پر بھی اشتہاری مجرمان کی گرفتاری سمیت رنگے ہاتھوں جرائم پیشہ عناصر کو قانون کے تابع کر نے میں اہم کردار ادا کیا۔

انکے کارناموں کے اعتراف میں انہیں متعدد تعریفی سرٹیفیکیٹس تو دئے گئے ہیں۔مگر انکی حوصلہ افزائی کے لئے صرف سرٹیفیکیٹس ناکافی ہیں۔

انکی محکمانہ حوصلہ افزائی میں اگر کوئی قانونی رکاوٹ ہے تو انہیں صدارتی ایوارڈ کے لئے نامزد کیا جاسکتا ہے۔تاکہ وہ مزید دلجوئی سے اپنی خدمات سر انجام دے سکے۔مجھے امید ہے میری اس تحریر کو پڑھنے کے بعد آئی جی صاحب حوالدار کریم داد اور ان جیسے دیگر پولیس اہلکاروں اور آفیسران کی محکمانہ حوصلہ افزائی کے لئے اقدامات اٹھائینگے۔

گلگت بلتستان پولیس کی خدمات کا صلہ اور انکی حوصلہ افزائی کے لئے سابقہ حکومت کا کردار بھی لازوال رہا ہے۔پولیس کی تنخواہیں دوگنی کرنا پولیس فورس کے لئے ایک نعمت سے ہرگز کم نہیں ہے۔جس پر پولیس فورس کا ہر آفیسر و جوان سابقہ حکومت کے اقدام کو اچھے لفظوں سے یاد کرتا نظر آتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج اعلیٰ تعلیم یافتہ فرد بھی پولیس فورس میں ملازمت کو ترجیح دیتا ہے۔موجودہ حکومت کو بھی چاہیئے کہ وہ پولیس فورس کے درپیش مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرے۔انکی چیک پوسٹوں میں سہولیات اور پولیس کو جدید آلات اور ٹرانسپورٹ فراہم کرے تاکہ معاشرے سے جرائم کی بیخ کنی ہو۔اور امن و امان کے پائیدار قیام سمیت قانون کی بالادستی برقرار رہ سکے۔اور پولیس کا ہر جوان اپنی ذمہ داری مزید لگن اور خوش اسلوبی سے سر انجام دے۔

آخر میں پولیس سے عوامی تعاون کی ایک ادنیٰ مگر شاندار مثال کا بھی ذکر کرتا چلوں تاکہ عوام کے دل میں پولیس سے تعاون کا جذبہ پیدا ہو۔رواں سال جولائی میں بابوسر روڈ پر ڈکیتیوں کی روک تھا م کے لئے تھک کے عوام کی جانب سے اسی رکنی رضاکار وں پر مشتمل ایک فورس تشکیل دیدی گئی۔اس فورس کا مقصد بابوسر روڈ پر زیرو پوائینٹ سے بابوسر ٹاپ تک پولیس کے ساتھ سیکیورٹی میں مدد اور مسافروں کے تحفظ اور انکی خدمت شامل تھی۔اس رضاکار فورس کی نگرانی ڈی ایس پی امیراللہ نے کی۔ 80رضاکاروں نے دن رات چوالیس کلومیٹر کے ایرئے پر دن رات نگرانی کی مسافروں کی راہنمائی اور مدد کی۔جس کی وجہ سے اس روڈ پر بابوسر ٹاپ تک کوئی بھی ڈکیتی یا کسی بھی قسم کی واردات نہیں ہوئی۔سینکڑوں سیاح بابوسر ٹاپ تک فیملیز سمیت خیمے لگا کر پر امن طریقے سے رات گزارتے رہے ۔جس کی وجہ سے سیاحوں کی تعداد میں نہ صرف اضافہ ہوا بلکہ علاقے کی پورے ملک میں نیک نامی بھی ہوئی۔اور علاقے کو کثیر زر مبادلہ بھی حاصل ہوا۔

احمد ندیم قاسمی صاحب کی اس دعا کے ساتھ اجازت چاہوں گا۔

خدا کرے میری ارض پاک پر اترے

وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو

یہاں جو پھول کھلے وہ کھلا رہے برسوں

یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو

یہاں جو سبزہ اگے وہ ہمیشہ سبز رہے

اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو

گھنی گھٹائیں یہاں ایسی بارشیں برسائیں

کہ پتھروں کو بھی روئیدگی محال نہ ہو

خدا کرے نہ کبھی خم سر وقار وطن

اور اس کے حسن کو تشویش ماہ و سال نہ ہو

ہر ایک خود ہو تہذیب و فن کا اوج کمال

کوئی ملول نہ ہو کوئی خستہ حال نہ ہو

خدا کرے کہ میرے ایک بھی ہم وطن کے لئے

حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو۔۔۔۔۔۔۔آمین

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button