کالمز

2 نومبر کا معرکہ 

پاکستا ن تحریک انصاف نے وفاقی حکومت کے خلاف اپنی مہم کے اگلے مرحلے میں 2نومبر 2016کی آخری میعاد مقرر کی ہے 2نومبر کو بلوچستان ،سندھ ،کشمیر ،گلگت بلتستان،پنجاب اورخیبر پختونخواسے عوام کا ٹھا ٹھیں مارتا ہوا سمندر اسلام آباد پر یلغار کرے گا اسلام آباد کی سڑکوں کو بند کرکے ڈھرنا دیگا اور جب تک وفاقی حکومت ختم نہیں ہوگی تب تک اسلام آباد کی سڑکو ں کو بند رکھا جائے گا یہ پی ٹی آئی کی طرف سے طاقت کا بہت بڑا مظاہرہ ہوگا اور عمران خان کو اندازہ ہے کہ وفاقی حکومت بوریا بستر گول ہوجائے گا اس کے بعد کیا ہوگا ؟اس کے بعد کیا ہوگا اس کا کوئی منظم منصوبہ ان کے پاس نہیں ہے فارسی میں مقولہ ہے ’’ہر چہ با داباد ‘‘جو بھی ہونا ہے سو ہونا ہے اس وقت پاکستان میں قومی سلامتی ،سرحدی صورت حال اور دہشت گردی کے خلاف قومی حکمت عملی کو سامنے رکھ کر تین ممکنہ نتائج ہمارے سامنے آتے ہیں پہلا نتیجہ یہ ہے کہ یہ وفاقی حکومت اپنی جگہ رہے گی بلوچستان ،سندھ ،کشمیر اور گلگت بلتستان سے کوئی قافلہ نہیں آئے گا پنجاب کے عوام بڑی تعدا د میں باہر نہیں نکلینگے خیبر پختونخوا کی حکومت اسلام آباد کی سڑکوں کو زیادہ دیر تک بند نہیں رکھ سکے گی اور دو چار دنوں میں سارا معاملہ رفع دفع ہوجائے گا مسلم لیگ (ن)اور ان کے اتحادیوں کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوگا وزیر اطلاعات پر ویز رشید کلام اقبال سے یہ شعراخبار والوں کی نذر کرینگے ۔

تندی باد مخالف سے نہ گھبرا ے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے انچا اُڑانے کے لئے

دوسرا ممکنہ نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کہ سنجیدہ حلقے عمران خان کو اپنا پروگرام امریکی انتخابات کے نتائج آنے تک ملتوی کرنے کا مشورہ دینگے کیونکہ 16نومبر کے صدارتی انتخابات سے پہلے امریکہ میں ڈیمو کریٹک پارٹی کی حکومت پاکستان میں کسی غیر جمہوری اقدام کی حمایت کرنے کا خطرہ ہر گز نہیں مول لیگی یہ ڈیمو کریٹک پارٹی کی حکومت کے لئے رسک ہوگا اور انتخابات سے دو ہفتے پہلے اوبامہ انتظامیہ اس طرح کا رسک ہر گز نہیں لے گی اس لئے 2نومبر کی تاریخ کم از کم 20نومبر تک ملتوی ہو جائے گی امریکی انتخابات کے نتائج آنے کے بعد سیاسی حکمت عملی اختیار کی جائیگی اس کے بعد وفاقی حکومت کے خلاف کسی تحریک کی کامیابی کے امکانات پیداہو جائینگے انگریزی کے اصطلاح ’’رجیم چینج ‘‘یعنی اقتدار کی تبدیلی زیر غور آئیگی ؂تیسرا ممکنہ نتیجہ بعید از امکان ہے تاہم اس کا ذکر ہوتا آیا ہے اب بھی یہ نتیجہ بعض حلقوں کے نزدیک قابل غور ہے کرنل محمد خان اپنی کتاب بجنگ آمد میں ذکر کیا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران مجھے ایک انگریز کیپٹن کی جگہ بغداد میں محاذ جنگ پر بھیجنے کی خبر آئی تو میرے بیٹ مین نے کہا سر!اس حکم کو کس طرح روکا جا سکتا ہے ؟میں نے کہا ایک ہی صورت ہے اگر میں بیمار ہوا تو مجھے محاذ جنگ پر نہیں بھیجا جائے گا اس پر بیٹ مین نے کہا ٹھیک ہے میں آپ کے لئے ایسی بیماری کی دعا مانگتا ہوں جو اس حکم کی واپسی تک محدود ہو حکم واپس ہوتے ہی آپ ٹھیک ہو جائیں میں نے سوچا یہ دعا بھی رسک تھی اس لئے میں بیٹ مین کو دعا مانگنے سے منع کیا 2نومبر کے حوالے سے ایسا ہی رسک درپیش ہے پاکستان تحریک انصاف چاہیتی ہے کہ وفاقی حکومت چلی جائے پنجاب کی حکومت چلی جائے خیبر پختونخوا کی حکومت اپنی جگہ رہے اس طرح کے انتظام کا کوئی فارمولا نہیں ایسانہیں ہوسکتا کہ قومی اسمبلی تحلیل ہو جائے سندھ اور بلوچستان کی اسمبلیاں تحلیل ہو جائیں اور خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اپنی جگہ رہے اس طرح کی دعا مانگی بھی نہیں جاسکتی اور اس شرط کے ساتھ دعا کی قبولیت کے امکانات بھی بہت کم ہیں بلکہ معدوم ہیں ا س وقت پاک آرمی کی مقبولیت کا گراف 1965 کی طرح آسمان کی بلند یوں کی چھورہا ہے پاک آرمی اس قدر مقبولیت کے عالم میں اسمبلیوں کے ساتھ چھیٹر چھاڑ میں دلچسپی نہیں لے گی آرمی نے بڑی قربانیوں کے بعد عوام میں اپنی ساکھ کو بحال کیا ہے اسمبلیوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ سے پاک آرمی کی ساکھ ایک بار متاثر ہونے کا خدشہ پیدا ہوا سکتا ہے اس لئے یہ موقع اسمبلیا ں توڑنے کا نہیں ہے اسمبلیوں کے ذریعے عوامی نمائیندوں کے ذریعے حکومت چلانے کا ہے اور پاک آرمی ہمیشہ سوچ سمجھ کر فیصلے کرتی ہے 2 نومبر کی میعاد کے سامنے بہت بڑی رکاؤٹ یہ بھی ہے کہ احتجاجی تحریک کا کوئی مقبول عوامی ایجنڈا نہیں ہے پانامہ لیک ،آف شور کمپنی اور احتساب کے نعر ے عوام کو اپنی طرف متوجہ کر نے میں پہلے بھی نا کام رہے ہیں اب بھی ناکام ہونگے عوام کو پانا مہ لیک اور آف شور کمپنی کے معنی بھی نہیں آتے ان وجوہات کی بنا ء پر 2 نومبر کی میعاد ویسی ہی گذر جائے گی 2 نومبر کی میعاد کے تماشا ئی ٹیلی وژن چینیلوں پر آخر بڑی حسرت و یاس کے ساتھ کہینگے

سنا تھا حضرت غالب کے اُڑنیگے پر زے
دیکھنے ہم بھی گئے یہ تماشا نہ ہوا

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button