کالمز

روایتی نظامت تعلیم اور حالیہ تقرری

 تحریر۔اسلم چلاسی

کیا زمانہ تھا ایک ممبر صاحب کی فون کال پر استاد یعنی ماسٹر صاحب کی تقرری یوں چٹکیوں میں ہوجاتی تھی ادھر میڑک پاس کیا ڈگری ہاتھ لگتے ہی سکول ماسٹر کا تقرر نامہ مل جاتاتھا بیشتر اساتذہ ایسے بھی تھے جو آٹھوی کلاس تک بمشکل پہنچے ہو استاد کے منصب سے سرفراز ہوگئے۔ کچھ کی لک ہی لگ جاتی تھی جو کسی مدرسہ سے تھوڑا بہت عربی حروف تہجی کے بارے میں شد بدہ رکھتے ہی مدرس کہلانے لگتے تھے۔ ان کے پاس کسی بھی مسند ادارے کی کوئی سند یا ثبوت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ گاؤں دھات میں تو بیس بیس سال تک ماسٹر جی سروس کرتا تھا مگر ایک بچہ بھی پرائمری تک نہیں پہنچ پاتا تھا چونکہ استاد محترم سال کے تین سو ساٹھ دنوں میں صرف ساٹھ دن سکول کی ہوائی چکر لگاتا تھا تا کہ بچوں کو اپنے گھاس کٹائی کے بارے میں آگاہ کر سکے یا کوئی اور گھریلوے کام لینے کی حد تک ماسٹر میاں کا سکول آنا جانا رہتا تھا۔ بچے استاد کے زاتی کام کو بھی علم کے حصول کا حصہ سمجھتے تھے اس لیے بڑھ چڑھ کر ایک دوسروں سے سبقت لیے جانے کی کوشش میں ہوتے تھے پھرزمانے نے کروٹ لی جدید دور کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے نظام تعلیم میں بہتری کی کوشش کی گئی۔ نوئے کے دھائی میں جب ہم سکول جایا کرتے تھے روزانہ تین کلومیٹر پیدل چل کر ایک معروف علمی درسگاہ ماشاء الللہ جو کہ چھت سے محروم دیوارے تو تھی ہی نہیں ایک طرف سیلابی ریلوں سے متاثرتو دوسری طرف پہاڑی تودے کی بے رحمی کا نتیجہ لکڑی کے چار ،لروں ،پر زمین اور فضا کے درمیان قدرت کاملہ کی طاقت سے کھڑادنیاں کا پہلا عجوبہ یا پھر آثار قدیمہ کا ایسا اثاثہ جو ابھی تک دریافت نہیں ہوا تھا ایک حصے میں آس پڑوس کے مویشیوں نے ڈیرہ جمائے ہوئے تھے تو دوسری طرف تیز دھار پتھروں کی ڈیھر لگی تھی کل ملا کہ دس ،بائے، بارا ،کی چھوٹی سی قطعہ زمین تھی جس کو سکول کہتے تھے ۔بلیک بورڈ کے نام پر لکڑی کا سیاہ تختہ جو روزانہ پڑوس کے ایک گھر میں بطور امانت چھوڑ کر جاتے تھے اس کو لانے اور لیجانے کی زمداری ایک سٹوڈنٹ کی ہوتی تھی چونکہ یہاں پر کسی قسم کی کوئی شے محفوظ کرنے کی جگہ ہی نہیں تھی چاک کی ڈبیاں ایک پتھر کے نیچے زمین میں گھاڑ کر رکھ دیتے تھے کبھی کبھار گاؤں کے اوباش لڑکے چاک کے ڈبیوں پر ہاتھ صاف کرتے تھے اور آس پاس کے پہاڑوں پر ایسی ایسی نقش نگاری کرتے تھے کہ دیکھنے والا دھنگ رہ جائے جس دن یہ واردات ہوتی تھی اس دن چاک چھپانے میں کوتاہی برتنے والا سٹوڈنٹ کی تو لگ ہی جاتی تھی بے چارے کو ایک سو بیس چھڑیاں ایک گھنٹہ کان پکڑی آدھا گھنٹہ دیوار اپ پچیس عدد ناک پکڑ کر زور دار تھپڑ جو سزائے یا فتہ کو کسی دوسرے کی ہاتھوں کھانی پڑتی تھی سمجھ لیں آج کا دن اس کیلے کیو با ہوتا تھا ا ور یہ سزا دن دس بجے سے دوپہر بارا بجے تک بغیر کسی وقفہ کا جاری رہتا تھا چونکہ دس بجے استاد سکول پہنچتے تھے اور بارا بجے چھٹی کرتے تھے اسی دوران سارے عملیات یعنی ایک سو بیس چھڑیاں دیوار اپ کان پکڑی تھپڑوغیرہ سب سے گزرنا لازمی ہوتا تھا ہر چھڑی کے ساتھ ایک غلیض گالی بھی استاد کی طرف سے عطاء ہوتی تھی کچھ سر پھیرے مذاحمت پر بھی اتر آتے تھے اور نتیجہ سکول سے بے دخلی کے صورت میں نکلتا تھا اور اب انتقام کے طور پر چاک کی ڈبیاں اڑانے میں ان ہی لڑکوں کی گینگ کی سازش کار فرما ہوتی تھی۔کیا خوب زمانہ تھا گرمیوں کی سیزن میں قریبی نالے سے استادوں کیلے مچھلیاں پکڑنے کا عمل ہوتا تھا اور بدلے میں تین دن کی چھٹی اور آنے والے دنوں میں سزا و جزاء میں رعایت کی یقین دہانی پت جڑ کے موسم میں ماسٹر کے مویشیوں کو درختوں کے پتے جاڑ نا قریبی دہات میں آنار کے درخت کثرت سے پائے جاتے تھے جب انار وں کے پکنے کا موسم ہوتا تو استاد کی ہدایت پرآنار تھیلے میں بھر بھرکر دہقانوں کی نظروں سے بچ بچاؤ کر کے لاتے تھے اور پھیر شہتوت کے پکنے کا سیزن توموجوں کا ہی ہوتا تھا پورا دن شہتوت کے انچے انچے درختوں پر ہی گزرتا تھا ۔ہوتا یوں تھا کہ ایک بچہ جو قریبی محلے کا رہنے والا ہو اپنے گھر سے بڑی سائز کی چادر لاتا تھا آٹھ دس لڑکے چادر کو پھیلا کر کناروں سے پکڑتے اور آٹھ دس درخت پر جھٹ سے چڑ جاتے اور پورے درخت جھاڑ کر شہتوت کے ساتھ ادھے سے زیادہ پتے بھی نیچے گرا دیتے تھے کیا جدید حصول تعلیم کا زمانہ تھا۔اس دور میں ہمارے علاقے میں یہ ایک ہی پرائمری سکول تھی جس میں کل پچاس طلبہ اور پانچ گینگ تھے ہر گینگ میں دس کی گروپ تھی استاد کی امد سے پہلے ایک جڑپ اور چھٹی کے بعد ایک خون خوار معرکہ لازم و ملزوم تصور کیا جاتا تھا ہاتھ میں لکڑی کی سیا تختی ما شاء الللہ بہت کام آتی تھی مخصوص سفید مٹی سے اردو حروف تہجی کے نام پربے ترتیب نقش نگاری کے علاوہ عین وقت پر ایک دوسروں کے گردنوں پر جھم کے مارنے میں بھی کار گر ثابت ہوتی تھی دو پہاڑوں کے درمیان تنگ گھاٹھی میں بلکل سیلابی نالے کی اپرہمارے جد امجد کی طرف سے عطیہ کردہ جگہ پرتعمیر یہ بھوت بنگلہ تعلیمی ادارے سے زیادہ کشتی کے میدان کے طور پر شہرت رکھتا تھا یہاں کے فاضل ما شاء الللہ سے کسی بھی لڑائی میں مارکھانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا اور پڑھائی میں بھی اپنے مثال آپ پورا سال گنتی،ایک ،دو،تین،چار،سے سو تک اور پہاڑہ ایک دنی دو ،دو ،،دنی،چار اس سے آگے استاد محترم کو بھی کچھ علم نہیں تھا۔خیر زمانہ نے پھر کروٹ لیا اساتذہ کی تربیت کے نام پر پی ،ٹی،سی،سی،ٹی،بی ایڈ،ایم،ایڈ،وغیرہ وغیرہ لیکن یہ سب علامتی لوازمات تھے اندرون خانہ وہی عمل تھا جو جتدت سے جتدت کے محض دعوے کی حد تک چلا آرہا تھا وہی سفارشی کلچر استاد کی مسند کی خرید و فروخت کا سلسلہ اپنے عروج پر تھاماضی قریب میں ایسا دور بھی آیا کہ چرواہے تین تین لاکھ میں،پیالو ،سے ماسٹر کہلانے لگے کچھ انڈر میٹرک دھاڑی پر کام کرنے والے مذدور بھی قسمت آزمائی میں کامیاب ہوئے گیراج پر کام کرنے والے مکینک ڈرایؤر کنڈکٹر سبھی مستفید ہو گئے۔دو سے چار لاکھ کے درمیان نو سے چودا تک سکیل کی جو بولی لگی تھی ریڈی پر ٹما ٹر بھی اس بے دردی اوربے شرمی سے فروخت نہیں ہوتے اور اپر سے اتنی دلیری کے ساتھ دعوہ کہ ہم نے روزگار دیا اور اب چھینا چھانٹی ہو رہی ہے الللہ تمہیں ہدایت دے روزگار دینے کیلے اور ادارے کم تھے ۔کسی اور ادارے کو سیاسی اکھاڑہ بنا دیتے قوم کے مستقبل کو تباہ کرکے روزگار دینا در اصل یہ روزگار کی فراہمی نہیں بلکہ گلگت بلتستان کے بیس لاکھ عوام کے آنے والی نسل کے خلاف سازش تھی اب یہ چرواہے مکینک اور مزدور قوم کے بچوں کو کیا علم کی نور سے منور کرینگے؟لیکن اساتذہ کے حالیہ تقرریاں گلگت بلتستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ میرٹ پر ہوئی ہیں انتہائی شفاف انداز میں این ٹی ایس کے زریعے قوم کے محسنوں کو چنا گیا جس کا کریڈیٹ صوبائی حکومت کے ساتھ سیکرٹری تعلیم گلگت بلتستان کو جاتا ہے جنھوں نے انتہائی محنت ایمانداری اور لگن سے آنے والی نسلوں کی مستقبل کو محفوظ بنانے کیلے تاریخی کردار ادا کیا ہے ۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button