محمد صابر گولدور چترال
پاکستانی عوام آئے روزنت نئی چیزوں کا مشاہدہ کر رہے ہیں ـ عوام کو ان غیر معمولی حالات و واقعات کی گویا عادت سی پڑ گئی ہے کبھی میمو اسکینڈل تو کبھی آذادی مارچ کبھی اے پی ایس اسکول پر دہشتگردوں کا حملہ تو کبھی سانحہ صفرا کبھی پانامہ لیکس تو کبھی کیا کچھ ـ
ہمارے ملک میں الیکشن سے قبل بلند و بانگ دعوے کرنا عوام کو بے وقوف بنانا اور ووٹ لینے کےلیے اوچھے ہتھکنڈوں پہ اتر آنا بہت عام سی معمولی کی بات ہے ـ ووٹ لینے کے بعد ووٹ مانگنے والوں کا دور دور تک پتہ نہیں چلتا ـ
حالیہ دنوں ملکی سیاست میں کافی پیش رفت دیکھنے کو ملا ہے ـ پی ٹی آئی نے پھر سے 2 نومبر کو اسلام آباد پر ھلا بولنے کی دھمکی دیکر حکومتی ایوانوں میں ہلچل برپا کر دیا ہے ـ حکومتی ذرائع نے کسی بھی غیر قانونی عمل اور قانون کو ہاتھ میں لینے والوں کی حوصلہ شکنی کےلیے پہلے ہی سے سخت سے سخت اقدامات کا واضح الفاظ میں اعلان کر دیا ہے ـ
2013 کا الیکشن مسلم لیگ نون بھاری اکثریت سے جیت کر وفاق میں حکومت بنانے میں کامیاب ہو گیا تھا اس وقت پی ٹی آئی اور دوسری سیاسی جماعتوں نے مسلم لیگ نون پر داندلی کا الزام لگایا تھا ـ پی ٹی آئی نے مسلم لیگ نون کے خلاف احتجاج کیا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا جس کا ختم نہ ہونے والا سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے ـ پی ٹی آئی کی جانب سے 2 نومبر کو اسلام آباد کو بلاک کرنے کا فارمولا سامنے آنے کے بعد ملکی سیاسی حالات کافی کشیدہ ہیں ـ دونوں جانب کے اہم راہنماؤں کی جانب سے تند و تیز جملوں کا تبادلہ جاری ہے ـ جہاں ملکی آئین کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں وہی پہ پارٹی کے منشور کو آئین پاکستان سے بھی بالاتر سمجھا جارہا ہے جس کے نہایت خطرناک نتائج سامنے آسکتے ہیں ـ ملک کو نازک صورت حال سے دوچار کرنے میں جتنا پی ٹی آئی کا ہاتھ ہے اس میں بلا شک و شبہ نون لیگ کا بھی برابر کا ہاتھ ہے ـ جس طرح نون لیگی قیادت نا اہلی کا ثبوت دیتے ہوئے پی ٹی آئی کے ساتھ معاملات کو حل کرنے کی بجائے طول دیتا آیا ہے اس میں وزیراعظم نواز شریف ان کے وزرا اور حلقہ احباب بھی برابر کے شریک ہیں ـ
میرا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے نہیں ہے ملکی مفاد اور استحکام کی خاطر بحیثیت پاکستانی شہری یہ میرا حق بنتا ہے کہ میں بلا خوف خطر کسی بھی سیاسی جماعت پر چاہے وہ حکومت میں ہو یا حزب اختلاف ہو کہ حکومت سے باہر میں ہو کھل کر تعریف و تنقید کروں میں اس چیز کا حق رکھتا ہو جو صحیح کام کرے گا میں اس کی تعریف کروں گا اور جو غلط کام کرے گا اس پر تنقید کروں گا ـ
میری ذاتی رائے میں جناب عمران خان صاحب کو چاہئے تھا کہ وہ احتجاج اور دھرنے میں وقت ضائع کرنے کی بجائے اپنی توانائی اور صلاحیت خیبر پختونخواہ پر صرف کرتے چونکہ آپ باقی سیاست دانوں سے اچھے خاصے پڑھے لکھے ہیں اور ویسے بھی کرپشن اور دوغلی سیاست سے آپ کا دامن بھی پاک و صاف ہے ـ آپ کےلیے خیبر پختونخواہ ایک آزمائشی موقع تھا جو کہ آپ نے گنوا دیا آپ اس صوبے کو مزید بہتر سے بہتر بنا سکتے تھے پی ٹی آئی نے پولیس کے محکمے ، ممحکمہ تعلیم اور صحت کے شعبے میں کسی حد تک تو ریفرمز لائے ہیں جو کہ خوش آئند بات ہے ، مگر کیا ہمارے سکول اور ہسپتالوں کا معیاری پرائیویٹ سکول اور اسپتالوں سے بہتر ہے ؟ معزرت کے ساتھ ہمارے لیے خصوصا مجھ جیسے نوجوانوں کےلیے اعلی تعلیم کا حصول اور بنیاد صحت کا حصول آج بھی نا ممکن ہے ـ
ہمیں حکومتی سطح پر اکسفورڈ اور کیمبرج جیسی بہترین یونیورسٹیوں کی ضرورت ہے ـ ہمیں امریکہ اور یورپ کے ہسپتالوں جیسے ایڈوانس ہسپتالوں کی ضرورت ہے ـ پی ٹی آئی حکومت نے صوبے بھر میں سرکاری بھرتیوں کے پراسیس کو صاف شفاف بنانے کےلیے این ٹی ایس کی خدمات لی جو کہ پی ٹی آئی کی نیک نیتی پر مبنی تھی مگر این ٹی ایس (پرائیویٹ ادارہ) نے جس طرح غریب عوام کو ان 3 سالوں میں لوٹا کسی سے دھکی چھپی نہیں ـ
الیکشن سے قبل جو دعوے ہم نے سنے تھے وہ دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے ـ ذاتی طور پر میں عمران خان صاحب کا بڑا فین ہوں مگر میرا خان صاحب کی ٹیم پر اعتماد نہیں ہے یا یوں کہئے میرا اعتماد اٹھ گیا ہے ـ پی ٹی آئی کو چاہئے تھا کہ خیبر پختونخواہ کو باقی صوبوں کے مقابلے میں ایک مثالی صوبہ بناتے ، جس کی وجہ سے 2018 کے الیکشن میں پی ٹی آئی کےلیے جیت کی راہ ہموار ہوتی بہرحال وقت بہت کم ہے مگر مقابلہ بہت سخت ـ
مسلم لیگ نون نواز شریف صاحب اور ان کے وزرا اور پارٹی ورکرز کی سیاسی بصیرت کی کمی اور نا اہلیت کا تو سبھی کو پتہ ہے ـ عمران خان چیخ چیخ کر داندلی پر آواز اٹھاتے ہیں مگر انصاف ان کو نہیں ملتا ان وجوہات کی بنا پر ملک کئی بار نازک صورت حال سے دوچار ہوتا ہے ـ
ہمارے وزیراعظم صاحب میں بے شمار ایسی کمی خامیاں ہیں جن کی وجہ سے وہ ملکی سلامتی کو مسلسل داؤ پر لگانے سے بھی دریغ نہیں کرتے ہیں ـ وزیراعظم صاحب کو کیوں پنجاب ہی سارا پاکستان نظر آتا ہے ؟ سارے ترقیاتی کام پنجاب ہی کے صرف نظر کرتے ہیں گویا کہ وہ پاکستان کے نہیں بلکہ پنجاب کے وزیراعظم ہیں ـ قومی سلامتی کے اہم امور میں فیصلہ سازی میں سست روی ، کشمیر کاز پر عدم توجہی ، اینڈین (اسپئے) جاسوس کلبوشن یادو کے معاملے پر خاموشی اور مودی کےلیے نرم گوشہ جیسی باتوں نے ہمارے وزیراعظم صاحب کو عوام کی نظروں سے گرا دیا ہے ـ
انہی باتوں کی وجہ سے لوگ سیاست اور سیاست دانوں سے نفرت کرتے ہیں اور ان لوگوں میں ایک میں بھی ہوں ـ جمہوریت کسی بھی ملک کےلیے آج کے دور میں پسندیدہ طرز حکمرانی ہیں مگر مغرب کی جمہوریت اور پاکستانی جمہوریت میں زمین آسمان کا فرق ہے ـ
ہم صرف یہ امید رکھ سکتے ہیں شاید ہماری آنے والی نوجوان نسل میں کوئی عظیم لیڈر پیدا ہوگا ، جو اس ملک اور قوم کی تقدیر بدلے گا ـ