بلاگز

فکر فردا  ۔۔۔۔۔۔ قلعہ مستوج تباہی کے دہانے پر 

کریم اللہ

چند روز ادھر ایک کالم بہ عنوان ’’گلگت بلتستان کے تاریخی قلعے ‘‘ پڑھنے کا اتفاق ہو ا جس میں فاضل مصنف نے گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں میں زبوں حالی اور تباہی کا شکار قلعوں کا تذکرہ کرتے ہوئے خون کے آنسو روئے تھے کہ کس طرح تاریخ کو منوں مٹی تلے دفن کیاجارہاہے اس کے ساتھ ہی روایتی مفروضوں اور سازشی نظریات سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ گلگت بلتستان کے جن قلعوں سے ڈوگرہ افواج کے خلاف مذاحمت ہوئی تھی ان کی دوبارہ بحالی کی راہ میں علاقے میں سرگرم بھارتی خفیہ ایجنسی ’راء ‘ اور ان کے دیسی ایجنٹ رکاؤٹ ڈال رہے ہیں تاکہ ڈوگروں کے خلاف جہاں مذاحمت ہوئی تھی ان کے اثرات کو نیست ونابود کیاجائے یوں’ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری ‘۔مفروضے کے مطابق یاسین ، پونیال اور سکردو کے جن قلعوں سے ڈوگرہ فوج کے خلاف مذاحمت ہوئی تھی اب وہ یا تو مکمل طورپر تباہ ہوچکے ہیں یا تباہی کے دھانے پر کھڑے ہیں۔ مضمون نگار کے مطابق جب بھی ان قلعوں کی مرمت وبحالی کی جانب توجہ دی جاتی ہے تو راء اس راستے میں روڑے اٹکا کر منصوبے کو ناکام بناتے ہیں یوں گلگت بلتستان کی مذاحمتی تاریخ مٹتی جا رہی ہے ۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ حکومت اور غیر سرکاری ادارے جلد ازجلد دشمن ملک کی اس سازش کا اندازہ لگا کر بلاکسی تاخیر کے ان تاریخی قلعوں کی مرمت وبحالی کی جانب توجہ دیں تاکہ ثقافتی ورثے کو بچانے کے ساتھ ساتھ تاریخ کو بھی تباہی سے بچایا جائے اس کے علاوہ ان قلعوں کی تاریخ بالخصوص ڈوگروں کے خلاف ہونے والی مذاحمت کو نصاب میں شامل کرتے ہوئے نئی نسلوں کو اپنے ماضی سے باخبر رکھنا بھی وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے جس کی جانب جلد ازجلد توجہ مرکوز کرناچاہئے ۔ یہ بھی لکھاگیا کہ ان قلعوں کی بحالی سے علاقے میں سیاحت کے فروع میں مدد ملے گی ۔

دوسرے علاقوں ، ملکوں اور اقوام کی کمزوریوں پر تنقید ہمارا دل پسند اور محبوب مشعلہ ہے جبکہ سازشی نظریات ہمارے معاشرے میں تخلیق کاری کا معراج تصورکیاجاتاہے ۔ کہوار زبان کا ایک محاورہ بڑا ہی مشہور ہے ’’تن گردنی سانجیروت نو لوڑی خوروگردنی دروت تانا‘‘۔ لفظی معنی یوں ہے کہ اپنے گردن میں موجود شہتیر کااندازہ نہیں دوسروں کے گردن میں موجود بال کا طعنہ دیاجاتاہے ۔ یعنی اپنی بڑی سی بڑی کوتاہی وکمزوری کو سمجھنے اور اس کی اصلاح کی بجائے دوسروں کی معمولی معمولی کمزوریوں پر واویلا کرنا۔

قلعے ، روایتی مکانات اور آثار قدیمہ کے ذخائر کسی بھی قوم کی تاریخ کو جاننے میں کلیدی کردار اداکرتے ہیں قلعہ چاہے ہنزہ کے التت یا بلتت کا ہو خپلو ، یاسین، اشقامین، پونیال ، مستوج ،شاگرام تورکہو، دراسن موڑکہو ، چترال ، شغور یا نغر کا، سب کی اپنی اپنی تاریخی اہمیت ہے یہ سارے قلعے اپنے علاقوں کے مخصوص ثقافتی ورثے کی نمائندگی کرتی ہے اگر سکردو، شگر ، گلگت ، یاسین یا پونیال میں موجود قلعے زبوں حالی کا شکار ہے اور وہاں کے عوام ان کی دوبارہ بحالی کے حوالے سے کوئی اقدامات نہیں اٹھا رہے یاان کی بحالی پر روڑے اٹکا رہی ہے تو وہ اپنی آئندہ نسلوں کو ثقافتی ورثوں اور تاریخ سے بے خبر رکھنے کے علاوہ اپنے علاقوں میں سیاحت کے فروع میں رکاؤٹ ڈال رہے ہیں جو کہ بہت بڑا جرم ہے اور اہل علم کو ان کی مذمت کرنی چاہئے لیکن چند مخصوص قلعوں کا نام لے کر ان کی زبوں حالی پر ماتم کنان دانشوروں سے دست بدستہ گزارش ہے کہ وہ اپنے پسند یدہ نظریات کی من گھڑت تعبیر کرتے ہوئے اپنے معاشروں میں ہونے والی ظلم وبربریت اور ثقافت، ادب ،تاریخ وورثہ کے ساتھ ہونے والی آبروریزیوں پر خاموش رہ کر دوسروں کی جانب انگلی اٹھانا غیر دانشمندانہ اقدام ہے ۔

اپنے اس کاوش ناتمام کے ذریعے محترم کالم نگا ر کے سامنے آج مستوج میں واقع قلعہ سے متعلق چشم دید معروضات پیش کرنا چاہتاہوں جسے دیکھ کر گلگت بلتستان کے تاریخی قلعوں کے ساتھ چترال کے قلعوں کی تباہی پر بھی شائد ان کی قلم جنبش میں آئے ۔

چترال سے 100کلومیٹر بالائی جانب واقع مستوج زمانہ قدیم سے انتہائی اہمیت کے حامل علاقہ رہاہے جو کہ تین وادیوں یعنی لاسپور ، یارخون اور دوسرے جانب چترال کو نکلنے والے درے کی سنگم میں واقع ہے یہاں سے ایک راستہ یارخون بروغل میں سے ہوتاہوا واخان کی پٹی اور وہاں سے سابق روسی علاقہ اور موجود ہ تاجکستان کوجبکہ ایک درہ لاسپور سے ہوتا ہوا شندور پار کرکے گلگت بلتستان میں جاتا ہے ایک راستہ زرین چترال کی جانب نکلتاہے ۔ زمانہ قدیم میں یہ دونوں درے یعنی درہ یارخون اور درہ لاسپور قافلوں اور بیرونی حملہ آوروں کی آماجگاہ رہاہے ۔ اٹھارہ ویں صدی میں افعانستان سے بعض جنگجو حکمران بروغل کے راستے چترال میں داخل ہوئے تھے جن کے سامنے بروغل کے مقام دربند میں زبردست مزاحمت ہوئی اوربیرونی حملہ آوروں کو منہ کی کھانی پڑی تھی جسے تاریخ او رلوک روایات میں ’دربندوژنگ‘‘یعنی دربند کی جنگ کہاجاتاہے ۔ اسی طرح یہی درہ کئی اور لشکر وں اورقافلوں کی گزر گاہ رہا ہے اس کے علاوہ مبلغین بالائی مستوج اور یہاں سے گلگت بلتستان تبلیغ کے سلسلے میں ان دروں کو استعمال کیا یہی وجہ ہے کہ بروغل کے لئے راہداری یعنی کاریڈور کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے ۔

دوسری جانب وادی شندور کے راستے بھی بیرونی لشکروں نے چترال پر حملہ آور ہوئے ان میں خصوصیت سے انیس ویں صدی کے آخری عشروں میں انگریزوں کی آمد خاصی اہمیت کے حامل ہے جنہوں نے معمولی کمک کی مدد سے نہ صر ف چترال کی عوام کو ناکو چنے چبوا دئیے بلکہ 1895ء میں اپنے من پسند فرد کو تخت چترال پر متمکن کرکے اپنے مفادات کی تحفظ کو یقینی بنا یا ۔ 1895ء کے موسم سرما میں جبکہ چترال گزشتہ تین سالوں سے آنارکی اور افراتفری کا شکار تھے اس پر قابو پانے کے لئے انگریزوں نے براستہ شندور گلگت سے چترال روانہ ہوئے اور ایک طویل جنگ کے بعد چترال کو تسخیر کرنے میں کامیاب ہوگئے ۔ ان قافلوں نے مستوج کے قلعہ میں ضرور آئے بعض انگریزوں کو چند روز تک قلعہ مستوج میں قید بھی رکھا گیا ۔ رابرٹ سن کی کتاب’ محاصرہ چترال کی کہانی‘ اور الجرنن ڈیورنڈ کی کتاب ’سرحدوں کی تشکیل‘ میں قلعہ مستوج کا بار ہا حوالہ ملتاہے ۔سابق وائسرائے ہند لارڈ کرزن 1892ء میں وادی بروغل کے راستے چترال آئے ان کی یادداشتوں میں بھی مستوج کے قلعہ کا ذکر ملتاہے، ان سارے حوالوں کا مقصد مستوج اور یہاں کے تاریخی قلعے کی دفاعی وتزویراتی اہمیت کو بیان کرنا ہے ۔

لوک روایات کے مطابق قلعہ مستوج کی تعمیر خاندان خوشوختہ سے تعلق رکھنے والے مہتر گوہر آمان کے دور میں ہوئی تھی البتہ بعد میں جب حکومت کٹور خاندان کے قبضے میں آئی تو حسب ضرورت اس قلعہ کی توسیع کی گئی۔ اس قلعہ کی عمر کم وبیش تین سو پچاس سے چار سوبرس ہے۔تاریخ چترال کے مطابق سن 1936ء میں ناصر ملک مستوج کا گورنر تھا جب اس زمانے میں مہتر چترال شجاع الملک کا انتقال ہوا تو ناصر الملک ان کی جگہ مہتر چترال مقرر ہوئے جبکہ مستوج کی گورنری خوشوخت الملک کے سپرد کردی گئی جو کہ برٹش انڈین آرمی میں کرنیل بھی تھے جس نے قلعہ مستوج سے حکومت کی۔ کہا جاتاہے کہ 1935ء کے تباہ کن زلزلے سے قلعہ مستوج کو شدید نقصان پہنچا تھا سانحہ میں قلعہ میں موجود دوافراد لقمہ اجل بن گئے ۔ قلعہ میں مقیم ایک سینئرعہدے دار نے بتایا کہ 1885ء میں انگریز گلگت سے براستہ شندور پیدل چل کر مستوج آئے تھے 1985ء میں ان انگریزوں کی اولاد نے پھر سے اپنے اجداد کے نقش وقدم پر چل کر گلگت سے پید ل مستوج آئے اس وقت سابق گورنر مستوج خوشوقت الملک نے شندور میں جاکر ان مہمانوں کو خوش آمدید کہا۔قلعہ میں مقیم اس عہدے دار کے مطابق قلعہ مستوج کے مین گیٹ میں اندر داخل ہوتے ہی دائین جانب مردانہ اور بائین جانب زنانہ قید خانہ تھا اس سے آگے قلعہ کے انچارچ ،پھر دیوان بیگی، اس سے آگے منشی (کاتب ) کا کمرہ، اس سے آگے ’محرکہ‘یعنی اجلاس ہاؤس ، اس سے آگے حکمران کا شاہی محل،پھر شاہی خاندان کی رہائش گاہ ، ایک جانب مسجد ، مہمان خانہ اس سے آگے اساقل یعنی قلعہ کے منتظم کا کمرہ موجود تھایوں یہ سب کمرے ترتیب وار بنائے گئے تھے قلعہ کے مین گیٹ کے ساتھ سنتری ہاؤس اور قلعہ میں زیر زمین عقوبت خانے بھی موجود تھے۔

لیکن رفتہ رفتہ سابق شاہی خاندان کو ان تاریخی عمارات کی موجودگی بوجھ معلوم ہونا شروع ہوئی تو انہوں نے انہیں مسمار کرتے ہوئے کنکریٹ کی عمارتین تعمیر کی ۔ اور اب قلعہ میں صرف بیرونی حصار موجود ہے ان میں بھی جگہ جگہ دراڑین اور شگاف پڑے ہیں،بعض مقامات پر دیوارین ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر زمین بوس ہوچکی ہے ۔صرف ایک آدھ سال بعد یہ فصیل بھی گرجائے گی اور اس کی جگہ کنکریٹ اور دھاتی پرتوں سے بنی ہوئی عمارتین نظر آئینگی۔ قلعہ مستوج کی صورت میں جو ثقافتی ورثہ تھا اس کابیشتر حصہ سابق شاہی خاندان کے خانوادوں کی حرس زرکاشکار ہوکر کب کے ناپید ہوچکے ہیں اور اب بیرونی دیوار بھی عنقریب گر کر ساری تاریخ وورثہ موت کی آغوش میں چلے گی ۔ قلعہ کے ایک حصہ کو مسمار کرتے ہوئے صحن میں ’ہندوکش لاج ‘ نامی ہوٹل تعمیر کی گئی ہے مستوج کے ایک معتبرشخص نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ قلعہ میں موجود تاریخی مسجد کو مسمار کرتے ہوئے اس کا دروازہ اکھاڑدیا اور اسے اسی ہوٹل کے ایک کمرہ جس کا نام ’’سنجور‘ ہے کے باتھ روم میں رکھا گیا ہے ۔ اس کی نشاندھی پر ہم بمشکل اس کمرے کے باہر کھڑا ہو کر اس تاریخی دروازے کی تصویر کشی کی۔شاگرام تورکہو میں موجود تاریخی قلعہ بھی اسی طرح حفاظت نہ ہونے کی وجہ سے زمین بوس ہوگیا وہاں بھی صرف بیرونی فصیل موجود ہے باقی تاریخی عمارات گرادئیے گئے ہیں ، یہی حال دراسن موڑکہو کے تاریخی قلعے کی بھی ہے جہاں بھی ساری تاریخی عمارتوں کو مسمارکیا گیا ۔صورتحال یہ ہے کہ چترال میں موجود تاریخی قلعوں میں سے اکثر اس وقت تباہی کے دھانے پر کھڑے ہیں شعور کا قلعہ پچھلے سال کے تباہ کن سیلا ب میں برباد ہوگیا البتہ قلعہ کی دوسری منزل بھوت ہاؤس کا منظر پیش کررہاہے قلعہ چترال کی تاریخی عمارتوں کو گرا کرکنکریٹ کی عمارتین کھڑی کی گئی ہے نعر کا قلعہ بھی محض تاریخ کے ابواب کی زینت بنی ہوئی ہے ہمارے دانشوروں کو بیرونی علاقوں میں موجود تاریخی قلعوں کی تباہی تو نظر آتی ہے اپنے ہاں موجود قلعوں ، روایتی گھروں اور آثارقدیمہ کے ذخائر کی مسماری ان کی نظر وں سے اوجھل ہے ۔یہی ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا المیہ ہے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button