بلاگز

بستیاں ویران کب ہوتی ہیں؟

تحریر۔صوبیہ کامران۔بکرآباد چترال

’’بستیاں ویران کب ہوتی ہیں؟‘‘

عین اس وقت ایک الّوبھی وہاں سے گزر رہا تھا۔

اس نے طوطے کی بات سُنی اور وہاں رک کر ان سے مخاطب ہوکر بولا۔

تم لوگ اس گاؤں میں مسافر لگتے ہوں۔

آج رات تم لوگ میرے مہمان بن جاؤں۔

میرے ساتھ کھانا کھاؤ۔

الّو کی محبت بھری دعوت سے طوطے کا جوڑا انکار نہ کر سکا اور انہوں نے الّو کی دعوت قبول کر لی۔

کھانا کھا کر جب انہوں نے رخصت ہونے کی اجازت چاہی۔

تو الّو نے طوطی کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا۔

تم کہاں جارہی ہو۔

طوطی پریشان ہوکر بولی یہ کوئی پوچھنے کی بات ہے۔

میں اپنے خاوند کے ساتھ واپس جا رہی ہوں۔

الّو یہ سن کر ہنسا۔اور کہا۔

یہ تم کیا کہہ رہی ہوتم تو میری بیوی ہو۔۔

اس پر طوطا طوطی الّو پر جھپٹ پڑی اور گرما گرمی شروغ ہوگئی۔

دونوں میں جب بحث و تکرار زیادہ بڑھی تو الّو نے طوطے کے سامنے ایک تجویز پیش کرتے ہوئے کہا۔۔

’’ ایسا کرتے ہیں ہم تینوں عدالت چلتے ہیں اور اپنا مقدمہ قاضی کے سامنے پیش کرتے ہیں۔۔

قاضی جو فیصلہ کرے وہ ہمیں قبول ہوگا۔۔

الّو کی تجویز پر طوطا اور طوطی مان گئے اور تینوں قاضی کی عدالت میں پیش ہوئے۔۔

قاضی نے دلائل کی روشنی میں الّو کے حق میں فیصلہ دے کر عدالت برخاست کردی۔

طوطا اس بے انصافی پر روتاہوا چل دیا تو الّونے اسے آواز دی۔

’’ بھائی اکیلے کہاں جاتے ہواپنی بیوی کو تو ساتھ لیتے جاؤ‘‘۔

طوطے نے حیرانی سے الّو کی طرف دیکھااور بولا’’اب کیوں میرے زخموں پر نمک چھڑکتے ہو۔

یہ اب میری بیوی کہاں ہے۔

عدالت نے تو اسے تمہاری بیوی قرار دیا ہے۔

الّو نے طوطے کی بات سن کر نرمی سے بولا۔

نہیں دوست طوطی میری نہیں تمہاری ہی بیوی ہے۔

میں تمھیں صرف یہ ہی بتانا چاہتا تھا کہ بستیاں الّو ویران نہیں کرتے۔

بستیاں تب ویران ہوتی ہے جب ان سے انصاف اٹھ جاتا ہے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button