کالمز

دیوانوں کی باتیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ہم پورے خاندان کے ساتھ مل بیٹھ کے ٹی وی دیکھتے ہیں

تحریر : شمس الحق قمرؔ
بونی ۔ حال گلگت

الف: میں اس کو ایک لَپّڑ ماروں نا تو یہ اُلٹا ہو جائے گا I tell you ۔۔۔

ب: ابے لپَّڑ کے بچے ! لپڑ میں ماروں گا ہاں ۔۔۔ تمیز سے بول۔ پہلے بھی تیرا منہ کالاتھا اب میں اور بھی کالا کروں گا سمجھے

الف: اوئے گل سن ۔۔ اے گدھے ۔ کتے کے بچے سنو !

ج: او بس بس، بس، بس بھائیوں بس بہت ہو گیا بس

ب: کمینے کتے کی اولاد تو ہے ۔۔ تیرا منہ کالا ہے ۔ بندر

الف: شٹ اپ کمینے ۔۔ حرام زادے

ج: جناب آپ دونوں ٹھنڈے ہو جایئے لوگ ہمیں دیکھ رہے ہیں۔ پلیز ،پلیز پلیز

ب: تمہارا منہ پہلے بھی کالا تھا اب بھی کالا ہے ۔۔ چور

الف: Buster حرام زادے ، کتے کے بچے ، کمینے

ب: کالے منہ والا کالے کردار والا ۔۔ قوم کے دشمن ۔۔ ساری دنیا کو پتہ ہے کہ تم کیا ہو ۔۔۔ کالے منہ والے ، کمینے

ج: بس کردے بس کردے حد ہو گئی ۔۔ گالی گلوچ ۔۔ اُف۔۔۔ بس کر دے بس

الف: I was a …………………………. in 1970 تم مجھ سے ’’ تم تم ‘‘ کہکر مخاطب ہوتے ہو ۔ دو ٹکے کے آدمی ، گھٹیا آدمی

یہ مکالمہ بازی آپ سب کی نازک سماعتوں پر گراں گزری ہوگی ۔ میں معافی چاہتا ہوں ، مجھے ان الفاظ کو میڈیا میں عام نہیں کرنا چاہئے تھا ۔ ان الفاظ کا نوکِ قلم پر آناکسی لکھنے والے کے لئے گناہ کبیرہ سے کم نہیں ۔ یہ وہ الفاظ ہیں جو اچھے لوگ اپنے دل کے نہاں خانے میں بہت سخت غصے کے دوراں بھی نہیں سوچ سکتے ۔ میں دوبارہ معافی چاہتا ہوں کہ ایسے مکالمہ بازی اگر کہیں ہوئی ہو تو اُسے اس طرح عام کرنے سے افراد، گھر ، معاشرے اور قومیں تباہ ہو جاتی ہیں ۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ یہ کس قماش کے لوگوں کی آپس میں گفتگو کا نقشہ ہے ۔ کیا آپ نے خود کبھی ایسی گفتگو کی ہے اگر کی ہے تو کس وقت، کس بات پر ، کس مقام میں ، کس طرح کے شخص یا گروہ سے اس انداز کی گفتگو کی ہے۔ آپ سوچئے کہ آپ نے زندگی میں ایسی گفتگو کب کی تھی ۔ مجھے یقین ہے کہ آپ نے ایسی گفتگو کبھی بھی نہیں کی ہوگی ۔یہ ایک ایسی مکالمہ بازی ہے جسے ہم غیر شائستہ زبان کہہ سکتے ہیں ۔ ایسی گفتگو بہت ہی پست ذہن کے لوگ کرتے ہیں ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ’’ دوسرے کوپچھاڑنے والا بہادر نہیں ہوتا ۔ بہادر وہ ہوتا ہے جو غصے کے وقت اپنے اوپر قابو رکھے ‘‘ عجیب بات ہے ہم جب غصے میں آتے ہیں تو اپنے جیسے انسان کو ’’ کتا‘‘ کہتے ہیں ۔ ہنسنے والی بات ہے ۔ غور کرنے پر ہنسنے والی بات معلوم ہوتی ہے۔ کیوں کہ مد مقابل ’’کتا ‘‘ ہر گزنہیں ہے ۔ اگر ’’ کتا‘‘ نہیں ہے تو پھر اُسے کتا کیوں پکارا گیا ہے؟ ۔ یہ بہت بڑا سوال ہے ۔ ان تمام سوالوں کے جوابات اوپر کے مکالمے میں ملتے ہیں ۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ مکالمہ فرضی ہے ۔ یہ با لکل فرضی ٰ نہیں ہے بلکہ بالکل اصلی ہے ۔ یہاں جناب الف صاحب اور ’’ب‘‘ صاحب ہمارے سیاسی لیڈر زہیں ’’ج‘‘ صاحب ہمارے ایک نجی ٹیلی وژن چینل کے انکر کا،مران ہیں ۔ یہ ٹیلی وژن کا ایک براہ راست پروگرام ہے ۔ ہمارے لیڈر کئی ایک ممالک کے ناظرین کے سامنے ایک دوسرے کو وہ موٹی گالیاں سنارہے ہیں جو کہ ایک عام آدمی کی زبان پر غلطی سے بھی نہیں ٹپکتیں ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ہمارے سیاسی لیڈروں کی زبانوں پر ایسی گالم گلوچ والے فقرے جچتے بھی ایسے ہیں کہ جیسے ان کے منہ اور زبان انہی گالیوں کے لئے بنی ہیں ہوں ۔ ایسے جچاؤ کو اُردو میں’’ مداومت عمل‘‘ کہتے ہیں یعنی کسی شخص سے وہی توقع رکھنا جو وہ اپنی زندگی میں ہمیشہ کرتا آیا ہے ۔ ہمارے سیاسی لیڈر جب بھی ٹیلی وژن پر آتے ہیں اُن سے یہی توقع رکھی جاتی ہے کہ یہ لوگ جاتے جاتے ایک دوسرے پر خوب تھوک کے چلے جائیں گے ۔ ہمارا کوئی لیڈر اگرحد سے زیادہ شریف ہوتو وہ صرف گالیوں تک اکتفا کرلیتا ہے ورنہ ہاتھا پائی ایک عام اور روز کا معمول ہے ۔ ہمارے یہ راہبر ایک دوسرے پر ہاتھ اُٹھا کر قوم کے سامنے اپنی دلیری کا لوہا منوانا چاہتے ہیں۔ یہی ان کا اندزا ہے ہماری انا کو جگانے کا اور ہم میں عظمت و جلال اور استقامت و صلابت پیدا کرنے کا۔ ہمارے آجکل کے لیڈروں کے لئے ذہین و فطیناور بصیرت افروز ہونے سے کہیں زیادہ یہ ضروری ہے خوب کھا پی کے اپنے پٹھے مضبو ط کریں تاکہ ٹیلی وژن اسکرین پر قوم کے سامنے آکر مد مقابل کے ساتھزور آزمائی اور نبرد آزمائی میں ہار نہ سکیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ قائد اؑ عظم جیسیبصیرت افروز شخصیت کی روح ان پہلوانوں کو دیکھ کر کفِ افسوس مل رہی ہوگی ۔ آ ج کا ہمارا لیڈر بقول شاعر

؂ مگر جب گفتگو کرتا ہے چنگاری نکلتی ہے
لبوں پر مسکراہٹ دل میں بیزاری نکلتی ہے

جن تصاویر کو آپ ملاحظہ فرما رہے ہیں وہ ہمارے راہنما او ر راہبر ہیں یعنی یہ وہ لوگ ہیں جو قوموں کی امامت کے منصب پر فائز ہیں اور ان کی زبان و بیاں اور ظاہر و باطن مغلظات سے لبالب بھری پڑی ہیں ۔ ہم تو عوام ہیں یعنی عام اور نا سمجھ لوگ اور یہ ہمارے لیڈرز ہیں اب ہمیں یہ معلوم نہیں کہ ہمارے گلے میں رسی ڈال کر ہمیں کہاں للے جا رہے ہیں ۔ ہم نے گڈیریوں اور چرواہوں کو دیکھا ہے جو اپنے باغی ، ناچاق اور آوارہ جانوروں کے لئے بھی وہ زبان استعمال نہیں کرتے جو ہمارے لیڈرز آپس میں استعمال کرتے ہیں ۔ ایسی قوم اور ایسے راہنماؤں کے لئے اقبال رحمت اللہ علیہ نے فرمایا ہے

؂ تیرا امام بے حضور تیری نماز بے سرور
ایسے امام سے گزر ایسی نماز سے گزر

کسی بھی شخص کی شخصیت کو ناپنے کے لئے زبان ابتدائی کسوٹی ہے ۔ انسان کا ضمیر اُس کی اندرونی مہر و محبت ، سچ اور جھوٹ، پاکیزگی اور غلاظت کا اندازہ کسی انسان کی زبان سے لگایا جا سکتا ہے ۔ آپ زرا سوچئے کہ یہ آپس میں دن دھاڑے پوری دنیا کے سامنے وہ واہیات بکتے ہیں جو کہ کسی بھی مہذب انسانی سماعت پر خوشگوار نہیں گرزتیں۔ میری بے تکی باتیں بہت سوں کو بھلی معلوم نہیں ہوئی ہوں گی ۔ میں اپنے اُن تمام سیاسی راہنماؤں سے معافی چاہتا ہوں جو گالم گلوچ سے اپنی سیاسی ساگھ بر قرار رکھنا چاہتے ہیں ۔ لیکن یاد رہے کہ ہم پورے خاندان کے ساتھ مل بیٹھ کر ٹیلی وژن دیکھتے ہیں ۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button