کالمز

چاروں صوبوں کی زنجیر ، بے نظیر

ماضی کے دونعرے بہت مقبول تھے ایک نعرہ تھا بھٹو ساڈا شیر ہے باقی ہیر بھیر ہے۔ دوسرا نعرہ تھا بے نظیر چاورں صوبوں کی زنجیر ، ان نعروں نے پاکستان پیپلز پارٹی کے جیالوں کو متحرک کرنے میں زبردست کردار ادا کیا تھا ، پھر قبلہ زرداری آئے انہوں نے پاکستان کھپے کا نعرہ مستانہ بلند کیا اور یہ نعرہ لگ گیا پاکستا ن پیپلز پارٹی کی یوم تاسیس پر بلاورل ہاوس لاہور میں جیالوں سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے جاگ پنجاب جاگ کا نعرہ دیا ساتھ ہی سندھ میں یوم تاسیس پر ٹوپی اورا جرک کا دن منانے والوں کو ٹوئیٹر پر پیغام دیتے ہوئے کہا ’’مرسوں، سندھ نہ ڈیسوں‘‘ اخبارات میں دونوں نعرے ایک ساتھ سرخیوں میں آگئے آج کا سوشل میڈیا جلسہ عام سے زیادہ مقبول ہے۔

دونوں متضاد اور متصادم نعروں کو دیکھ کر مجھے ماضی کا نعرہ یاد آگیا’’ چاورں صوبوں کی زنجیر بے نظیر بے نظیر ‘‘ اب میری یہ حالت ہے کہ بقول مرزا غالب۔

حیراں ہوں دل کو رووں یاپیٹوں جگر کو میں
مقدورہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گرکو میں

اگلے ماہ بلاول بھٹو زرداری لاڑکانہ کی سیٹ پرایم ۔این۔ اے منتخب ہوکر قومی اسمبلی میں سیدخور شیدشاہ کی جگہ قائد حزب احتلاف بننے والے ہیں ۔ اگر قائد حزب اختلاف بن کر انہوں نے اس طرح کی تقریروں سے محفل کو گرمانا شروع کیا تو مسلم لیگ (ن) کو بہت بڑا سہارا مل جائے گا۔ وزیراعظم محمد نوازشریف کو مقدرکا سکندر اس لئے کہاجاتا ہے کہ وہ اپنی ذہانت سے زیادہ مخالفین کی حماقت سے فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ سیاسی میدان میں جوکامیابی وہ خودحاصل نہیں کر سکتے ۔ وہ کامیابی اس کے مخالفین اپنی کو شش اور محنت سے اُس کی جھولی میں ڈال لیتے ہیں مسلم لیگ (ق) اور تحریک انصاف نے ایسا ہی کیا ۔ طاہرالقادری نے ایسا ہی کیا ، جنرل مشرف نے ایساہی کیا اور اب بلاول بھٹو زرداری کی باری ہے۔ وہ بھی ایسا ہی کرنے والے ہیں ۔ پیپلز پارٹی کا 49 واں یوم تاسیس ایسے وقت پر آیا جب پارٹی کے تین پڑے لیڈروں پر ازمائش کی گھڑی آگئی ہے۔ آصف علی زرداری خود ساختہ جلد وطنی کی زندگی کا ٹنے پر مجبور ہیں ڈاکٹر عاصم جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں اور رحمان ملک روپوش ہوچکے ہیں

لاہور میں یوم تاسیس کی تقریب علامتی حیثیت رکھتی تھی۔ اس میں بلاول کی تقریر کو بڑی اہمیت کا حامل ہونا چاہیے تھا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے منشورکا ذکر ہونا چاہیے تھا مزدوروں اور کسانوں کے لئے کوئی اہم پیغام ہونا چاہیے تھا ۔ سندھ کے ہاریوں کے لئے کوئی پیغام ہونا چاہئے تھا ۔ کشمیر کے حوالے سے کوئی انقلابی نعرہ ہونا چاہیئے تھا ۔ دہشت گردی کی خلاف کوئی بڑی بات ہونی چاہیے تھی ۔ عالمی سیاست میں پاکستان کے کردار پر کوئی اہم بات ہونی چاہیے تھی ۔ انکلوں نے بلاول کو اُلٹی پٹی پڑھادی اور ٹیٹر ی سے اتار دیا ۔ انہوں نے جاگ پنجاب جاگ کا نعرہ لگوایا بنجاب جاگے گا تو سندھی کو وزیراعظم کیوں بنائے گا؟ یہ سوچنے اور غور کرنے کی بات ہے۔

1990 کی دہائی میں شریف برادران نے یہ نعرہ پنجابی قومیت کے نام پر لگوایاتھا۔ نعرے میں پنجاب کی جگہ پنجابی کا لفظ سوچ سمجھ کرڈالاگیاتھا۔ اس لفظ نے بڑا کام دیا۔ شریف خاندان کو پنجابی قومیت کا علم بردار بنادیا۔ 1991 ء میں سندھی قوم پرست لیڈر جی ایم سید نے کہا تھا کہ پنجاب نے دو ہی لیڈر پیدا کئے ایک مہاراجہ رنجیت سنگھ تھا ۔ دوسرا میاں نواز شر یف ہے عمران خان نے شریف خاندان کو ٹارگٹ بناکر اپنے پاوں پر کلہاڑی ماری اور پنجاب میں مقبولیت حاصل نہ کرسکا۔ جو موقع اُس کو ملنے والا تھا وہ موقع اُس نے کھودیا۔

اسلام اباد کے ایک سینئرصحافی نے بلاول کے تازہ تریں تقریر پر تبصر ہ کرتے ہوئے دور کی کوڑی لے آئے۔ ان کا کہنا ہے کہ عمران خان کی طرح بلاول کے قریبی حلقوں میں مسلم لیگ (ن) کے لوگ موجود ہیں ۔ جو اُن کی زبان سے شریف بردارن کے حق میں نعرے لگواتے ہیں ۔ جاگ پنجاب جاگ شریف خاندان کے حق میں جاتاہے۔ بلاول وزیراعظم کا نعرہ بھی شریف برادارن کو سہارا دینے والا نعرہ ہے۔ ’’مرسوں مرسوں سند ھ نہ د یسوں‘‘ بھی ایسا ہی نعرہ ہے ان نعروں کا پاکستان پیپلز پارٹی کی سیاست سے کوئی تعلق نہیں ۔

جو لوگ 1967ء اور 1970 ء میں اخبار بین تھے ۔ ان کو معلوم ہے کہ 49 سال پہلے پاکستان پیپلز پارٹی پر کفر کا فتوی لگایا جاتا تھا ۔ اُس دور میں ایک مولوی نے پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی لوگوں نے مولوی سے پوچھا تم نے ایسا فیصلہ کس لئے کیا مولوی نے کہا بھٹونے مزدور کو صنعتکار کے سامنے طاقتوربنادیا۔ کسان کے ہمراہ چوہدری ، خان ، سردار اور وڈیرے کو عدلت کے کٹہرے میں لاکر کھڑا کیا یہ دونوں معمولی کام نہیں تھے۔ مولوی سے کہا گیا کہ بھٹو کمیونسٹ ہے۔ تم اس کو کسطرح دوٹ دوگے؟ مولوی نے کہابھٹو 1961 سے ایوب خان کی کا بینہ کا وزیر تھا ۔ اُس نے اسلام اباد میں پلاٹ نہیں لیا۔ گھر نہیں بنایا۔ ایسا بے غرض ، بے لوث ادربے داغ لیڈر مجھے پسندہے۔

بلاول بھٹو زرداری کو یہ بھی پتہ نہیں کہ اُس کے نام کے ساتھ بھٹو کا نام کیوں آتا ہے ؟ اس لئے کہ بھٹو کادامن کرپشن سے پاک ہے۔ بلاول نے یورپ کے اعلی اداروں سے تعلیم حاصل کی ہے۔ یورپ کی سلجھی ہوئی باوقار اور باعزت سیاست دیکھی ہے۔ اُن سے توقع ہے کہ وہ باوقار سیاست کرینگے چھچورے اور سستے نعروں پر وقت ضائع نہیں کر نیگے۔ پاکستان پیپلز پارٹی وفاق کی علامت تھی ، وفاقیت پر یقین رکھتی تھی۔ صوبائی سطح کی سیاست اس پارٹی کی نہ میراث ہے نہ اس کا شیوہ ہے۔

اسی وجہ سے جیالے کہتے تھے ’’ چاروں صوبوں کی زنجیر ، بے نظیر بے نظیر”

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button