کالمز

خطرناک ترین روٹس کیلئے بے کارترین طیارے کیوں؟

دفتر سے گھرآمدپردیکھا تو اماں جی کچھ اداس سی لگ رہی تھی۔ چہرے کے تاثرات دیکھ کر مجھ سے رہا نہ گیا اور پوچھنے لگا اماں خیریت تو ہے۔ بولی اللہ کے فضل سے گھرمیں تو خیریتی ہے لیکن صبح سے ٹی وی چینلزپر پی آئی اے کے حادثے کا شکار ہونے والے بدقسمت جہازسے متعلق خبریں اور حادثے میں جاں بحق ہونے والے افراد کے لواحقین کی حالت دیکھ کر دل دکھ گیا۔

میں نے اماں جی کو تسلی دیتے ہوئے کہا کہ یہ سب اللہ کی قدرت ہے۔ ایسی صورتحال میں انسان دعا اور صبروتحمل کے سوا اور کرہی کیا سکتا ہے۔ اماں جی کچھ دیرکے لئے خاموش رہی پھر معصومانہ اندازمیں بولی بیٹا آئندہ کبھی جہازمیں سفرنہیں کرنا۔ اس سے پہلے جب بھی تمہارا جہازمیں کہیں جانا ہوتا تھا تو میں بالکل مطمعئن ہوکر اللہ کا شکراداکرلیتی۔ اب تمہارے ہوائی سفرکا شیڈول جان کر مجھے کبھی چین نہیں آئیگا۔ میں نے عرض کیا نہیں اماں ہرجہاز کے ساتھ اس طرح کا واقعہ پیش نہیں آسکتا۔ ماں نے کہا پھر بھی ۔۔۔ میں نے عرض کیا اماں جی انسان کی زندگی اور موت کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ اسی نے ہر انسان کی موت مقرر کررکھی ہے جو کبھی جہاز کریش، کبھی گاڑی ایکسیڈنٹ، کبھی بیماری اور کبھی گولی لگ جانے کا سبب بن جاتی ہے۔ اس پر اماں نے بھی میرے ساتھ اتفاق کرتے ہوئے بولی بے شک موت اور زندگی اللہ کے ہاتھ میں ہے۔

کچھ دیرخاموش رہنے کے بعد میں نے پھروہی موضوع چھیڑتے ہوئے کہا ویسے گلگت بلتستان اور چترال کا فضائی روٹ دنیا کے خطرناک ترین فضائی راستوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اسی روٹ پر تو بڑے دل گردے والے پائلٹ ہی جہاز لیکر آتے ہیں۔ جن میں گزشتہ دنوں حادثے کا شکار ہونے والے پائلٹ جنجوعہ صاحب بھی شامل تھے۔ میں نے ان کے ساتھ کئی مرتبہ سفر کیا اور ابھی چند پہلے سفر کے دوران تو میں نے ان کی پشت پر کھڑے ہوکر نانگا پربت کا نظارہ بھی کیا تھا۔

ایک طرف مشکل ترین راستہ تو دوسری طرف ان علاقوں کے لئے چلنے والے پی آئی اے کے طیاروں کا سن کر کونسی ماں ایسی ہوگی جس کو اپنی اولاد کی فکر نہ ہو۔ مجھے تو یہ طیارے حکومت پاکستان کی طرف سے گلگت بلتستان کوخیرات میں دیا ہوا مال کی مانندلگتے ہیں۔ لیکن یہاں کے عوام پی آئی اے کی اس سروس کواپنے اوپر ایک بڑا احسان سمجھ کرزمینی سفر سے فضائی سفر کو لاکھ غنیمت جانتے ہیں۔وہ اس لئے کہ چند برس قبل گلگت اور اسلام آباد کے مابین زمینی سفرکا واحد راستہ شاہراہ ریشم کی حالات پی آئی اے کے اے ٹی آر طیاروں سے بھی ناگفتہ بہ تھی جوکہ ابھی تھوڑی بہت بہتر بنائی گئی ہے۔

ایسی صورتحال میں ہر کوئی شاہراہ ریشم کی ازیت ناک سفر اور نیٹکو کی کھٹارہ بسوں میں سفر سے بچنے کے لئے پی آئی اے کے زریعے سفر کرنے کو ہی ترجیحی دیتے تھے ، مگر ایک عام آدمی کے لئے گلگت بلتستان سے اسلام آباد کے لئے پی آئی اے کے ٹکٹ کا حصول آسمان سے تارے توڑلانے کے مترادف تھا۔ نہ جانے کئی لوگ ایسے ہونگے جو کسی ایمرجنسی کی صورت میں جہاز کے ٹکٹ کی عدم دستیابی کے باعث زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہوں۔

میں نے خود ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں جو صبح سویرے گلگت ائیر پورٹ پر بیماروں اور مریضوں کو لیکرٹکٹ کنفرمیشن کے لئے پی آئی اے عملہ کو روروکر فریادیں کیا کرتے تھے، لیکن پی آئی اے کا بدمست عملہ ان کی اس فریاد سے ٹس سے مس نہیں ہوتا تھا۔

ان دنوں گلگت اور سکردو کے لئے ہفتے میں دو یا تین مرتبہ پی آئی اے کے اے ٹی آر طیارے چلائے جاتے تھے اور خراب موسم میں وہ بھی میسرنہ ہوتے۔ لہذا یہ مسئلہ جب سنگین صورت اختیار کرگیا توان علاقوں کے لئے پی آئی اے کی پروازوں میں اضافہ یہاں کے عوام کا دیرینہ مطالبہ بن گیا۔

عوام کا یہ مطالبہ بذریعہ مقامی حکمرانوں کے وقتاً فوقتاًحاکم وقت تک پہنچا دیا جاتا مگر وعدے کے باوجود کوئی بھی حکمران مطالبے کے حل میں سنجیدہ نظرنہیں آرہا تھا۔ تاہم رواں سال پی آئی اے کی نئی انتظامیہ کی جانب سے گلگت اور سکردو کے لئے پروازوں میں اضافہ کرکے روزانہ کی بنیادپر دو ، دوپروازیں چلانا شروع کردیا۔ پروازوں میں اضافہ تو ہوا لیکن غریبوں کے لئے جہاز کے ٹکٹ کے حصول کا مسئلہ جوں کا توں رہا۔ غریب لوگ اس کے باوجود بھی پی آئی اے کے اندرونی و بیرونی ایجنڈوں کو دو تین ہزار روپے کمیشن دیکر کنفرم ٹکٹ حاصل کرتے رہے۔ مقامی میڈیا پر اس ایشو کو بارہا اجاگر کرنے کے باجود کسی نے کوئی نوٹس نہیں لیا جس کی وجہ سے کمیشن لیکر ٹکٹ کنفرم کرنے کا یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

یہ المیہ اپنی جگہ قابل توجہ صحیح، لیکن اصل مسئلہ پی آئی اے کے اے ٹی آر طیاروں کی خستہ حالی کا ہے۔ جو یہ جاننے کے باوجود ان علاقوں کی طرف روانہ کردیئے جاتے ہیں کہ پاکستان کے شمالی علاقوں کے فضائی روٹ کا شمار دنیا کے خطرناک ترین راستوں میں ہوتا ہے۔ حالانکہ اسی روٹ پر دوران پرواز کئی ایک طیارے حادثے کا شکار ہونے کے سبب درجنوں قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوئی ۔ کئی لوگوں کے طیارہ سمیت لاپتہ ہونے کے بعد بھی پی آئی اے حکام کو ہوش ٹھکانے نہیں آئے ۔ شاید پی آئی اے انتظامیہ کی اس قدر اجارہ داری کے سامنے حکمران بھی بے بس تھے تب ہی تو انہوں نے اس قومی ادارے کی نجکاری کا فیصلہ کیا۔

پہاڑی علاقوں کے روٹس پر رونما ہونے والے فضائی حادثات کے علاوہ پی آئی اے کے اے ٹی آر طیاروں کا دوران سفر پرواز کی ناہمواری تو روزکا معمول ہے۔ میں نے خود گلگت اور اسلام آباد کے مابین سفرکے دوران پائلٹ کے منہ سے کئی مرتبہ یہ الفاظ سنے ہیں کہ ’’ خراب موسم کے باعث پرواز ناہموارہورہی ہے مسافروں سے گزارش ہے کہ اپنا سیٹ بلٹ باندھ لیجئے‘‘۔ میں نے دوران سفر پرواز کی ناہمواری کے باعث زوردار جھٹکے لگ جانے پر مسافروں کی چیخیں نکلتے ہوئے بھی دیکھا ہے ۔ اس علاوہ اے ٹی آر طیاروں میں روزمرہ کے جھٹکے، تنگ نما سیٹیں، کھانے پینے کی ناقص اشیاء اور مسافروں کے سامان کی گمشدگی بھی روز کا معمول ہے۔

ایک اور المیہ یہ ہے کہ ان علاقوں کے لئے سوائے پی آئی اے کے کسی اور نجی کمپنی کی جانب سے کوئی سروس فراہم نہیں کی جارہی ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لئے گلگت بلتستان کی عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس کی جانب سے سوموٹو ایکشن بھی لیا گیا مگر اس کے باوجودنجی کمپنیاں گلگت اور سکردو کے لئے فضائی سروس شروع کرنے سے گریزاں ہیں۔ لہذا یہاں کے عوام کا دارومدار صرف اور صرف پی آئی اے کی فضائی سروس پر ہی رہ گیا ہے۔ ایسے میں پی آئی اے کی جانب سے سب سے ناکارہ طیاروں کو اس قدردشوارگزار راستے پرروانہ کرنے سے طیاروں کو حادثہ نہیں تو اور کیا ہوگا؟

حالانکہ زوالفقارعلی بھٹو کی جانب سے گلگت بلتستان کے عوام کے لئے دیگر اشیاء کی طرح پی آئی اے کے ٹکٹ پر بھی سبسڈی دینے کے

اعلان کے باوجود پی آئی اے انتظامیہ یہاں کے مسافروں سے کرایہ کی مدمیں منہ مانگی رقم وصول کرتی ہے اور بدلے میں کوئی ایسی سہولت نہیں دے پارہی ہے جس سے عوام مطمعئن ہوں ۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ جس طرح وفاقی حکومت کی جانب سے گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کے تعین میں عدم دلچسپی کا مظاہرہ کیاجارہا ہے اسی طرح وفاقی ادارے بھی خطے کے عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی میں لیت ولعل سے کام لے رہے ہیں۔ جس سے خطے کے عوام کی محرومیوں ومحکومیوں میں کمی کی بجائے مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

عوام کی ان محرومیوں کے ازلے اور مذید ازیتوں سے نجات کے لئے ان علاقوں کے لئے پی آئی اے کی خستہ حال اے ٹی ار طیاروں کی جگہ جدید پروازوں کا اجراء وقت کی اہم ضرورت ہے۔ جس کے لئے گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت بالخصوص وزیراعلیٰ حافظ حفیظ الرحمن یہ اہم مطالبہ وزیراعظم پاکستان کے سامنے پیش کرکے عوامی امنگوں کی ترجمانی کرسکتے ہیں۔

کیونکہ وفاقی حکومت کو پاکستان اور چین کے مابین چائینہ پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) منصوبے پر معاہدے کے بعد گلگت بلتستان کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہوچکا ہے ۔ وفاقی حکومت چاہے تو گلگت اور سکردو ایئرپورٹس کی فوری کشادگی کے لئے فنڈزمختص کرکے انہیں نا صرف ہرقسم کی قومی پروازوں کی لیڈنگ کے قابل بناسکتی ہے بلکہ فنڈز کی فراہمی میں کھلے ہاتھ رکھ کر ان ایئرپورٹس کو انٹرنیشنل ائیرپورٹس کا درجہ بھی دے سکتی ہے۔ کیونکہ آج یہ اندہناک حادثہ چترال سے واپسی پر پیش آیا ہے تو کل کو ( اللہ ناکرے) گلگت اور سکردو روٹس پر بھی پیش آسکتا ہے۔ اس صورت میں اس طرح کے حادثات کو اللہ تعالیٰ کی قدرت اورفنی خرابی کا شاخسانہ قراردیکرحکمرانوں کے بری الذمہ ہونے اور میڈیا پرشورمچاکرمیری ماں جیسی کمزوردل کے حامل لوگوں کی پریشانیوں میں اضافہ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button