کالمز

کپیٹن شہید تیمور علی کی یاد میں

تحریر:   امیرجان حقانیؔ

” میں پاک آرمی کو حولی آرمی(مقدس فوج) سمجھتا ہوں، دنیا بھر میں واحد پاکستانی فوج ہے جو نظریاتی فوج ہے۔ یہ مقدس فوج ملک و ملت کی سرحدوں کے ساتھ نظریات کی بھی حفاظت کرتی ہے۔ دنیا کے کسی بھی خطے میں اسلامی مقدسات بالخصوص حرمین شریفین کی حفاظت کے لیے اس مقدس فوج نے اول دستے کا کردار ادا کیا ہے۔میرا بیٹا تیمور علی نے ملک و ملت کی حفاظت کے لیے محاذ جنگ میں جان جان آفرین کے سپرد کی ہے۔ میں اللہ کا شکرگزار ہوں کہ اس نے بیٹے کی قربانی کو ملک و ملت کی حفاظت کا ذریعہ بنایا۔میرا ایک بیٹامعذور ہے جبکہ دوسرا دینی مدرسے میں تعلیم حاصل کرتا ہے۔موقع ملا تو میں ان کو بھی ملک و ملک کی حفاظت کے لیے محاذ جنگ پر روانہ کرونگا۔یہ بھی میرے لیے اعزاز کی بات ہے کہ میرے والد صاحب نے 1948ء میں پاک آرمی کے ساتھ گلگت بلتستان کی جنگ آزادی میں صف اول کا کردار ادا کیا”۔

قارئین! یہ الفاظ کیپٹن تیمورعلی شہید کے والد گرامی کے ہیں۔وہ میری آفس میں محترم کفایت دین صاحب کے ہمراہ ملاقات کے لیے تشریف لائے تھے۔ میں نے پیشگی معذرت کی کہ مجھے آپ کے پاس حاضر ہونا چاہیے تھا مگر آپ نے مجھ پر احسان کیا کہ یہاں تشریف لائے۔میرے لیے سعادت کی بات ہے کہ ایک شہید کے باپ سے ملاقات ہوئی۔ میں نے ان سے خصوصی اجازت لے کر کیپٹن تیمور علی(شہید) کے متعلق پوچھنا شروع کیا۔آئیں ! تیمور علی شہید کی زندگی پر ایک طائرانہ نظرڈالتے ہیں۔

تیمورعلی  یکم جنوری 1991ء کو ضلع استور کے گاوں ڈوئیاں میں پیدا ہوئے۔ان کے والد کا نام انعام اللہ خان ہے جو ڈوئیاں اسکول میں نائب ہیڈ ماسٹر ہیں۔ تیمور علی نے پرائمری تک کی تعلیم گلگت کے تعمیر نو (ریڈ فاونڈیشن)اسکول میں حاصل کی اور چھٹی کلاس سے ایف ایس سی تک کی تعلیم پبلک سکول اینڈ کالج جٹیال سے حاصل کی۔ 2009ء کو آرمی میں کمیشن اپلائی کیا اور کامیاب ہوئے۔ 23 اپریل 2009ء کوکاکول ملٹری اکیڈمی جوائن کیا اور  29 اپریل 2011 ءتک مسلسل دوسال ملٹری تربیت لے کر پاس آوٹ ہوئے۔منگلا بیس میں بطور سیکنڈ لفٹیننٹ دو ماہ گزارے۔اس کے بعد کیپٹن تیمورعلی  کوئٹہ پہنچے ۔ ان کا تعلق 8 این ایل آئی سے تھا۔ کوئٹہ میں ڈیڑھ سال آرمی کی مختلف ٹریننگوں میں گزارے پھر ان کی تشکیل وانا میں ہوئی۔ وانا اپریشن میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ملک دشمنوں کے دانت کھٹے کیے۔ کیپٹن تیمورعلی شہید کے یونٹ کی تشکیل 2014ء کے آواخر  میں کشمیرکوٹلی کے مقام تتہ  پانی سیکٹر میں ہوئی۔چونکہ کوٹلی تتہ پانی سیکٹر لائن آف کنڑول میں آتا ہے۔لائن آف کنٹرول میں حالات ہمیشہ کشیدہ رہتے ہیں۔ بھارت ہمیشہ انسانی حقوق کی پامالی کرتے ہوئے ہزاروں شہریوں کو شہید کرچکا ہے۔سال 2016ء میں بھی بھارت نے لائن آف کنڑول کے مختلف علاقوں میں بہت سے پاکستانی فوجوں اور کشمیری عوام کو شہید کیا۔ 23 نومبر کو بھی بھارت نے تتہ پانی سیکٹر میں بے خبری میں حملہ کیا جسے کئی انسانی جانوں کا نقصان ہوا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق بھارتی فوج کی جانب سے بٹل، کریلہ، شاہ کوٹ ، باگسر، تتہ پانی سیکٹرز پربلااشتعال فائرنگ کی گئی۔ مارٹرگولوں سے مقامی آبادی کو نشانہ بنایا گیا۔ کیرن سیکٹر میں ایک مکان پر گولہ لگنے سے ایک شخص شہید ہو گیا۔” اسی  فائرنگ سے شہید ہونے والوں میں کیپٹن تیمور علی، حوالدار مشتاق حسین، لانس نائیک غلام حسین شامل ہیں۔لاس نائیک غلام حسین کا تعلق گانچھے سے ،حوالدار مشتاق حسین کا تعلق پونیال سے ہے، یاسین کے  اور سپوت کیپٹن زاہد اس حملے میں شدید زخمی ہے۔ سی ایم ایچ روالپنڈی میں زیرعلاج ہے۔پھرنیلم میں مسافر بس پر حملہ بھی ایک اندوناک واقعہ ہے۔

یہ ستر سالہ مشاہدہ ہے کہ بھارت کنٹرول لائن پر سیز فائر معاہدے کی مسلسل خلاف ورزیوں اور سول آبادی کو نشانہ بنانے میں پیش پیش رہا ہے۔اور اس کے ناقابل تردید ثبوت پاکستان کے پاس موجود ہیں۔پاکستان کو اپنا موقف انتہائی جرات کے ساتھ سلامتی کونسل میں اٹھانا چاہیے۔اس میں دو رائے نہیں کہ دشمن کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملانے کے لیے پوری پاکستانی قوم یکسو ہے۔ قوم پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔تاریخ شاہد ہے کہ ایسےجارحانہ و ظالمانہ مواقعوں پر پوری پاکستانی قوم سیسہ پلائی دیوار بنی ہے۔

کیپٹن تیمور علی شہید کے والد صاحب کو اپنے بیٹے کی شہادت پر ذرہ برابر افسوس نہیں۔ وہ تو اس کی شہادت پر فخر کرتے ہیں۔ کیوں نہ فخر کریں، جس دین کا وہ متبع ہے اس دین میں تو شہادت کا بہت بڑا مقام ہے۔اسلام میں شہادت فی سبیل اللہ کا مقام نبوت و صدیقیت کے بعد سب سے بڑا ہے۔ یہ شہادت کسی مال و متاع اور جاہ وجلال کے لیے نہیں بلکہ شہداء اسلام نے اللہ رَبّ العزّت کی خوشنودی اوراعلاء کلمۃ اللہ  کے لئے اپنے خون سے اسلام کے سدا بہار چمن کوہمیشہ سیراب کیا۔ شہادت ایک ایسی زندگی ہے جس کو دوام اور ہمیشگی حاصل ہے۔ شہیدکا خون قوم کی حیات ہوتا ہے۔ جس کے ثمرات انسانی معاشرہ اور قوم ہمیشہ کے لیے حاصل کرتی ہے۔ اللہ رب العزت نے ایسی کامیاب موت کے متعلق ارشاد کیا ہے۔

         "بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی جانوں کو اور ان کے مالوں کو اس بات کے عوض میں خرید لیا ہے کہ ان کو جنت ملے گی، وہ لوگ اللہ تعالیٰ کی راہ میں لڑتے ہیں، جس میں قتل کرتے ہیں اور قتل کئے جاتے ہیں، اس پر سچا وعدہ کیا گیا ہے تورات میں اور اِنجیل میں اور قرآن میں، اور اللہ سے زیادہ اپنے عہد کو کون پورا کرنے والا ہے؟ تم لوگ اپنی اس بیع پر جس کا معاملہ تم نے ٹھہرایا ہے، خوشی مناوٴ، اور یہ ہی بڑی کامیابی ہے۔”(التوبہ111)

شہادت کے بدلے رب ذوالجلال ان شہداء کی عزت و تکریم کرتے ہیں اور دنیا و آخرت میں ان کی قدر و منزلت بڑھ جاتی ہے۔عرش الہی کے قرب میں ان کی قیام گاہیں ہوتیں ہیں۔ اور  جنت میں جب چاہیے جہاں چاہیے فری ہینڈ اجازت ہوتی ہے۔ اللہ کی طرف سے جنت الفردوس میں انجوائی کرنے کا گرین پاسپورٹ ملتا ہے۔ سیرت الرسول اور احادیث مبارکہ میں شہادت اور شہید کے بے تحاشہ فضائل ملتے ہیں۔

کیپٹن تیمور علی شہید کے والد نے جب اپنے لخت جگر کا تذکرہ شروع کیا تو ان کی آنکھوں میں مسرت کے دو آنسو بھی آگئے۔میرے ایک استفسار پر انہوں نے بتایا کہ ” تیمور علی انتہائی تابع دار بیٹا تھا۔ میں ان کو ڈانٹتا بھی تھا تو کبھی وہ خفگی کا اظہار نہیں کرتے۔ خاندانی معاملات بالخصوص نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے بھی بڑے فکر مند ہوا کرتے تھے۔اگست  2016ء میں تیمور کا نکاح ہوا تھا بہت جلد ان کی شادی ہونی تھی  مگر اللہ کو کچھ اور منظور تھا۔ہمیں بھی وہی منظور ہے جو منظور خدا ہے۔ تیمورعلی کے سینئر آفیسر ز اور  بڑے جرنیل صاحب نے بتایا کہ” تیمور علی ایک نڈر اور قابل آفیسر تھا، محاذ جنگ میں کئی معرکے انہوں نے جرات کے ساتھ سَر کیے تھے۔ تیمورکے پاس تمام فوجی صلاحتیں موجود تھی اور ایک پروفیشنل سپاہی تھے”۔

باپ اپنے شہید بیٹے کی قبر کے سرہانے بیٹھا ہوا ہے

قارئین: تیمور علی ایک ایسے خاندان سے تعلق رکھتا ہے جس نے قیام پاکستان کے آغاز سے اب تک ملک و ملت کے لیے قربانیاں دی ہیں۔ ان کے دادا بھی پاک آرمی کے حوالدار ریٹائرڈ ہیں ،1948ء کی جنگ آزادی گلگت بلتستان میں حصہ لیا۔ جنگ آزادی گلگت بلتستان کے بہت بڑے مجاہد مولانا عبدالمنان بھی تیمور علی کی فیملی سے تعلق رکھتے ہیں۔رشتے میں ان کے دادا لگتے ہیں۔ عبدالمنان صاحب کی پوری جنگی قربانیاں منصہ شہود پر آچکی ہیں۔ میں نے بھی ان سے انٹرویو کرکے تفصیل سےلکھا ہے۔ تیمور علی کی پانچ بہنیں ہیں۔ان کا ایک بھائی معذور ہے اور ایک بھائی جامعہ فریدیہ اسلام آباد میں دینی علوم کی تکمیل کررہا ہے۔ کتنی خوشگوار حیرت کی بات ہے کہ ایک بھائی محاذ جنگ میں ملک کی جغرافیائی حفاظت پر مامور تھا اور بالآخر جان جان آفریں کے سپر د کردیا جبکہ چھوٹا بھائی ایک معروف دینی ادارے میں نظریہ ملک وملت کی آبیاری کرنے میں مصروف ہے۔کتنے ظالم ہیں نا وہ لوگ جو مدرسہ اور ریاست کو مدمقابل لاکھڑا کرتے ہیں اوردشمن گردانتے ہیں۔ میں ایسے سینکڑوں خاندانوں کو جانتا ہوں جن کے سپوتوں نے محاذ جنگ میں اپنی بہادری کے جھنڈے گارڈ دیے ، ان کی پوری فیملی دین دار اور علوم اسلامیہ سے منسلک ہے۔اس وقت ملک و ملت کی بڑی ضرورت ہے کہ اس طرح کی خلیجوں کو ختم کیا جائے اور نفرت کے انگاروں کے بجائے محبت کے پھول کِھلائے جائیں۔

کیپٹن تیمور علی شہید کو گلگت کے معروف قبرستان نزد عیدہ گاہ اہل سنت کے پاس دفنایا گیا۔23 نومبر کو ان کی تدفین ہوئی نماز جنازہ میں آرمی کے ساتھ سول انتظامیہ کے تمام عہدہ داروں اور گورنر گلگت بلتستان نے شرکت کی۔عوام وخواص اور علمائے کرام کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ ریڈیوپاکستان اور پی ٹی وی کے ساتھ اخبارات اور ٹی وی چینلز نے بھی بھرپور کوریج دی۔اور خصوصی نشریات کی۔ ان کے والد ،کفایت دین اور برادرم اسلام الرحمان کے ساتھ ان کی آخری آرام گاہ میں حاضری کا شرف بھی حاصل ہوا۔ اور فاتحہ پڑھی۔انتہائی خوشی تب حاصل ہوئی کہ  قوم کے ساتھ آرمی کے آفیسران اور ادارہ  نے بھی تیمور علی پر عقید ت و محبت کے پھول نچھاور کیے۔ آرمی چیف اور چیئرمین چیف آف آرمی اسٹاف کے ساتھ ، این ایل آئی کمانڈر،  ایف سی این اے کمانڈر، 10 کور کمانڈر نے بھی تیمور علی شہید کی آخری آرام گاہ پر اپنے نام کی تختیوں کے ساتھ عزت وتکریم کے گلدستے چڑھائے ہیں۔ اور سیلوٹ کیے۔اور میجر جنرل امجد علی خان خٹک نے اسپیشل اپنے نام کا گلدستہ تیمورعلی کی قبر پر سجایا ہے۔

عقیدت و محبت کے یہ تمام گلدستے اب تک تیمور علی کی آرام گاہ پر خوشبو پھیلارہے ہیں۔ لاریب آرمی اپنے نوجوانوں اور آفیسروں کی زندگی اور موت کے بعد بھی دل سے قدر کرتی ہے۔ تب تو اس ملک میں آرمی واحد ادارہ ہے جو مکمل اسٹیبلشڈ ہے اور اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ خدمت میں مصروف بھی ہے۔ بہر صورت دلی دعا ہے کہ تیمورعلی کو اللہ کروٹ کروٹ سکون دے اور پوری فیملی کو صبرجمیل دے۔ اللہ ہم سب کا حامی وناصر ہو۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button