تحریر: دردانہ شیر
چین کے درالحکومت بیجنگ میں پاک چین اقتصادی راہداری کے حوالے سے منعقدہ کمیٹی برائے سی پیک کے اجلاس میں گلگت بلتستان کے وزیر اعلی حافظ حفیظ الرحمان نے اپنے صوبے گلگت بلتستان کی بہترین نمائندگی کرتے ہوئے علاقے کے لئے تاریخ کے چار اہم منصوبوں جن کی تعمیر پر اربوں روپے کی لاگت آئیگی ان منصوبوں کو منظور کراونے میں کامیاب ہوگئے جوکہ علاقے کے لئے ایک بہت ہی بڑی خبر ہے۔ جن اہم منصوبوں کو سی پیک میں شامل کر دیا گیا ہے ان میں سب سے اہم منصوبہ پھنڈر 80میگاواٹ پاورپراجیکٹ، 100میگاواٹ چھلمس داس پراجیکٹ، سپیشل اکنامک زون گلگت اور دیامر بھاشا ڈیم ہے جبکہ وزیر اعلی گلگت بلتستان کی اپنے صوبے کی بھر پور نمائندگی کے بعد اب یہ امید بھی پیدا ہوئی ہے کہ گلگت بلتستان کے اہم شاہراہوں جن میں استور مظفر آباد روڈ ، گلگت سکردو روڈ، گلگت چترال شاہراہ، بابوسر ٹنل کو بھی سی پیک میں شامل کر دیا جائے گا۔
پاکستان مسلم لیگ کی گلگت بلتستان میں حکومت بنے اب ڈیڑھ سال ہوگئے ہیں ان ڈیڑھ سالوں میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت پر اپوزشن کی جو سب سے بڑی تنقید ہوئی وہ سی پیک میں گلگت بلتستان کو اس کا حصہ نہ ملنا تھا۔ چونکہ گلگت بلتستان سی پیک کا دورزہ ہے اگر اس صوبے کو نظر انداز کرکے دوسرے صوبوں کو نوازا جاتا تو اس سے یہاں کے عوام کا احتجاج اور اپوزیشن کا حکومت کے خلاف موقف ہر لحاظ سے درست تھا۔ مگر وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمان نے بیجنگ کانفرنس میں اپنے خطے کی جس انداز میں نمائندگی کی ہے وہ قابل تعریف ہے۔
اس وقت گلگت بلتستان کا سب سے اہم مسلہ توانائی کا ہے۔ صوبے میں بجلی کی طویل ترین لوڈ شیڈ نگ کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔ پورے صوبے میں اگر دیکھا جائے تو پانچ درجن سے زائد پاور ہاوس موجود ہیں جن کی تعمیر پر اربوں روپے کی خطیر رقم خرچ کیا جاچکا ہے۔ کہیں پاور ہاوس کی مشین چل رہی ہے تو پانی کی کمی ہے اور کہیں مشین ٹھیک چل بھی رہا ہے تو عوام کی ضروریات کے مطابق بجلی فراہم نہیں کرتا۔ کہیں مشین خراب ہے تو ان کو ٹھیک کرنے کے لئے اس مشین کو ورکشاپ میں داخل کرا دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ایک درجن کے قریب پاور پراجیکٹ کی تعمیر کا کام جاری ہے اور کئی پاور ہاوسسز کئی سالوں سے التوا کا شکار ہیں۔ بعض ایسے منصوبے بھی ہیں جن پر اربوں روپے کی رقم خرچ ہونے کے باوجود یہ پراجیکٹ تاحال پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکے ہیں،
وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمان نے گلگت میں ایڈیٹرز فورم اور خطے کے سینئر کالم نگاروں سے ملاقات کے دوران یہ یقین دلایا تھا کہ اس سال کے آخر تک گلگت اور غذر میں بجلی کے تین پاور پراجیکٹ مکمل ہونگے جن میں نلتر 14میگاواٹ غذر میں تھوئی اور سہلی ہرنگ پاور پراجیکٹ شامل ہیں۔ اخباری اطلاعات کے مطابق نلتر پاور پراجیکٹ آپریشنل ہونے سے قبل ہی پانی رسنے لگا ہے۔ اس اہم منصوبے کی تعمیر پر دوارب روپے کی لاگت ائی ہے۔ اگر واقعی ایسا ہے تو حکومت کو اس پراجیکٹ کےذمہ داران کے خلاف سخت سے سخت کارروائی عمل میں لایا جانا چاہیے ۔ چونکہ گلگت کے عوام کو اگر نلتر 14میگاواٹ سے بجلی کی فراہمی ہوتی تو گلگت میں بجلی کی لوڈشیڈنگ پر بڑی حد تک کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔
دوسری طرف غذر ہے جہاں بجلی کی طویل ترین لوڈشیڈنگ نے علاقے کے عوام کو پریشان کرکے رکھ دیا ہے۔ وزیراعلی نے اس سال کے آخر تک تھوئی پاور پراجیکٹ اور سہلی ہرنگ پاور پراجیکٹ کی تعمیر مکمل ہونے اور علاقے میں لوڈ شیڈنگ ختم ہونے کی نوید سنائی تھی مگر ایسا نہیں ہوسکا۔ ان دونوں منصوبوں کو مکمل ہونے میں مزید چھ سے سات ماہ لگ سکتے ہیں اور غذر کے عوام کو ان منصوبوں کے مکمل ہونے تک لوڈشیڈنگ کے تکیلف دہ مراحل سے گزرنا پڑے گا ۔ اس حوالے سے وزیراعلی کی بھی یہ ذ مہ داری بنتی ہے کہ وہ برقیات کے ان حکام سےضرور پوچھے جنہوں نے گلگت اور غذر کے تین پاور پراجیکٹ اس سال مکمل کرنے کا وعدہ کیا تھا مگر انھوں نے صرف وعدہ ہی کیا مگر عملی طور پر ان کی کارکردگی ایک سوالیہ نشان بن کر رہ گئی ہے۔
وزیر اعلی گلگت بلتستان نے اس دوران یہ بھی بتایا تھا کہ غذر کی تاریخ کا بڑا منصوبہ سلپی آر سی سی پل بھی اس سال کےآخر میں پایہ تکمیل کو پہنچ جائے گا بلکہ ان کے دورہ غذر کے موقع پر محکمہ تعمیرات کے ذمہ داران نے اس سال کے آخر تک اس پل کوآمدورفت کے لئے کھولنے کا وعدہ کیا تھا مگر وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو۔ پل کے تعمیر مکمل نہ ہوسکا اور اس پل کے مکمل ہونے کے لئے بھی مزید چھ ماہ کا وقت درکار ہوگا۔ وزیراعلی نے یہ اعلان بھی ان آفیسران کے وعدے پر کیا تھا جنہوں نے اس سال کے آخرتک ان منصوبوں کو مکمل کرانے کی یقین دہانی کرائی تھی۔ اس حوالے سے وزیراعلی کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ایسے آفیسران کے خلاف کارروائی عمل میں لائے جو ان کو کام مکمل کرنا کاٹارگٹ کچھ اور دیتے ہیں اور کام مکمل مزید کئی عرصہ بعد ہوجاتاہے۔
بہر حال اب وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمان مبارک باد کا مستحق ہیں کہ سی پیک میں گلگت بلتستان کے چار اہم منصوبوں کو شامل کرانے میں کامیاب ہوگئے جس کے بعد مخالفین کے منہ ضرور بند ہونگے۔ اگر پھنڈر80میگاواٹ اور چھلمیس داس100میگاواٹ پاور پراجیکٹ مکمل ہوتے ہیں تو اس سے گلگت بلتستان میں توانائی کی کمی پر مکمل طور پر قابو پایا جاسکے گا اور گلگت بلتستان میں بجلی کی وافر پیداوار ہوگی تو نہ صرف یہاں بڑے بڑے کارخانے لگ جائینگے بلکہ یہ پسماندہ خطہ ترقی کے میدان میںن داخل ہوگا۔ آخر میں وزیراعلی گلگت بلتستان کا ایک بار پھر شکریہ کہ انھوں نے چین جاکر اپنے اس پسماندہ خطے کی بھر پور نمائندگی کی اور گلگت بلتستان کے عوام کی امنگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے اہم منصوبوں کو سی پیک میں شامل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
Like this:
Like Loading...
Related
آپ کی رائے
comments
Back to top button
well written,