تبدیلی سوال اور مکالمے سے ہی ممکن ہے
سبط حسن
ہم ساری زندگی مختلف باتیں سیکھتے رہتے ہیں۔ زندگی کے مختلف کام کرنے کے لیے مسلسل سیکھتے رہنا لازمی ہے۔ اگر سیکھی ہوئی(Learned) کوئی بات کا رآمد نہ رہے تو ہم اسے بھول کر(De-learn) نئی باتیں سیکھ لیتے ہیں یا سیکھی ہوئی باتوں میں بہتری لے آتے ہیں۔ ہم پڑھ کر یا سن کر ہی نہیں سیکھتے، اپنے اور دوسروں کے تجربات سے بھی دیکھ سکتے ہیں۔ کچھ باتیں محض گفتگو کے لیے رہ جاتی ہیں تو کچھ صحیح معنوں میں ہماری زندگی کے بارے میں نقطہ نظر(World Outlook) بناتی ہیں۔
انسان ہونے کا جو ہر(Essence) یہ ہے کہ انسان اپنے اردگرد ہونے والے واقعات او رکیفیات پر حیران ہوتا ہے۔ حیران ہوتا ہے تو اس کے ذہن میں سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ یہ سب کیونکر ہوا۔ سوال پیدا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ سوال کرنے والے کے ذہن میں تجسس(Curiousity) پیدا ہو رہا ہے۔ سوال پیدا ہو گا تو اس کے جوابات ڈھونڈنے کے لیے کوشش کرنا ہو گی۔ جواب ڈھونڈنے کا مطلب دراصل ان وجوہات کی نشاندہی کرنا اور انھیں سمجھنا ہے، جو حیرت کا باعث بنتی ہیں۔ سوالوں کے جواب ڈھونڈنا ایک عمل (Process) ہے۔ اس عمل کی ابتدامفروضوں (Hypothesis) سے ہوتی ہے۔ مفروضوں کے پرکھنے کے لیے تجربات(Experiments) کیے جاتے ہیں۔ تجربات سے نئے حقائق(Facts) حاصل ہوتے ہیں، جو مفروضوں کو ردّیاثابت کرتے ہیں۔ اگر مفروضے ثابت ہو جائیں تو وہ اصول(Principle) کا درجہ اختیار کر لیتے ہیں۔ اصول ہمیشہ کے لیے نہیں ہوتے، انھیں کبھی بھی نئے حقائق کی روشنی میں بدلا جا سکتا ہے۔ اس عمل میں انسان کی مرضی (Will) کو بنیادی محرک(Stimulus) کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ یہی عمل آخر کار ایک شعور (Consciousness) پیدا کرتا ہے۔ یہ شعور انسان کو اس کے ہونے کی سب سے اعلیٰ خوبی عطا کرتا ہے۔ یہ خوبی ہے آزاد ہونا( Independent) اور ہر معاملے میں خود مختار(Autonomous) رہنا۔
بھینس اپنی زندگی کے معاملے میں خود مختار نہیں۔ اس لیے کہ وہ اپنے اردگرد ہونے والے واقعات اور کیفیات پر سوال نہیں اٹھا سکتی۔ سوال اس لیے پیدا نہیں ہوتے، کیونکہ وہ ان معاملات پر حیران ہونے کی حس نہیں رکھتی۔ یہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ اسے سدھا(Tame) لیا گیا۔ وہ ہزاروں سالوں سے کھونٹے پر بندھی، چارہ کھاتی ہے، دودھ دیتی ہے اور نسل بڑھاتی رہتی ہے۔ وہ اپنی دنیا اور خود اپنے آپ کو نہیں بدل سکتی۔
جب تک انسان نے سوال اٹھانے کی عادت نہ ڈالی، اسے بھی سدھا لیا گیا۔ اس عرصے میں انسان اپنے ماحول کو بدلنے کے لیے کچھ نہ کر سکا۔ انسان نے اب تک فطرت (Nature) کی کیفیات پر سوال اٹھائے۔ (اگرچہ انسانوں کے بنائے ہوئے اداروں پر سوال اٹھانے کا معاملہ خاصا کمزور ہے) اس نے سوال کرنے اور اس سے شروع ہونے والے عمل(مشاہدہ(Observation)۔۔۔۔۔ فروضے(Hypothesis) ۔۔۔مفروضوں کی جانچ(Testing Hypothesis)۔۔۔ اصول بنانا(Drawing Principles) کے عمل سے گزرکر نیا علم پیدا کیا۔ اسی نئے علم سے اس نے فطرت کے ساتھ د وستی کر کے(In Harmony with nature ) وسائل پیدا کیے۔ اپنی زندگی میں آسانیاں پیدا کیں اور پھر فطرت میں ترمیم کر کے نئی نئی چیزیں بنائیں۔ اس سارے عمل میں انسان کا اپنے آپ پر اعتماد بڑھا۔ نئے وسائل اور نئی چیزوں کے استعمال سے اس کے ماحول میں تبدیلیاں بھی آئیں۔ اس طرح اس کا اپنے اور اپنی دنیا کے بارے میں شعور بدلا۔
تبدیلی کے سفر میں ہم پہیے کی مثال لیتے ہیں۔ ہزاروں سال پہلے کسی شخص نے مشاہدہ کیا کہ ڈھلان پر گول پتھر یا گول تنالڑھکتا ہے، چپٹی چیزیں نہیں لڑھکتیں۔ اس مشاہدے سے مفروضہ پیدا ہوا کہ آیا تنے کا چھوٹا حصہ بھی لڑھکے گا یا نہیں۔ اگر گول تنوں کے اوپر بھاری پتھر رکھ کر اسے دھکیلا جائے تو گول تنے حرکت کریں گے؟ جب تجربہ کیا گیا تو مفروضے درست ثابت ہوئے بلکہ نئی معلومات بھی ملیں۔ یہ وہ ابتدائی تجربات تھے جن کی بنیاد پر پہیے کی ایجاد ہوئی۔ پہیے سے گاڑی بنی اور اسے کھینچنے کے لیے بیل یاگدھے کی طاقت استعمال کی گئی۔ بیل گاڑی پر کھیت سے اجناس یا دیگر اشیاء گھر تک لانے میں آسانی ہو گئی۔ پھر قریبی دیہات کے درمیان غلے اور دیگر اشیاء کا تبادلہ ہونے لگا۔ صرف اشیا کا تبادلہ ہی نہیں، انسانوں میں میل جول بڑھنے لگا۔ تجارت ہونے لگی اور اس سے وہ چیزیں ملنے لگیں جو مقامی طو رپر میسر نہ تھیں۔
پہیہ پہلے بیل نے چلایا پھر گھوڑا چلانے لگا۔ گھوڑا گاڑی کی رفتار بیل گاڑی کے مقابلے میں زیادہ تھی۔ اس سے فاصلے مزید کم ہو گئے۔ وقت پر انسان کی گرفت بہتر ہو گئی۔ کم وقت میں زیادہ سے زیادہ کام ہونے لگے۔ رفتار ، زندگی کا بنیادی معیار(Standard) قرار دے دی گئی۔ زیادہ رفتار والوں نے کم رفتاروالوں کو غلام بنا لیا۔ موہنجودڑو کی تہذیب کی بنیاد بیل کی رفتار کے ساتھ بندھی تھی۔ آریاؤں نے انھیں اپنے قابو میں کر لیا کیونکہ ان کی رفتار کا معیار گھوڑا تھا۔ جب پہیہ بھاپ کی مدد سے گھمایا گیا تو کام کرنے کی رفتار میں واضح فرق آ گیا۔ دنوں کے فاصلے اور کام گھنٹوں میں ہونے لگے۔ اور جب پہیہ ، تیل یا بجلی سے گھوما تو رفتار حیرت ناک ہوگئی۔ سالوں کے فاصلے اور کام ، گھنٹوں میں ہونے لگے۔ زندگی کے معاملات علاقائی سطح سے اٹھ کر آفاقی ہونے لگے۔ ان میں پیچیدگی اور گہرائی آنے لگی۔ پیچیدہ سوالات پیدا ہونے لگے۔ اس ہزاروں سال پر پھیلے پہیے کے ارتقا کے دوران انسان نے اپنے ماحول کو بدلا۔ استعمال کرنے والی چیزوں کو بدلا اور خود اس کا اپنے بارے میں شعور بھی بدل گیا۔ اس عمل کی بنیاد صرف اور صرف سوال کرنے پر تھی۔
متحرک رہنے سے ہی سیکھنے کا عمل جاری رہتا ہے۔ سیکھنے کی تحریک کی بنیاد تجسس اور سوال کرنے پر ہوتی ہے۔ سیکھنے میں تین باتیں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ معلومات (Facts)، ہنر(Skills) اور رویے(Attitudes)۔ مثال کے طور پر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے محلے میں درخت اور پودے لگائے جائیں۔صرف لگائیں نہ جائیں وہ پھول پھل کر محلے کو سرسبز بنادیں۔ یہی مقاصد حاصل کرنے کے لیے ہم محلے والوں کو سکھانا چاہتے ہیں۔ ان مقاصد کو پانے کے لیے سب سے پہلے پودوں سے متعلق معلومات دی جائیں گی۔ مثلاً یہ کہ پودوں کی موجودگی میں فضا میں آکسیجن کا توازن برقرار رہتا ہے۔ آکسیجن ہی وہ گیس ہے جس سے ہمارا جسم کام کرتا ہے۔ پودوں سے سردیوں اور گرمیوں میں درجہ حرارت کو معتدل رکھنے میں مددملتی ہے۔ پودوں پر پھول کھلتے ہیں۔ پھولوں کو دیکھ کر ہمارے اندر کا توازن ٹھیک رہتا ہے۔ اگر پھلدار درخت ہوں گے تو طرح طرح کے پھل مل سکتے ہیں۔ معلومات لے لینا کافی نہیں ، ان کو سمجھنا ہی اصل بات ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کسی کے پاس بہت سی معلومات ہوں ۔ وہ ان کو دہراتا تو رہے مگر وہ انھیں سمجھتا نہ ہو۔ سیکھنا دراصل سمجھنا ہے۔ اور سمجھنے کے لیے سوال اٹھانا ضروری ہے۔ بلکہ اگر کوئی شخص سوال اٹھارہا ہو تو اس کا مطلب ہے کہ وہ بات کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ سوال نہ اٹھانے کا ایک مطلب عدم دلچسپی بھی ہو سکتا ہے۔
معلومات کو سمجھے بغیر، سیکھنے کا عمل شروع ہی نہیں ہوتا۔ سمجھنے سے قبولیت(Acceptance) اور دلچسپی(Interest) پیدا ہوتی ہے۔ قبولیت ہی رویوں کی تبدیلی اور باعمل رویوں(Praxis) کی بنیاد ہوتی ہے۔ سوالوں کے بغیر اکٹھا کیا ہوا علم صرف گفتگو (Verbalism) ہی رہ جاتا ہے۔ یہ صرف باتوں سے شروع ہوتا ہے اور وہیں ختم ہو جاتا ہے۔
جب محلے والے مکمل طور پر پودوں کی، ان کی زندگی، بلکہ ان کے بچوں کی زندگی میں افادیت اور اثرکو سمجھ لیں گے تو پھر سوال پیدا ہو گا کہ پودوں کو کیسے لگایا جائے۔ واضح رہے کہ پودوں کو لگانے کے لیے آمادگی (Readiness) حقائق کی قبولیت اور سمجھ کے بغیر ممکن نہیں۔ پودوں کو لگانے کے مختلف ہنر(Skills) سیکھنے ہوں گے۔ پودوں کی پنیری کیسے بناتے ہیں؟زرخیز مٹی کیسی ہوتی ہے؟کھادوں کی پرکھ اوزاروں کا استعمال پانی دینے کے طریقے ،پودے لگانے کے طریقے اور حفاظت کے طریقوں کا تعلق ہنر سے ہے۔ اگرچہ ہنر سیکھنے میں بھی معلومات حاصل کرنا ضروری ہیں تاہم ان کی اصل افادیت ہاتھ سے کام کرنے اور عملی اقدام اٹھانے پر رہتی ہے۔
محلے کے لوگوں کو پودوں کی افادیت کا پتا چل گیا۔ وہ پودے لگانے پر تیار ہو گئے۔ انھوں نے پودے لگانے کے لیے ضروری ہنر بھی سیکھ لیے۔ پودے لگ گئے۔ سب لوگ خوش ہو گئے کہ اتنا بڑا کام مکمل ہو گیا۔ کیا اس مرحلے پر پودوں کے پھولنے پھلنے اور بڑا ہونے کی ضمانت دی جا سکتی ہے۔ کیا محلے والوں کی یہ خواہش پوری ہو جائے گی؟ ہر گز نہیں! پودے کو پالنے کا مرحلہ ابھی باقی ہے۔ پودوں کو پالنے کے لیے ایک رویہ(Attitude) بھی چاہیے۔ یہ رویہ بچوں کی طرح پودوں کی حفاظت اور ان سے پیار کرنا۔ پیار ایسا ہو کہ ادھر پودے میں ایک کو نپل پھوٹے اور دوسری کونپل آپ کے دل میں نکل آئے۔ ادھر ایک پھول کھلے تو اُدھر آپ کے اندر خوشبو مہکنے لگے۔ اگر یہ رویہ عملی طور پر متحرک ہو جائے تو سمجھ لیجئے کہ پودے نہ صرف پل جائیں گے۔ وہ آپ کی نسلوں تک زندہ سلامت رہیں گے۔
سوال کرنا ہی سیکھنے کے لیے بنیادی محرک ہے۔ معلومات کا سیکھنا ہو، ہنروں کا ستعمال ہو یارویوں کو عمل میں لانا سب کے لیے سوال کرنا لازم ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو سیکھی گئی باتیں یا شعورنا مکمل رہ جائیں گے۔ چونکہ سیکھنے کا یہ عمل ایک فرد میں ہوتا ہے اس لیے وہ فردشدید شعوری عارضے میں مبتلا ہو جائے گا۔ مثال کے طور پر ایک سائنس دان اپنی تحقیق کے دوران معلومات اور متعلقہ ہنروں پر سوال اٹھاتا ہے۔ وہ اس عمل میں پیچیدہ سے پیچیدہ معاملات کو حل کرتا ہواایک مہلک ہتھیار ایجاد کر لیتا ہے۔ وہ اس ہتھیار کے فارمولے کو ایک کثیررقم کے بدلے کسی فرم کو بیچ دیتا ہے۔ فرم بھاری تعداد میں ان ہتھیاروں کو تیار کر کے مختلف ممالک کو بیچنا شروع کر دیتی ہے۔ اس سے سائنس دان کو کامیاب انسان تو کہا جا سکتا ہے مگر وہ اچھا انسان ہر گز نہیں ۔ اسی طرح ایک کامیاب دکاندار، صنعت کاریاسیاست دان معلومات اور ہنر سیکھنے پر بیشک سوال کرتے ہوں مگر رویوں کے معاملے پر سوال نہیں اٹھاتے تو وہ ہر گز اچھے انسان نہیں ہوں گے۔ رویے انسانوں اور فطرت اور انسانوں کو کس طرح لیتے ہیں۔ اگر والدین اپنے بچوں کی تربیت کامیاب افراد کے طور پر کریں تو اس کے لیے وہ دوسروں کو محض مفاد حاصل کرنے کا وسیلہ جانیں گے۔ اگرچہ طریقہ عمومی رویہ بن جائے تو اجتماعی ضروریات کا خیال کرنے والا کوئی نہ رہے گا۔ رویوں پر سوال اٹھیں گے تو اجتماعی ضرورت کے تحت نئے رویے پیدا ہوں گے۔ ان میں صحت مندترمیم کا سلسلہ جاری رہے گا ۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ مادی ضروریات میں تبدیلی کا سلسلہ تو قائم رہے اور رویے دقیانوسی ہوں۔
یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کے دیکھنے کی ابتدامعلومات ہنر کی بجائے رویے سے ہو۔ اگر رویے میں سوال کرنا پیش نظر رہے تو معلومات اور ہنر خودبخود آجائیں گے۔ اس کی بہترین مثال ماں کی ہے، جس کا پہلا بچہ پیدا ہوا ہو۔ الہڑ پنا ہو یا جوانی ہر دوصورتوں میں پہلے بچے کی پیدائش اور اس کے بعد بچے کی تربیت اس کی صفائی ستھرائی، صحت اور کھانے پینے کے بارے میں عورتوں کو کم ہی معلوم ہوتا ہے۔ بچوں کی نگہداشت کے بارے میں وہ جو کچھ بھی سیکھتی ہیں، اس کی بنیاد ممتا کے پیار بھرے رویے پر ہوتی ہے ماں کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا بچہ سکھی رہے، اس کی نشوونما اچھی ہو، بیمار ی سے بچا رہے۔ وہ سوال کر کے معلومات بھی حاصل کر لیتی ہے اور ہنر بھی سیکھ لیتی ہے۔ چند ماہ کے بعد ماہ بچے کے رونے کے لہجے سے ہی اندازہ لگا لیتی ہے کہ بچے کو اب کس چیز کی ضرورت ہے۔
گزشتہ چھ، سات ہزار سال میں جو معاشی نظام چلتا رہا، اس پر کچھ لوگوں کا قبضہ تھا، وسائل کو اپنی دسترس میں رکھنے کے لیے انھوں نے سیکھنے سکھانے کا ایک مخصوص نظام بھی استوار کیا۔ یہ نظام اپنی تاثیر کے لحاظ سے سدھا نے کا نظام کہا جائے تو زیادہ درست ہو گا۔ اس نظام میں سیکھنے کی بنیاد خوف خلش اور جزا سزا پر تھی۔ مبالغے کی بات نہیں، اس سارے دور میں انسانوں کو اسی جگہ پر رکھا گیا، جہاں مویشیوں کو رکھ کر استعمال کیا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ انسان کے انسان ہونے ، اس کے جیتے جاگتے باشعور فرد ہونے اور سب سے بڑھ کر خود مختار ہونے کا تصور اس دور میں موجود نہ تھا۔ اصل معاملہ انسانوں کی جسمانی اور محدود ذہنی صلاحیتوں کو استعمال کرنا تھا۔ اُسی طرح جیسے مویشیوں کی مختلف صلاحیتوں کو استعمال کیا جاتا ہے مویشیوں کو تشدد یا مخصوص مشقوں کے ذریعے سدھا یا جاتا تھا۔ مویشی جب سیکھ جاتے تو پھر انھیں محض اشارہ کرنے کی ضرورت ہوتی تھی اور وہ کام میں جُٹ جاتے تھے۔ انسانوں اور مویشیوں کے مابین سدھانے کا فرق دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ انسانوں سے بات ہو سکتی ہے، جانوروں سے نہیں۔
انسان کا فطری جوہران دوباتوں میں ہی ہے۔ انسان اپنی ذات کو لے کر سوچنے یا تصوراتی سطح پر بھی عدم تحفظ کا شکار ہو جاتا ہے۔ جانور صرف جسمانی عدم تحفظ پر چونکتے ہیں۔ انسانوں میں تصور بُننے کی صلاحیت ہے۔ صرف صلاحیت ہی نہیں وہ خیالوں میں بنی شبیہوں کو اصل (Real) بھی مان لیتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں انسانوں کو مشق کروانے یا تشدد کی ایسی حاجت نہیں رہتی۔ انھیں باتوں، خیالوں(Ideas)، تصورات(Concepts) اور شبیہوں کے ذریعے سدھایا جا سکتا تھا۔ سدھانے کی بنیاد جزا (Reward) یا سزا(Punishment) یہ تھی اور یہ دونوں بھی باتیں ہی تھیں۔۔۔خیالی تھیں۔ یہ باتیں محض تصورات تھے اور شبیہوں میں بُنے ہوئے تھے۔ سدھانے کو مخصوص فرائض سے منسلک کر دیا گیا۔ فرائض کی ادائیگی میں بنیادی اصول یہ تھا۔ اگر تم یہ کرو گے تو جزایہ ہو گی، اگر تم یہ نہیں کرو گے تو سزایہ ہو گی۔۔۔ کرنے یا نہ کرنے کا معاملہ ایک اور الجھن میں باندھ دیا گیا۔ یہ الجھن خوف(Fear) یا خلش (Guilt) سے وابستہ تھی۔ اگر کوئی شخص اپنی فطری، سوال کرنے والی صلاحیت کا شکار بن جاتا تو وہ فوراً اس الجھن میں جا گرتا۔ اسے باتوں، خیالوں، تصوارت اور شبیہوں میں خوف اور خلش نظر آنے لگتی۔ اس طرح فوراً توبہ تائب کر کے واپس سدھانے کی تعلیم کا اسیر ہو جاتا۔ اس طرح سدھائے جانے اور فرائض کے دائرے کو محفوظ رکھنے کا بھی بندوبست ہو جاتا۔
بادشاہوں کے دور سے لے کر آج کے صارفانہ مزاج (Consumerism) تک علم اور ہنروں میں ارتقا تو ضرور ہوا مگررویوں کوبدستور اسی پرانے سدھانے کے سانچے میں بند رکھا گیا۔ پہلے اس کو بدلنے کی ایسی ضرورت اس لیے نہ تھی کہ معاشی نظام اپنی آخری حدود تک پہنچ کر رک گیا تھا۔ اس میں مزید ترقی یا تبدیلی کی گنجائش نہ تھی۔ فرد کی زندگی اسی نظام کے مستقل سانچوں میں گزرتی تھی۔ یہی اس نظام کا مقصد بھی تھا۔ انفرادی خواہش ، خود مختاری یا آزادی کی کوئی گنجائش نہ تھی۔ لباس، کام، شادی ، بچوں کی تربیت، میل جول کے آداب اور یہاں تک کہ فردکیا سوچتا ہے، سب کچھ پہلے طے تھا۔ اجتماعی رویے، ان کی حدود اور مقاصد بھی طے تھے۔ گاؤں کا لوہار، تصور کریں ساری زندگی مخصوص علم، ہنر اور رویوں میں قید زندگی گزاردیتا تھا۔ علاقے کا زمیندار بھی مخصوص قسم کے علم، ہنر او ررویے سیکھتا تھا اور انھی کے تحت وہ کامیابی سے زندگی گزارتا تھا۔ یہی حال کسان کا تھا، گھر یلو عورت کا تھا اور وغیرہ وغیرہ۔
صنعتی انقلاب کے بعد، جب زیادہ سے زیادہ چیزوں کے استعمال کی ثقافت پیدا ہوئی تو پھر بھی سدھانے کے قدیم طریقے کی اساسی صورت (Fundamental Form) میں کچھ فرق نہ آیا ۔ پہلے فرائض کو لے کر جزا، سزا اور خوف ، خلش پیدا ہوتی تھی اب بھی صورت وہی ہے صرف فرائض کی نوعیت بدل گئی ہے۔ پہلے ان سب کا فائدہ بادشاہ کو ہوتا تھا، اب سرمایہ کار کو ہوتا ہے۔ اگر فیشن کی لہر کے مطابق آپ کے پاس چیزیں نہیں ہیں تو آپ کو خلش ہو گی کہ شاید لوگوں میں آپ کی قبولیت(Acceptance) نہ رہے۔ اس سے خوف پیدا ہو گا اور آپ مزید محنت کر کے چیزوں کو حاصل کر لیں گے۔ اگر آپ کے پاس فیشن کی لہر اور اسٹائل کے مطابق چیزیں ہیں تو آپ جزایافتہ محسوس کریں گے۔ اگر کوشش کے باوجود بھی چیزیں میسر نہ ہو سکیں تو کوشش کرنے والا اپنے آپ کو سزایافتہ محسوس کرے گا۔ یہ سارا چکر، باتوں، خیالوں، تصورات اور شبیہوں میں قید رہتا ہے۔ اس کی بنیاد بھی اسی قدیم اصول پر ہوتی ہے۔۔’’اگر ایسا ہو جائے تو پھر یہ ہو جائے گا۔۔۔‘‘
پرانے دور سے لے کر آج تک ذلت اور قلت (Scarcity) کی حدود طے ہیں۔ لوگ ان دونوں کے ساتھ زندہ رہنا سیکھ لیتے ہیں۔ قلت کی درجہ بدرجہ تقسیم میں اکثر یتی آبادی کم سے کم پرگزارہ کرتی ہے۔ انھیں جو میسر ہے، اس سے کم ہونے کا مطلب مرنا ہی ہوتا ہے۔ اگر تبدیلی کی گنجائش نہ ہو تو اسی کم سے کم پر گزارہ کر لینا ہی عقل مندی ہے۔ ایسے میں اگرتبدیلی کی گنجائش بھی نہ ہو تو بے بسی میں زندہ رہنا سیکھنا پڑتا ہے۔ ایسی بے بسی میں جزا سزا اورخوف خلش کی بنیاد پر سیکھا گیا شعور ہی کا آمدرہتا ہے۔ یہ جاری حالات کو ان کی اصل صورت میں قبول کر لینے بلکہ اس کے ساتھ نبھا کرنے کی صلاحیت پیدا کرتا ہے۔
انسانی اداروں کی تاریخ چھ سات ہزار سال پرانی ہے اور اس میں فطرت کے بھید کو سمجھ کر، اس میں ترامیم کر کے مادی ترقی ممکن ہوئی۔ انسانوں کے درمیان تعلق اور خاص طور پر حکمران طبقوں اور عوام کے تعلق کو انسان اور مویشیوں کے تعلق کے برابر ہی سمجھنا چاہیے۔ اس لحاظ سے انسانی تہذیب اب تک بہت ابتدائی مرحلے پر ہے۔ انسانی برابری اور احترام پر مبنی اداروں کو بننے میں ابھی بہت وقت لگے گا۔ وجہ یہ ہے کہ اس کا ارتقااب تک پورے طور پر شروع ہی نہیں ہوا۔ اس کے لیے جو نیایا متبادل علم ،ہنر اور خاص طور پر رویے چاہییں، ان کو سیکھنے سکھانے کا بندوبست اب تک میسر ہی نہیں۔ سیکھنے سکھانے کے نئے انداز میں بنیادی معاملات یہ ہو سکتے ہیں۔
1۔ہم ایک خاص مقام وقت پر پیدا ہوتے ہیں اور کچھ عرصہ گزار کر ایک خاص مقام وقت پر دنیا سے چلے جاتے ہیں۔ جب پیدا ہوتے ہیں تو بنی بنائی سجی سجائی اور متحرک دنیا ہمارے لیے موجود ہوتی ہے۔ اس دنیا کو بنانے میں ہم سے پہلے آنے والوں نے نسل درنسل اپنا حصہ ڈالا۔ مادی سطح پر اصل کردار فطرت کا ہے۔ فطرت کے ساتھ ہم سے پہلے آنے والوں کے رشتے کا ایک ارتقاء تھا جو اشیا اور سہولتوں کی صورت میں ہم تک پہنچا۔ اسی طرح رویوں کا بھی ارتقاء ہوا۔ علم اور ہنر جب رویوں کے ساتھ ملے تو شعور بنا۔ شعور کا بھی مادی ترقی کی طرح ارتقا ہوا اور ہمارے دنیا میں آنے پر یہ ہمیں موصول ہو گیا۔ یوں سمجھ لیں کہ ہم جس وقت دنیا میں آئے تو صرف ایک جسم تھے۔ اس میں شعور اس وقت پیدا ہوا، جب اسے تاریخی تسلسل سے جوڑ دیا گیا۔
تاریخی تسلسل میں درجہ بدرجہ ایک نسل نے اپنے سے پہلے آنے والی نسل کے کام کو آگے بڑھایا۔ تاریخی تسلسل میں ہر کڑی، آنے والی ترقی کی بنیاد ہوتی ہے۔ اگر بیل گاڑی ہو گی تو گھوڑے کو جوتنے کی گنجائش پیدا ہو گی۔ گنجائش کا تعلق ضرورت اور خواہش کے ساتھ منسلک ہے۔ اگر سورج کی روشنی کم ہو یا سارے دن میں کام پورانہ ہو سکے تو رات کو روشن کرنے کی کوشش کا سوال پیدا ہو گا ۔ یعنی یہ کہ کوئی کام تبھی ارتقا کے عمل میں شامل ہوتا ہے جب اس کی ضرورت ہو اور اس کے پیچھے ممکنات کی کڑی موجود بھی ہو۔
انسان اپنے’ ہونے‘(Being) کے اعتبار سے تاریخی ہے۔ تاریخی ہونے کے ساتھ ساتھ وہ پوری انسانیت کا بھی نمائندہ ہوتا ہے، کیونکہ تاریخی ارتقاء دراصل انسانی جدوجہد اور شعوری وجود کا ارتقا ہے۔ اگر کوئی سمجھے کہ وہ اسی تسلسل سے الگ آسمانوں سے اچانک اتر آیا ہے۔ اس کا آگے پیچھے انسانی تسلسل سے کوئی تعلق نہیں۔ اس شعور سے الگ ہونے کا مطلب اپنے آپ کو بھینس یا گدھے کی سطح پر لانا ہے۔ بھینس او رگدھے کے پاس تاریخی شعور نہیں ہوتا۔ ایسے میں وہ شخص صرف وہی کام کرے گا جو جانور کر سکتا ہے۔ کھانا پینا، کام کرنا اور نسل بڑھانا۔ جب انسانوں سے تعلق ہی نہ رہے گا تو ایسے شخص کے رویوں میں د وسروں کے لیے گنجائش نہ ہو گی۔ دوسروں کے لیے گنجائش صرف تاریخی شعور سے ہی ممکن ہے۔ ایسا شخص یا ایسے اشخاص پر مشتمل گروہ اجتماعی مفاد کا نہیں سوچ سکتے۔ ایسے مفادات جن سے تمام انسانوں کا بھلا ہو۔
2 ۔جو شخص اپنے آپ کو تاریخی شعور سے منسلک کر لے، نہ صرف منسلک کر لے بلکہ اس کو اپنے اندر جذب بھی کر لے ، ایسا شخص اپنے آپ کو ایک عام آدمی (Ordinary Man) سمجھنا شروع کر دے گا۔ اسی طرح جیسے دریا میں قطرے کا وجود ہی دریا کے ہونے کی بنیاد ہے۔ قطرہ اپنا وجودگم کر کے دریا کے دھارے کو طاقت عطا کرتا ہے۔ عام آدمی کا شعور جب متحرک ہو گا تو اس کی شکل یہ ہو گی:
1۔ میں اپنی ذاتی شناخت اور عمل میں دوسروں کے حوالے اور وابستگی کے بغیر کچھ نہیں میں دوسروں سے سیکھتا ہوں اور وہی میرا پہلا اور آخری حوالہ ہیں۔
2۔ میری آرزو ہے کہ میں جب اس دنیا سے جاؤں تو اپنے لوگوں کے لیے ایک بہتر زندگی یا زندگی کے امکان چھوڑ جاؤں۔
3۔ میرے لیے ملکیت یا احساس ملکیت کی جائے وابستگی (Belonging) اور احساس وابستگی( Sense of Belonging) اہم محرک زندگی ہے۔ میری خوشی اور لطف یہی ہے کہ تخلیقی سطح پر انسانوں سے وابستہ رہوں۔
4۔ مجھے انسانی شعور کا ادراک چاہیے اور اس کے لیے مجھے ہر لحظہ انسانوں سے وابستہ رہنا ہو گا ایسے میں ہونے کا تاریخی شعور ہر لحظہ میرے ساتھ رہے گا۔
5۔ میں انسانوں کے لیے جو کچھ بھی کر رہا ہوں، وہ سخاوت نہیں، میرے انسان ہونے کا ثبوت ہے۔ میں نسلِ انسانی سے ہوں۔ مجھے اپنے آپ کو انسان ثابت کرنے کے لیے انسانوں کے ارتقا سے وابستگی درکار ہے۔
6۔انسان ہونے کے شعور کو حاصل کرنے کے لیے میں ہر وقت سیکھنے اور تبدیل ہونے کے لیے تیار ہوں ۔ مجھے اپنی علمیت اور رائے پر کوئی گھمنڈ نہیں۔
اس وقت ہم جس تاریخی شعور کی منزل پر رہ رہے ہیں، اس میں تبدیلی کی ضرورت کا احساس اور خواہش موجود ہے۔ زندگیاں ایک الجھن میں قید ہیں اور تبدیلی چاہتی ہیں۔ تبدیلی کا ایک امکان یہ ہے کہ پہلے زمانوں کی طرح اوپر سے تبدیلی آئے اور آپ اسے قبول کر کے اپنے آپ کو بدل لیں۔ ایسی تبدیلی کا حتمی مفاد اوپر والوں کے حق میں جائے گا۔ اگر تبدیلی کے عمل کا حصہ بن جائیں تو آپ کی مرضی اور ضرورتوں کے مطابق تبدیلی کے آجانے کے امکانات زیادہ ہوں۔ چونکہ آپ تبدیلی کے عمل میں حصے دار ہوں گے، آپ میں خود اعتمادی آئے گی۔ ضروری نہیں کہ تبدیلی کے سفر کے پہلے پڑاؤپر آنے والی تبدیلیاں آپ کی خواہش سے مطابقت رکھتی ہوں۔ اصل رویہ یہ ہے کہ تبدیلی کا عمل چلتا رہے۔ ہماری زندگیوں میں نہ سہی ممکن ہے کہ ہم جیسے ہمارے بعد آنے والوں کی زندگی میں بہتری نمایاں ہو جائے۔ اگر وہاں بھی نہیں ہوتی تو کم از کم تاریخ اور انسانی نسل کے ارتقا تبدیلی کی ایک مستقل لہر مسلسل چلتی رہے ہم جو کچھ کر سکتے ہیں، کرڈالیں، کم از کم ہم یہ تو محسوس کرسکتے ہیں کہ تاریخی ارتقا کی جو منزل ہمارے پاس آئی ہم نے اپنے انسان ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے اس میں انسانوں کی بہتری کے لیے ترمیم کی کوشش کر ڈالی۔ اگر یہ ہو جائے تو اس منزل سے رخصت ہونا کیسا خوشگوار احساس ہو گا۔