احمد سلیم سلیمی
حلقہ ارباب ذوق (حاذ ) سے جڑے ایک عشرے سے زیادہ کا عرصہ ہوا ہے۔پہلی کتاب”شکست آرزو”(2002 ) کی اشاعت کے دوران ہی دکھی صاحب کے طفیل ،حاذ کی ادبی محافل میں شرکت کا موقع ملا۔چونکہ ذوق کے سلسلے اسی سے جا کر ملتے تھے اس لیے یہ ملنا ملانا،خود میرے ادبی ذوق کی تسکین کا ساماں بنا رہا۔
اس طویل عرصے میں بڑے نشیب و فراز دیکھے۔گلگت کے بدلتے رویے اور عوامی ذوق کے مختلف رجحانات حاذ کی ادبی فعالیت پر اثرانداز ہوتے رہے۔حکام بالا کی کبھی مہربانیاں رہیں۔۔۔۔اور اکثر قدر ناشناسیاں۔۔۔
کبھی اس کی مقبولیت پر مذہبی اور سیاسی کثافتیں یلغار کرتی رہیں۔ اسے اپنی اپنی طرف کھینچنے کی پھرتیاں دکھائی جاتی رہیں۔۔مگر حاذ کا حصار ایسا مضبوط رہا کہ اسے توڑ ا نہ جاسکا۔
ضیا صاحب، تاج صاحب، دکھی صاحب، طارق صاحب، حفیظ شاکر صاحب، نسیم صاحب، نظیم دیا صاحب اس قافلہ درد کے میر کارواں تھے۔ان کا فن،ان کی سوچ اور ان کا کردار ،اس قافلے کی زندگی تھی،اور اس کی توانائی۔۔۔
پھر اس قافلے میں اور بھی رہ روان شوق آتے گئے۔۔۔اشتیاق یاد،عبدالکریم کریمی ،شاہجہان مظفر، حور شاہ حر،آصف علی آصف،فاروق قیصر،تہذیب برچہ،نزیر حسین نزیر ،عباس صابر،عاجز نگری،توصیف حسین، ناصر نصیر،عباس تابش جیسے نوآموز شعرا قافلہ حاذ میں شریک ہوئے۔وقت کی مسافتیں طے کرتے رہے اور فن کی پختگی اور داد و تحسین کی منازل طے کرتے رہے۔ آج ان کا فن اس قابل ہے کہ فنی،فکری اور تخلیقی معیارات پر پورا اترتا ہے۔
مگر یہ منزل نہیں۔۔۔فاسٹ میڈیا کی چکا چوند میں باوقار مقام اور فنی کمال حاصل کرنے کے لیے ابھی بہت محنت کی ضرورت ہے۔
یہ میرا یقین اور تجربہ ہے کہ محنت شوق اور لگن ،کسی بھی شعبے میں کمال کے لیے لازم ہیں۔دوچار لفظ جوڑ کر شعر کہنے سے یا چند غزلیں اور مضامین لکھ کر صاحب کتاب بننے سے مقبول شاعر اور ادیب نہیں بنا جا سکتا۔اس کے لیے خون جگر جلانے کی ضرورت ہوتی ہے۔جو ایسا کرتے ہیں یعنی فن کو اپنا جنون سمجھتے ہیں۔۔۔اور اس میں کمال حاصل کرنا اپنی منزل سمجھتے ہیں۔پھر وہ مقبول عام ہوتے ہیں اور طبعی عمر سے آگے جیتے ہیں۔
دوستو!حاذ کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ سماجی،فکری،سیاسی اور مذہبی بگاڑ کے دور میں شعر و ادب کا علم بلند رکھا ہے۔شعری رویوں اور ادبی رجحانات کے فروغ کے لیے مقدور بھر کوششیں کرتا رہا ہے۔مذکور بالا شعرا جو کبھی نوآموز تھے اب پختہ گو شاعر بنے ہیں تو اس کے پیچھے بھی حاذ کی انہی محفلوں کے اثرات شامل ہیں ۔
یہ حاذ کی ایک قابل قدر کوشش ہے کہ مہینے میں ایک آدھ دفعہ ہی سہی ۔۔۔۔مگر شعرا کو اکٹھا کر کے شعر و ادب کے چراغ روشن کرتا ہے ۔۔اور معاشرے میں موجود بے سکونی،بے مروتی اور بے دلی کے اندھیرے مٹانے کی کوشش کرتا ہے ۔
2016 سال گزر گیا۔اور کیسا گزرا۔۔۔حاذ کے لیے یہ جیسے باہر سے تڑکا دار اور اندر سے پھیکا پھیکا ساگزرا۔۔۔مشاعرے تو ہوتے رہے مگر شاعروں تک محدود۔۔۔۔اکثر گنے چنے شاعر شریک محفل ہوتے رہے۔چائے اور سگریٹ کے دھویں میں شعر پڑھتے ،اک ذرا ہنس بول کر مہینے بھر کی گھٹن سے نجات حاصل کرتے رہے۔پھر نئے مشاعرے کے لیے نئی طرح دے کر جدا ہوتے رہے۔اللہ اللہ خیر صلا ۔۔۔!
آج بھی 2016 کا آخری مشاعرہ ہوا۔وہی ریویریا کا ہال،وہی مخصوص شعرا ،وہی خوش زوق سامعین کی کمی۔۔۔۔اور وہی ایک سا احساس۔۔۔
الگ بات یہ رہی کہ پروفیسر ظفر شاکر چار مہینے امریکہ گزار کے آئے تھے۔وہ شریک محفل رہے۔میجر انور شریف صاحب اس محفل میں پہلی بار تشریف فرما تھے۔ان دونوں نے بھی اپنا کلام سنایا۔مہمان خصوصی کی حیثیت سے گفتگو بھی کی۔
اب نیا سال آگیا ہے۔اب حاذ کے بڑوں کو کچھ نیا کرنا ہوگا۔میڈیا گزیدہ عوام کو پھر سے شعر و ادب اور کتب سے جوڑنے کے لیے روایتی بے دلی اور بے ذوقی سے نکلنا ہوگا۔حاذ کے دائرہ کار کو پھیلانا ہوگا۔مشاعرہ صرف شعرا کے لیے نہ ہو بلکہ خوش ذوق عوام بھی اس میں شریک ہوں۔ حاذ یقینا مالی مسائل کا شکار رہتا ہے۔۔۔سرکاری اور سماجی حلقے بھی اس طرف متوجہ ہوں۔
وزیر اعلی نے بارہا حلقے کی پذیرائی اور ادب نوازی کی بات کی ہے۔ابھی تک اس پر عمل کی نوبت نہیں آئی ہے۔طویل عرصے سے حاذ کے لیے دفتر کا خواب پورا نہیں ہوا ہے۔حاذ کا نمائندہ ادبی مجلہ ابھی تک مشوروں اور باتوں سے آگے نہیں بڑھا ہے ۔۔۔بہت سے شعرا اور ادبا کی کتب،وسائل کی کمی سے منظر عام پہ نہیں آئی ہیں۔۔۔
ان سب کےلیے اب حاذ کو بہت کچھ کرنا ہوگا۔۔۔۔
امید ہے نیا سال ۔۔۔۔۔گزرے سالوں سے کچھ نیا ہوگا۔
Like this:
Like Loading...
Related
آپ کی رائے
comments
Back to top button