کالمز

شرارتی لڑکا اور شیر کی کہانی

ہمیں بچپن کا وہ قصہ یا د ہے جس میں بتایا جاتا تھا کہ ” ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک گاؤں میں ایک شرارتی لڑکا رہتا تھا۔ وہ روز اپنی بکریاں چرانے کے لئے قریبی پہاڑی پر لے جاتا تھا۔ ایک دن پہاڑی پر بیٹھے بیٹھے ان کو ایک شرارت سوجھی۔شرارتی لڑکا اپنے پورے زور سے چلانے لگا۔ شیر آیا شیر آیا شیر آیا! ان کی آواز گاؤں والوں تک پہنچنے کی دیر تھی ۔اتنے میں گاؤں کے مرد و زن ، جوان اور بڑھے سب ، جس کے ہاتھ جو لگا اٹھا کر پہاڑی کی طرف لپکے۔ کسی کے ہاتھ میں ڈنڈا تھا تو کسی کے ہاتھ میں کلہاڑی ،سب کے سب ہانپتے کانپتے پہاڑی کے اوپر پہنچ گئے تاکہ شیر کا مقابلہ کیا جاسکے اور لڑکے کو شیر کے چنگل سے چھڑایا جاسکے۔پہاڑی کے اوپر پہنچ کر کیا دیکھتے ہیں،شرارتی لڑا کا ایک پتھر پر بیٹھ کر گاؤں والوں کی بیوقوفی پر ہنس رہا ہے ۔گاؤں والے سمجھ گئے کہ یہ لڑکے کی شرارت تھی ۔ گاؤں کے بزرگ ، خواتین ، بچے اور جوان سب اس کو برا بھلا کہتے ہوئے واپس گاؤں کی طرف لوٹ آئے۔

اس واقعے کو کافی عرصہ بیت چکا تھا۔ ایک دن پھر اس شرارتی لڑکے نے زور زور سے چلانا شروع کیا ۔ شیر آیا شیر آیا شیر آیا! چونکہ گاؤں والوں کوپچھلا واقع یاد تھا اس لئے وہ ٹس سے مس نہیں ہوئے ۔ الٹا انہوں نے شرارتی لڑکے کو برا بھلا کہا اور اپنے معمول کے کام میں مشغول ہوگئے۔ اس دفعہ شرارت نہیں تھی بلکہ حقیقت میں شیر پہاڑی کے اوپر آچکا تھا ۔ شرارتی لڑکے کو بچانے کے لئے گاؤ ں سے کوئی نہیں آیا تھا اس لئے شیر نے اطیمنان سے اپنا کام کیا اور شرارتی لڑکے کو چیر پھاڑ کر کھا گیا اور ڈکار لیکر چلا گیا۔ اسی شام شرارتی لڑکا گاؤں واپس نہیں آیا ۔ رات کو جب لوگ روشنیاں ہاتھوں میں اٹھا کر پہاڑی پر پہنچ کر دیکھا تو خون میں لت پت شرارتی لڑکے کے کپڑوں کے علاوہ ان کو کچھ نہیں ملا۔ ” اس کہانی کا اصل سبق اس زمانے کے استاد ہمیں یہ بتاتے تھے کہ شرارت کا انجام برا ہوتا ہے۔

ہمیں یہ واقع اس وقت یاد آیا جب گذشتہ دنوں گلگت بلتستان کی سرکار نے غذر کے عوام کو یہ اطلا ع دی کہ فیضان نامی دھشت گرد نے غذر کی عبادت گاہوں پر حملے کی منصوبہ بندی کر لی ہے لہذا اپنا بندوبست کیا جائے۔ اس خبر کے بعد غذر کے عوامی نمائندوں نے اخبارات میں دھواں دار بیانات بھی دئیے ۔ یہاں تک کہ ہمارے وزیر سیاحت فدا خان نے تو عوام سے اپیل کر ڈالی کہ وہ اپنا جائز اسلحہ تیار رکھیں۔ فدا خان کو شاید یاد نہیں کہ عوام نے مشرف کے دور میں جائز اسلحہ جمع کرانے کی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا اور گلگت بلتستان میں غذر وہ واحد ضلع تھاجہاں جائز اسلحہ ریکارڑ حد تک جمع ہوا تھا۔ بعد ازاں یاسین کے عوام نے کسی عوامی ایشو پر ہنگامہ آرائی کے دوران تھانہ سے اپنا کچھ اسلحہ زبردستی اٹھا لیا تھا جس پر ان کے خلاف مقدمات بھی درج کئے گئے تھے۔ کیونکہ عوام کا خیال تھا کہ ہمارا جائز اسلحہ بھی اٹھا کر ہمیں نہتا کیا جاتا ہے اور جب عوام کی حفاظت کی بات آتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ اپنا بندوبست خود کیا جائے۔

امن اور قانون کی پاسداری کے حوالے سے غذر کو مثالی قرار دیا جاتا رہا ہے ۔ مگر حکومت کی طرف سے اس خوبی کاصلہ عوام کو اس طرح دیا جاتا ہے کہ شیر آیا ! کے مصداق ان کو ڈرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ غذر میں دھشت گرد ی کی کارروائی کی اطلاع پہلی دفعہ نہیں دی گئی ہے اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ ایسی اطلاعات ملتی رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب عوامی سطح پر ایسی اطلاعات کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا ہے۔یہ بات ذہین میں رہے کہ دشمن ملک کے خلاف محاذ جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں ضلع غذر کی ہیں جس کی وجہ سے نشان حیدر جیسا اعزاز بھی اس ضلع کو حاصل ہوا ہے ۔ ایسے میں اس ضلع کے لوگ ایسی اطلاعات سے خوف زدہ نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ محاذ جنگ میں نہیں ڈرنے والے لوگ اپنے ہی گھر میں محض دھشت گردی کی ایک اطلاع پر خوف زدہ کیسے ہوسکتے ہیں؟

ایسے میں ایسی اطلاعات بلا آخر شرارتی بچے کی طرح خود حکومت کو مشکل میں ڈال سکتی ہیں کیونکہ عوام کو جب اندازہ ہوگا کہ ایسی اطلاعات کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے تو وہ آئندہ واقعی کوئی مشکل وقت بھی آجائے تو حکومت کی مدد کو تیار نہیں ہونگے۔ کیونکہ حکومتیں اور ریاستیں عوام سے مدد اس وقت طلب کرتی ہیں جب ملک حالت جنگ میں ہوں۔

غذر کی جغرافیائی اہمیت سے کوئی ذی شعور انکار نہیں کر سکتا ۔پامیرکے راستے چین ، یاسین اور بروغل کے راستے افغانستان اور کئی وسطی ایشیائی ریاستوں اور چترال کے راستے افغانستان ، سوات اور قبائلی علاقوں کے ساتھ غذر کی سر حدات ملتی ہیں۔ایسے میں اس علاقے کو مذاق نہیں سمجھنا چاہئے بلکہ اس کی حفاظت کے لئے بہتر منصوبہ بندی کرنی چاہئے۔

عوامی نمائندوں اور تنظیم اہلسنت والجماعت گلگت بلتستان کے سربراہ مولانا قاضی نثار صاحب کی طرف سے یہ کہنا کہ” مقامی سنی اور اسماعیلی آپس میں گہری رشتداریوں میں منسلک ہیں ۔ عوام میں کوئی اختلاف نہیں ہے، اداروں کو ا پنے معاملات ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے”۔ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حکومتی سطح پر غذر میں سیکورٹی صورتحال کا از سر نو جائزہ لینے اور متعلقہ اداروں کی کارکردگی کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔

سوال یہ ہے کہ عوام کے ٹیکس کے پیسوں پر پلنے والی حکومت اور اس کے اداروں کا کام عوام کو دھشت گردی کی اطلا ع دے کر ڈرانا ہے یا عوام کی حفاظت کا بندو بست کرنا ہے؟ اگر حکومت ایک اطلاع دیکر خود کو بری الزمہ قرار دیتی ہے تو یہ اس کی نااہلی کا بین ثبوت ہے۔ وگرنہ ضرورت اس امر کی ہے کہ دھشت گردی سے متعلق خفیہ اطلاعات ملتے ہی حکومت حرکت میں آجائے اور دھشت گردوں اور ان کے سہولت کارروں کو کیفر کردار تک پہنچائے۔غذر، کراچی یا شنگائی کی طرح گنجان آباد شہروں پر مشتمل کوئی ضلع نہیں ہے جہاں کوئی دھشت گرد چھپ جائے تو اس کو ڈھونڈنا مشکل ہوگا۔عام دہی آبادی میں لوگوں کو ایک دوسروں کے گھر وں میں شام کو کیا کھانا پکتا ہے اس کی بھی معلومات ہوتی ہیں۔ایسے میں دھشت گردوں کو پکڑنے کے بجائے دھشت گردی کی اطلاعات دیکر لوگوں کو ڈرانے کی کوشش ایک سنگین مذاق کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button