چترالکالمز

انصاف صحت کارڈ چشم کُشا خط

ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

ایلمنٹری ایجو کیشن کے حوالے سے چھپنے والے کالم میں ’’ صحت کا انصاف ‘‘ بھی مذ کور ہوا تھا ۔کالم شائع ہوتے ہی برقی خطو ط اور پیغامات کا سلسلہ شروع ہوا۔ میر ے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اس قدر ذبردست رد عمل آسکتا ہے۔ اس رد عمل کو فیڈ بیک کہیں تو بے جا نہ ہوگا۔ 43 پیغامات اور خطو ط میں سے صرف استا بون تحصیل موڑ کھو ضلع چترال کے کر یم خان کا خط یہاں نقل کیا جاتا ہے۔ آپ نے صحت کا انصاف لکھ کر میرے زخموں پر نمک ڈالنے کی کوشش کی۔ انصاف صحت کارڈ میر ے ہاتھ میں ہے۔ میرے بیٹے کا ایکسیڈنٹ ہوا، ہڈیوں کےآپریشن کا خرچہ 80 ہزار روپے ہے۔ میں 100 کلو میٹر چل کر گاؤں سے چترال پہنچا، وہاں سے 360 کلو میٹر سفر کر کے پشاور پہنچا۔ انصاف صحت کارڈ دکھا تا ہوں، جواب ملتا ہے پیسے لاؤ اس کارڈ سے کچھ بھی نہیں ملے گا۔ اس کارڈ پر وورین کا انجکشن اور کینولا بھی مجھے نہیں ملا۔ میں درخواست کرتا ہوں کہ میری طرح جسکو یہ کارڈ ملا ہے وہ ایک چوک میں جمع ہو کر سارے کارڈز نذر آتش کریں۔ نہ انشو رنس کمپنی ذمہ دار ی لیتی ہے، نہ ہسپتال والے کارڈ کو تسلیم کرتے ہیں۔ اس کو جیب میں رکھنے کا کیا فائد ہ ہے ؟ کریم خان کے کارڈ کی تصویر دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ملک کی مشہور انشورنس کمپنی کی طرف سے جاری ہوا ہے۔ یہ کارڈ جمیلہ بیگم زوجہ کریم خان کے نام پر ہے۔ بیٹے کے علاج میں یہ کارڈ کام نہیں دیتا۔

سردست یہ معلوم نہیں کہ خیبر پختونخوا میں غریبوں کے علاج معالجہ کا انتظام پر یمیم کے ذریعے انشورنس کمپنی کو ٹھیکے پر دینے کا سسٹم کس ملک سے نقل کیا گیا اور کیوں نقل کیا گیا ؟ اس بات کا بھی کسی کو چنداں علم نہیں کہ جن لوگوں کو صحت کارڈ جاری کئے گئے وہ پی ٹی آئی کے کس درجے کے کارکن ہیں ؟ اُن کی غربت کونا پنے کے لئے کونسا پیما نہ استعمال کیا گیا ار انشورنس کمپنی کے ساتھ معاہد ہ کرتے وقت کن کن چیزوں کو مد نظر رکھا گیا ؟ اگر ایکسیڈنٹ میں بازو اور ٹانگ تڑوا کر ہسپتال آنے والا غریب بچہ اس کارڈ کے ذریعے مفت علاج کا حقدار نہیں تو پھر اس کارڈ سے جمیلہ بیگم زوجہ کریم خان کو کیا ملے گا۔ قریبی علاقے کے اندر واقع بی ایج یو ہسپتال میں پرائم منسٹر پرائمر ی ہیلتھ کیئر انیشیٹو کے زیر اہتمام کیل پول اور پیرا سٹامول کی جو گولیاں آتی تھیں ان کو چھ ماہ پہلے بند کر دیا گیا ہے۔ ڈسٹرکت ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں کوئی بڑے ہسپتال میں انصاف کارڈ کوتسلیم نہیں کیا جاتا۔ انشورنس کمپنی اس کارڈ سے لاتعلقی کا اعلان کرتی ہے۔ کریم خان کا پڑوسی ایک غیر ملکی سفارت خانے میں ڈرائیور ہے ا س کے کارڈ پر کنبے کے 7 زیر کفالت افراد کا مفت علاج ہوتا ہے۔ ایک بیمار پر ڈھائی لاکھ روپے کاخرچ یہ کارڈ آسانی سے اُٹھاتا ہے۔ کینیڈا ،سویڈن ،چائنا اور بر طانیہ اور دیگر ممالک میں جہاں شہریوں کو سرکا ری طور پر مفت علا ج کی سہولت دی گئی ہے وہاں انشورنس کمپنی بیمار کے علا ج پر اُٹھنے والے اخراجات بر داشت کر تی ہے۔ سر کاری خزانے سے انشورنس کمپنی کو پریمیم ادا کیا جاتا ہے۔ کریم خان اخروٹ کے دو درخت ،ایک گائے اور دو بکریاں فروخت کر کے بیٹے کاعلاج کر سکتا ہے۔ اس کو دکھ اس بات کا ہے کہ حکومت نے مفت علاج والا کارڈ اس کے ہاتھوں میں دے کر ایک غریب شخص کو کس لئے دھوکا دیا۔ اگر انشورنس کمپنی کے ساتھ علاج کے اخراجات کا معاہدہ نہیں ہے تو پھر کارڈ تقسیم کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟وطن عزیز پاکستان میں مفت علاج کا ماڈل مو جود ہے۔ غیر ملکی سفارت خانوں کے ملازمین،اقوام متحدہ کے اداروں میں کام کرنے والے پاکستانی شہری اور بین لاقوامی این جی اوز کے ملازمین کو مفت علاج کی سہولت انشورنس کمپنیوں کے ذریعے دی گئی ہے۔

تحریک انصاف کے صوبائی حکومت کو انصاف کا رڈ کی سکیم جاری کرنے سے پہلے ہو م ورک کرنا چاہئے تھا۔ مختلف اداروں کی ہیلتھ انشورنش سکیموں کا جائزہ لینا چاہئے تھا اور مستحق شہریوں کو ایسا کارڈ دینا چاہئے تھا جو کنبے کے زیر کفا لت افراد کے علا ج معالجے خصوصاًہسپتا ل میں داخلہ اور آپریشن وغیرہ کے اخرا جات میں مدد گار ہو۔ اگر ایسے مواقع پر ہیلتھ انشورنس سکیم کا م نہیں دیتی تو پھر غریب شہری کی جیب میں کارڈ ہونے سے نہ ہونا بہتر ہے۔ وہ گھر سے پوری تیاری کر کے نکلتا ہے۔ اب یہ نہیں معلوم کہ صوبائی حکومت کو غلط طریقے سے ہیلتھ انشورنس سکیم جاری کرنے کی تجویز کس نے اور کیونکر یہ تجویز دی گئی ؟ صوبائی حکومت نے اس سکیم پر ماہرین کی رائے کیوں نہیں لی ؟ اس نا کام سکیم کو جاری کرنے سے پہلے ہوم ورک کیوں نہیں کیا۔ پا کستان تحریک انصاف کے ایم این اے اسد عمر اس کا م کا وسیع تجربہ رکھتا ہے، ان سے مشورہ کیوں نہیں لیا گیا۔ سکیم کو جاری کرنے سے ملک کی چھ بڑی انشورنس کمپنیوں سے تجاویز کیوں نہیں مانگی گئی۔ اس طرح مقابلے کی فضا میں کامیاب ہونے والی کمپنی شہریوں کو بہتر پیکیج دے سکتی تھی۔ صرف ایک کمپنی کے ساتھ خفیہ ڈیل کر نے کا کیا جواز تھا۔ 2018ء کے الیکشن سے پہلے پی ٹی آئی کی قیادت کو اس سکیم کا از سر نو جائزہ لینا چاہئے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button