کالمز

کیا انفرادیّت بچّوں کا پیدائشی حق ہے؟

جہاں آرا سیّد

والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کا بچہ سہل روزگار حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کا پسندیدہ فرد بھی بنے۔ لوگ اس پر اعتماد کریں او راسے سماجی قبولیت حاصل ہو۔ یہ محض مجرد خواہش ہی ثابت ہوتی ہے کیونکہ بچہ جس سماجی ماحول میں پلتا ہے وہ اسے قبولیت(Inclusion)نہیں دیتا۔ بچے کے ساتھ جس طرح کا برتاؤ کیا جاتا ہے، بچہ اسی کی بنیاد پر اپنی ذات کی شناخت(Self-Image) کرتا ہے۔ یہ برتاؤ اسے تکرار کے ساتھ سمجھاتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو سماجی دھارے سے خارج(Exclusion) ہی سمجھے۔ واضح رہے کہ بچے کیلئے وہ باتیں سچ نہیں ہوتیں جو اخلاقی تربیت کے نقطہ نظر سے اس کے ساتھ کی جاتی ہیں۔ بچہ ان رویوں کو سچ مانتا ہے جو ٹھوس شکل میں اسے درپیش ہوتے ہیں۔ دوسروں کے یہی رویے اس کیلئے مثال بنتے ہیں۔ یہی امثال اس کے شخصی رویوں کی اساس ہوتے ہیں اور انہی کے حوالے سے وہ اپنے اور دنیا کے درمیان تعلق بناتا ہے۔

جس ماحول میں بچے کی نشوونما کی جاتی ہے اس کا مکمل اختیار بڑوں کے پاس ہوتا ہے۔ بڑوں کو اختیار ہوتا ہے کہ وہ جب چاہیں بچے کو سزا دے سکتے ہیں۔ اسے دھمکا سکتے ہیں اور بچے کو حاصل مراعات چھین سکتے ہیں۔بڑوں کی اس دنیا میں جیل میں بند قیدیوں کے بعد سب سے زیادہ محبوس قیدی بچہ ہوتا ہے۔ اس کی زندگی پر قدغنوں کی تعداد سب سے زیادہ ہوتی ہے۔

بڑے، بچوں کی زندگی کو جبر کی ایک زنجیر میں باندھ دیتے ہیں۔ اس میں خوف، سزا اور محتاجی کے عناصر سب سے نمایاں ہوتے ہیں۔ اگرچہ بڑے، بچوں سے پیار کا دعویٰ کرتے ہیں مگر اس پیار کی ترسیل مشروط ہوتی ہے ۔بچے کو بڑوں کی طرف سے طے کردہ توقعات کے ایک گھن چکر سے گزرنا پڑتا ہے اور تب وہ پیار حاصل کرنے کے اہل ہوپاتے ہیں اگر تم کلاس میں فرسٹ آئے تو یہ ہوگا۔۔۔‘‘ اگر تم نے شرارت نہ کی تو اماں بہت خوش ہوگی‘‘ ’’اگر تم نے محلے کے بچوں کے ساتھ نہ کھیلا تو یہ ہوگا۔۔۔‘‘’’اگر تم ڈاکٹر بن جاؤ تو۔۔۔‘‘ وغیرہ وغیرہ۔

بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ بڑے، بچوں کے ساتھ جو سلوک روارکھتے ہیں، وہ اسے جبر نہیں مانتے بلکہ تربیت کا ایک طریقہ سمجھتے ہیں۔ ایسا ماننے کی اصل وجہ یہ ہے کہ بڑے خود بھی ایک جابرانہ ماحول کا شکار رہے ہیں۔ جبر،ان کی نفسیاتی گہرائی میں اپنی جگہ بناچکا ہے۔ ایسے میں ان کی شخصیت کی اساس جبر کے نظام سے جدا نہیں ہوسکتی۔ اگر جبر کی جزئیات کو ان کی شخصیت سے نکال دیا جائے توان کی شخصیت دھڑام سے نیچے آگرے گی۔ یہی وجہ ہے کہ مجبور بنانے کے ہنر اور رویے ایک نسل سے دوسری نسل تک بغیر کسی ترمیم کے منتقل ہوتے رہتے ہیں۔

بڑوں اور بچوں کے درمیان جو ربط ہوتا ہے اس میں یہ بات طے ہوتی ہے کہ سچائی کا حقیقی منبع وہ شخص ہے جو حاکمیت کی جگہ پر بیٹھا ہے۔ یعنی سچائی اپنے معروضی پس منظر اور کوائف کے حساب سے کوئی حیثیت نہیں رکھتی بلکہ سچائی صرف وہ ہے جو کوئی بڑا بیان کرتا ہے۔ بچہ اس سچائی کی شرح تو کرسکتا ہے مگر اس کی اصل پر سوال نہیں اٹھاسکتا۔سوال کرنا بچے کی فطرت ہے۔ سوال صرف اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب کسی چیز، واقعے یا فرد کے بارے میں جستجو ہو۔ اسی کی بنیاد پر بچہ اپنے اردگرد انسانی اور مادی ماحول سے تعلق قائم کرسکتا ہے۔ جب اسے سوال کرنے کی اجازت ہی نہ ہوگی تو بچہ اپنے طور پر آزادانہ تعلق بنانے کا اہل بھی نہ رہیگا۔ چونکہ بچہ مکمل طور پر اپنے بڑوں کے اختیار اور قبضے میں ہے، اس لئے اس کا اردگرد کے ماحول سے تعلق بالواسطہ ہوگا۔ اس کے ہر تعلق میں بنیادی حوالہ بڑے ہوتے ہیں اور ان کے نظریات پس منظر میں برقرار رہتے ہیں۔

بڑوں کی دنیا وسیع تر تناظر میں قبائلی مزاج رکھتی ہے۔ قبائلی مزاج بنیادی طور پر ایک مجہول نفسیاتی کیفیت ہے۔ اس میں اپنے قبیلے کے لوگوں کے علاوہ ساری دنیا اور لوگوں کو سماجی میل ملاپ کا اہل نہیں سمجھا جاتا۔ اس مزاج میں بنیادی پیمانہ ’ہم‘(we)اور وہ (Them)ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ہم یعنی اہل قبیلہ افضل ہے اور وہ کمتر ہیں۔ ہم خدا کی پسندیدہ قوم ہیں اور ہمیں جنت کی بشارت ہے، وہ ازل سے خدا کے ناپسندیدہ ہیں اور ان کاٹھکانہ جہنم کی آگ ہوگا۔ ہمارا خون خالص ہے اور ان کاخون ناپاک ہے۔’ہم اور وہ‘ پر مبنی تصورات دراصل قبیلے کی داخلی نفسیات کوطے کرتے ہیں۔ اسی کی بنیاد پر داخلی یگانگت برقرار رکھی جاتی ہے۔ بنیادی طور پر داخلی یگانگت کا انحصار ایک دشمن پر ہوتا ہے۔ دشمن ضروری نہیں کہ زندہ شکل میں ہو۔ اسے تصوراتی سطح پر گھڑلیا جاتا ہے۔ دشمن ہمیشہ چالاک طاقتور اور سازشی ہوتا ہے۔ اسی کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے اہل قبیلہ اپنے آپ کو عقل مند، ناقابل تسخیر اور مردانہ وار لڑنے والے مانتے ہیں۔ دشمن سے نفرت ضروری ہے اور نفرت کے اظہار کے رویوں کو بنیادی تربیتی نظام کا حصہ بنادیا جاتا ہے۔ بالفاظ دیگر بچوں کی تربیت کی بنیاد نفرت کرنے پر ہوتی ہے۔ قبائلی مزاج میں دشمن کی خصوصیات فرضی ہوتی ہے۔ انہیں مجرد شکل دے کر انسانی احساس سے عاری سمجھ لیاجاتا ہے۔ ایسے میں دشمن، گوشت پوست کا جتیا ہوا انسان نہیں رہتا۔ اس کی زندگی ٹھوس ہونے کی بجائے مجرد ہوجاتی ہے اور اس کا قتل کسی انسان کا قتل نہیں بلکہ محض مجرد دشمن کا قتل ہوتا ہے۔ دشمن کا قتل کسی طور قبیلے کے فرد کے قتل کے برابر نہیں سمجھا جاتا۔

قبائلی مزاج بے عقلی اور دلیل سے عاری ہوتا ہے۔ قبائلی فیصلوں یا تصورات، جن پر اہل قبیلہ اتراتے ہیں،کا تعلق صرف احساس برتری پر ہوتا ہے۔ اسی احساس تفاخر کی بنیاد پر دشمن کا تصور گھڑا جاتا ہے۔ اہل قبیلہ افضل کیوں ہیں، اس کی کوئی ٹھوس شہادت نہیں ہوتی۔ دوسروں کی کمتری کا بھی واضح جواز موجود نہیں ہوتا۔

قبیلے کے ہر فرد کے چہرے پر قبیلے کی ترجیحات کا ایک مکھوٹا ہوتا ہے۔ اس مکھوٹے سے اس قبیلے کی برتری اور دیگر حقائق واضح طور پر نظر آنے چاہئیں۔ اگر ایسا نہ ہوتو اس فرد کی قبیلے کے ساتھ وفاداری پر سوال اٹھنا شروع ہوجائیں گے۔

قبائلی تسلسل کو آباؤ اجداد کے شجروں اور خاندانی کارناموں کی تاریخ سے اجاگر کیا جاتا ہے۔ قبائلی زندگی میں جغرافیائی حدود کی اہمیت نہیں ہوتی۔ اسی لئے وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ایک دن وہ ساری دنیا کو فتح کرلیں گے۔

قبائلی زندگی کی بنیادی تحریک، بدلے کے ارادے پر ہوتی ہے اور اس کا تعلق اصولوں پر جدوجہد سے نہیں ہوتا۔ واضح رہے کہ بدلہ لینے کی خواہش میں انصاف یا قرار واقعی سزا سے کچھ زیادہ ہی مانگا جاتا ہے۔

قبائلی مزاج میں بنیادی نظریہ یہ ہوتا ہے کہ جوان کے قبیلے جیسا نہیں، وہ قابل اعتبارنہیں۔ اس میں دشمن بننے کی پوری صلاحیت موجود ہے۔ یہی نظریہ جب وسیع معاشرتی سطح پر نافذ کیا جاتا ہے تو بہت سے گروہوں کو معاشرتی دھارے سے خارج کردیا جاتا ہے۔ صنفی/جنس کے حوالے سے مرد اور عورت میں خلیج پیدا کردی جاتی ہے۔ ذات، نسل، رنگ، مذہبی عقائد، علاقائی تعصبات اور بین الاقوامی مفادات پر دشمن بنالیے جاتے ہیں۔ یہی نہیں معاشرے میں کمزور عناصر کو بھی محتاج سمجھ کر بوجھ سمجھ لیا جاتا ہے۔ ان میں جسمانی کمزوری یا نقائص والے لوگ، ذہنی طور پر بیمار لوگ او ربچے شامل ہیں۔

بڑوں کے رویے اور اصول وسیع ترقبائلی مزاج میں پیوست ہوتے ہیں۔ انہی کی بنیاد پر بچے کی ذہنی اسیری کی پرورش کی جاتی ہے۔ اسیری کے اس نصاب کی حیثیت خارجی اتھارٹی(Enternal Authority) کی ہوتی ہے۔ بچہ ہر وقت اپنے کسی بھی عمل کی تصدیق کیلئے اسی خارجی اتھارٹی کی طرف دیکھتا ہے بلکہ اس کا ضمیر بھی اسی خارجی اتھارٹی کے طے کردہ نصاب کا داخلی عکس ہوتا ہے۔

قدیم دور سے بچے کے بارے میں تصورات انسانی ہمدردی پر مبنی نہ تھے۔ اسے بدروحوں کا وسیلہ سمجھ کر جادوئی اور مذہبی رسومات میں قربان کردیا جاتا تھا۔ مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کے باعث زیادہ تربچے مرجاتے تھے۔ اس لئے والدین، شیرخوار بچوں پر پیار کی سرمایہ کاری نہ کرتے تھے۔ اگر بچہ ابتدائی سالوں میں موت سے بچ جاتا تو اسے معاش کا ذریعہ ہی سمجھا جاتا تھا۔ جب بچہ کوئی بھی کام کرنے کا اہل ہوجاتا تھا، اسے فوراً جوت دیا جاتا تھا۔ اصل بات یہ ہے کہ بڑوں میں بچے کے’’ بچپن ‘‘کا کوئی تصور نہ تھا۔ وہ بچے کو بالغ شخص کی ایک ادنیٰ شکل میں دیکھتے او راسی لحاظ سے اس کے ساتھ برتاؤ رکھتے تھے۔ جب بچے کی خصوصی حیثیت کا ادراک ہی نہ تھا تو اس کی ضروریات کے خیال رکھنے کا سوال ہی نہ پیدا ہوتا تھا۔ اس کی نشاندہی اس بات سے ہوتی ہے کہ بچوں کیلئے الگ سے کپڑے بنانے کا تصور چند سوسالوں سے پرانا نہیں۔

بچہ، بڑوں سے مختلف ہوتا ہے، بچپن اور لڑکپن میں بچہ جس طرح سوچتا ہے، جس طرح مختلف تاثرات اور مخصوص رویے اپناتا ہے، ان کی مخصوص سچائی ہوتی ہے۔ بچوں کی دنیا، بڑوں کی دنیا سیمختلف ہوتی ہے اور اس کو سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کو سمجھ کراورضروری کمک مہیا کرکے ہم بچے کو آزاد اور خودمختار فرد بناسکتے ہیں۔ یہ تمام تصورات اور ان پر ہونے والی تحقیقات گذشتہ ساٹھ /ستر سالوں میں سامنے آئی ہیں۔ انہی کی بنیادپر یہ خیال زور پکڑنے لگا کہ پرُامن اور باعقل معاشرہ بنانے کیلئے ضروری ہے کہ بچے کے’بچپنے‘ کا احترام کیا جائے۔

مذکورہ تحقیقات کا بنیادی خیال یہ ہے کہ بچے کو خارجی اتھارٹی کی گرفت سے آزاد کرکے اس میں داخلی (Internal Authority) کی پرورش کی جائے۔ اس طرح ایسا فرد یا مزاج بنانے کی گنجائش پیدا ہوجائیگی جو کسی خارجی اثر کے تحت اسیری قبول نہ کریگا۔ انسانوں کو استعمال کرنے کی بجائے پیار کی ثقافت کو آگے بڑھائیگا۔ فطرت سے دستیاب وسائل پر گھمنڈ کرنے کی بجائے انہیں نیاز مندی کے ساتھ استعمال کریگا۔ جیسے وہ ان کا نگہبان ہے اور ان کو آئندہ آنے والوں کی امانت کے طور پر سنبھال کررکھنا ہے۔ انانیت پر مبنی توہمات اور خیالات کی بجائے ناقدانہ شعور کو زندگی گزارنے کا وسیلہ بنائے گا۔

داخلی اتھارٹی انفرادیت پسندی یا سماج دشمن رویوں کا نام نہیں، جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہوتا ہے بلکہ اس کے موثر ہوجانے کے بعد کوئی بھی فرد اپنی انفرادیت کو برقرار رکھتے ہوئے اجتماعیت میں ضم ہوجاتا ہے ۔ اس کے اہم عناصر یہ ہیں۔

i۔بچے کو سکھادیا جائے کہ صرف ناقدانہ شعور کی بنیاد پر ہی وہ مادی اور انسانی ماحول کو سمجھ سکتا ہے۔ یہ بات اگر داخلی یقین یعنی داخلی اتھارٹی کا درجہ حاصل کرلے تو اس پر کسی طریقے سے اثرانداز ہونا ممکن نہ رہیگا۔

ii۔ناقدانہ شعور محض منطق یا تنقیدی نقطہ نظر نہیں بلکہ اس میں انسانی دکھوں کا احساس بھی شامل ہوتا ہے۔ اس طرح ناقدانہ شعور کی بنیاد پر بچہ انسانوں سے الگ رہنے کی بجائے انسانوں سے وابستگی محسوس کرتا ہے۔

iii۔ ناقدانہ شعور کی بنیاد سوال اٹھانے اور سوالوں کا جواب ڈھونڈنے کیلئے لوگوں کے ساتھ مکالمے پر ہے۔ مکالمے کی افزائش برابری کے ماحول میں ممکن ہوتی ہے اور اس میں شامل لوگ انانیت کی بجائے دوسروں کی رائے / جذبات /ضروریات کا احترام کرتے ہیں۔ اس طرح مکالمے پر یقین رکھنے والا فرد اپنے آپ کو ایک ، عام آدمی، ہی مانتا ہے۔ چونکہ مکالمے پہلے سے طے شدہ اقدار کی بنیاد پر نہیں ہوسکتا، اس لئے مکالمے کے نتیجے میں پیدا ہونے والا علم، مکالمے میں شامل سب لوگوں کا مشترکہ اثاثہ ہوتا ہے۔ مکالمے کی ثقافت میں کوئی بات کسی کی میراث یاحق نہیں ہوتی۔ کوئی اتھارٹی علم کو اپنا استحقاق نہیں کہہ سکتی۔ علم، دراصل مکالمے کے عمل سے پیدا ہوتا ہے۔

iv۔ناقدانہ شعور، محض علوم کا مجموعہ نہیں ہوتا۔ اس میں وہ ہنر اوررویے بھی شامل احوال ہوتے ہیں جن کی بدولت مختلف خیالات انسانی ثقافت کا حصہ بنتے ہیں۔ مثال کے طور پر جنسی تفریق سے متعلق خیالات کو مخصوص رویوں او رہنروں کی تربیت کے بعد ہی سماجی رہن سہن کا حصہ بنانا ممکن ہوا۔ جنسی تفریق کو ختم کرنے کیلئے ناقدانہ شعور سے ہم آہنگ رویوں او ر ہنروں کو سیکھنا لازم ہوگا۔ ناقدانہ شعور میں برابری، احترام، بانٹنا،خیال رکھا اور تحفظ فراہم کرنا بنیادی رویے ہیں جبکہ بنیادی ہنروں میں سوال کرنا، مکالمے او رمتحرک شراکت داری شامل ہیں۔

ان رویوں او رہنروں کو جب کوئی فرد نفسیاتی اور فکری سطح پر مکمل طور پرجذب کرلے تو اسے اپنے آپ پر بھروسہ ہوگا۔ وہ اپنے آپ کو غیر محفوظ نہیں سمجھے گا۔ ایسے میں وہ دوسروں پر اعتبار کریگا۔ یہ باہمی اعتبار دنیا کو انسانوں کیلئے محفوظ جگہ بنادیگا۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button