کالمز

دیا مر نا مہ ۔۔۔۔۔۔

تحریر۔اسلم چلاسی

ایک بات اب تک سمجھ نہیں آئی کہ ہردور کے آنے والے حکمران دیامر سے نفرت کرتے ہیں یا دیامر والوں سے خلش رکھتے ہیں یا دیامر کے مجموعی فطری خاموشی سے غلط فائدہ اٹھاتے ہیں؟ سیاستدان مخلص نہیں ہیں یا پھر یہاں کے عوام غیر اہم ہیں؟ گلگت اور بلتستان کہاں سے کہاں پہنچ گئے، ۱۹۴۷ سے لیکر اب تک کے گلگت ڈویژن اور بلتستان ڈویژن کے ترقیاتی رفتار کو بھی دیکھیں اور دیامر کے جمود کا بھی جائزہ لیا جائے تو سارا معاملہ واضع ہوجاتا ہے۔ایک طرف جہالت کا فتوہ دیامر والوں کو دیا جاتا ہے تودوسری طرف ترقی کے سارے راستے دیامر والوں پر بند کردیے جاتے ہیں۔ گلگت اور بلتستان کے انتظامی صورتحال ترقیافتہ دور کی عکاسی ہے جب کہ دیامر پتھر دور کے باقیات کا مجمو عہ ہے۔ گلگت اور بلتستان کے کئی علاقے نئے نئے اضلاع کے طور پر ترقی کے راستے پر گامزن ہیں۔ شہریوں کو انصاف گھر کے دہلیز پر دستیاب ہے۔ تعلیمی سہولیات سے آراستہ ہیں، صحت کا شعبہ بھی بہتر ہے، جب کہ دیامر کے معاملے میں تمام معاملات یکسر مختلف ہیں۔ یہاں کی حلقہ بندی سے لیکر انتطامی معاملات اور عوامی ضروریات کا ذرہ برابر بھی خیال نہیں رکھا گیا ہے جبکہ برسوں سے ٹھونس دو والا معاملہ ہوتا آرہا ہے۔

دیامر ریجن میں ماضی کے دو ریاستیں ریاست داریل ،ریاست تانگیر اور سابق چلاس ایجنسی کو آپس میں ملا کر ایسا ٹھونس دیا گیا ہے کہ اب تک ترقی تو دور کی بات ہے ترقیافتہ دنیا کی ہوا سے بھی محروم ہیں۔ لوگ جہالت کو ترک کر کے جدید دور کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں مگر گلگت بلتستان میں آنے والی تمام حکومتیں جانے کیا عداوت رکھتی ہیں کہ اس قوم پر ترقی کے سارے راستے مسدودہیں۔ پسماندگی اور محرومیوں کے ایسے پہاڑ کھڑے کر دیے گئے ہیں کہ لاکھ چاہتے ہوئے بھی بہتری کی طرف آنا ممکن نہیں ہے۔ حکومتوں کی پچھلے دس سالوں کی پالیسی دیامر کے حوالے سے انتہائی متعصبانہ اور بدنیتی پر مبنی رہی ہے۔ اس جدید دور میں بھی دیامر کے کئی دیہات بجلی سے مکمل طور پر محروم ہیں، رابطہ سڑکیں نہیں ہیں، علاج کی سہولت تو دور کی بات ہے فسٹ ایڈبھی دستیاب نہیں ہے۔ بیشتر دیہاتوں میں پرایمری سکول تک نہیں ہیں۔ دور دراز کے علاقے تو چھوڑے چلاس شہر جو اس گنجان آباد ضلع کا ہیڈ کوارٹر ہیں یہاں پر قدم رکھتے ہی حکمرانوں کی بدنیتی عیاں ہوجاتی ہے۔ باب چلاس سے مرکزی شہر تک کا سڑک ماشاء الللہ گزشتہ تیس سالوں سے زیر تعمیر ہے، مکمل ہونے کا نام ہی نہیں لیتا، جگہ جگہ کھڈے، اوپر سے تعمیرات کے نام پر تیز دھار پتھروں کی بچھائی روڈ پر نکلیں تو دھول کے
بادل میں سڑک کا کنارہ ہی نظرنہیں آتا۔ پیدل چلنے والے تو ایک ہی چکر میں پھیپڑوں کے مریض بن جاتے ہیں۔

شہر کی اندرونی حالت تو ناقابل بیان ہے۔ انسانوں کے ساتھ ساتھ جانور بھی بازار میں گھومتے ہیں، پالتو گائے ،بھنس، بکریاں شہر کی رونق کو دو بالا کرتی ہیں۔ ان مقدس جانوروں کی موجودگی میں ایسا لگتا ہے کہ یہ انسانوں کا شہر نہیں بلکہ جانوروں کا باڑہ ہے۔ جگہ جگہ سیورج کا پانی ابلتا ہوا نظر آتا ہے۔ سڑک کے کناروں پر بنی ہوئی کھلی نالیاں ندی کی طرح بہتی ہیں۔ فٹ پاتھ پر چلنے والے منہ ڈھانپ کرچلنے پر مجبور ہیں۔ چاروں طرف کوڑا کرکٹ کا ڈھیر لگا ہوا ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں ہے، بد بو سے تعفن پھیل چکا ہے۔ اچھا خاصا آدمی بازار کے پہلی یاترا پر آئی سی یو کا مہمان بن سکتا ہے۔ بجلی کے بے ترتیب پول کھلم کھلا دعوت موت ہے۔ ذرا سی آسمان کیا برسے یہ پول شاٹ ہوجاتے ہیں۔ دو عدد بکریوں کے موت کا تو میں خود چشم دید گواہ ہوں ۔عمومٓٓا یہاں بجلی آتی نہیں ہے، جب آتی ہے تو کچھ نہ کچھ ساتھ لیکر جاتی ہے۔ شا ٹ سر کٹ کے علاوہ بھی چلاس شہر میں بجلی نام ہی خوف کی علامت ہے۔ تیز ہوا چلے تو بھی پول گرنے کا خطرہ ہے۔ ذرا سر آسمان کی طرف اٹھائے تو ادھر ہی جم جاتا ہے دکانوں کے ذرا اوپر سے الیکٹرک لائنوں کے مکڑی کا جالا بنا ہوا ہے۔ کچھ تارے ٹوٹ کر لٹک رہی ہیں تو کچھ پیوندکاری سے جوڑے ہوئے ہیں۔ ڈھیلے ڈھالے تو کچھہ ضرورت سے زیادہ کھینچے ہوئے نیلی پیلی کالی تارے ایک دوسروں کی اپر نیچے سے ایسا گزارا گیا ہے کہ کیا کمال کا فن شاہکار ہے۔ اس ادارے کو داد دینے کودل کرتا ہے اور میں حیران اس بات پر ہوں کہ اب تک اس شہر کو جل کر راکھ کا ڈھیر ہونے سے کیسے بچا یا گیا ہے؟حالانکہ بجلی آتے ہی فضاء میں چنگاریاں اڑھنا تومعمول کا حصہ ہے۔خدا نخواستہ ایسی بجلی اور آلودگی کے حملے کا شکارہوجائے تو علاج معالجہ کیلے خستہ حال ضلع بھر کا اکلوتا ڈی ایچ کیو ہسپتال چلاس ہے۔ جہاں سے ڈاکٹروں کو ایک ایک کر کے کہیں اور تعینات کیا جا چکا ہے

اب لاکھوں انسانوں کی آبادی کیلے گنے چنے ڈاکٹرز رہ چکے ہیں جو کہ سرا سر ظلم عظیم ہے داریل تانگیر کے دور دراز علاقوں سے آنے والے مریض اور چلاس کے گردنواح کے تمام لوگ ایسی ایک ہسپتال کے آسرے پر ہیں۔ اوپر سے ڈاکٹروں کی دوسرے اضلاع میں تقرریاں ایسا لگتا ہے کہ حکومت مکمل طور پر دیامرسے بغض رکھتی ہے اور دیامر والوں کو دیوار سے لگانے پر تلی ہوئی ہے۔اس شہر میں نہ پانی ہے نہ بجلی ہے نہ صفائی کا نظام ہے۔ انتظامیہ تو غریب کاروباریوں پر آفیسری جما رہی ہے۔ جو کام کرنا چاہیے وہ نہیں کرتی بلکہ سبزی فروش چائے کیفے اور چھوٹے کاروباریوں پر ناقص صفائی پرجرمانے کرتی ہے بلکل جرمانہ ہونا چاہیے۔ مگر اس شہر کو کچرہ دان بنانے کے جرم میں انتظامیہ پر جر مانہ کون کرے گا؟کئی دہایؤں سے ایک ہی انتظامی شکل میں ٹھونس کر رکھنا اور تمام بنیادی سہولیات سے محروم رکھنا بلا شبہ ایک قوم کا استحصال ہے حکومت کو دیامر کے حوالے سے اپنے پالیسیوں پرنظر ثانی کے ساتھ ترمیم کی ضرورت ہے۔ دیامر کی قوم رتبوں کی تقسیم کو استحصال کا نعم البدل کھبی نہیں مانتی ہے لہذا وقت کا تقاضہ یہ ہے کہ حکومت وقت دیرینہ مسائل پر غور کر کے دیامر کے عوام پر رحم کریں۔ جب تک معاشرے میں یکساں سلوک نہ ہو تو امن ترقی اور خوشحالی ممکن نہیں ہے۔

صوبائی حکومت گلگت شہر تک ہی محدود ہو چکی ہے وفاق پورے صوبہ کی ترقی و خوشحالی کیلے فنڈز دیتا ہے مگر تمام ترقی اورخو شحالی کے سارے دروازے ایک ہی شہر کیلے کھلتے ہیں جس سے دیامر میں سخت ما یوسی پیدا ہوئی ہے اور یہ ما یوسی آنے والے دنوں میں حکو مت کیلے مسا ئل پیدا کر سکتی ہے چو نکہ اندرون خا نہ لا وا تیار ہو چکا ہے عوام انتظامی تقسیم کے حوالے سے حکو متی رویہ پر غم و غصہ کا اظہار کر رہی ہے اور اس ایک معا ملہ کو لیکر حکومت کے مقبولت کا گراف نوے فیصد گر چکا ہے اور جو لوگ برسوں سے مسلم لیگ کے حامی تھے جنہوں نے مسلم لیگ کے کا میا بی میں اہم کردار ادا کیے تھے وہی لوگ حکومت سے بیزاری کا اظہار کر رہے ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں حکومت دیامر میں اپنی کھوئی ہوئی مقبو لیت کو پھر سے بحال کرنے کیلے کیا اقدا مات کرتی ہے

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button