کالمز

ایک زیرتعلیم وزیرتعلیم

تحریر: حاجی سرمیکی

موٹر سائیکل پر بطورثانوی مسافر دبک کر بیٹھے ایک ادھیڑ عمر شخص ، قد کاٹھ میں میانہ درجے کا حامل ، سلیٹی رنگت کے بال اور اس پر کبھی ڈھلتی کبھی پھیلتی داڑھی جو رنگت میں اسی کے ہی بالوں پر گئی ہوئی، پرپیچ و خمدار اور انتہائی دشوار گزار راستے سے گانگ چھے کے آفت زدہ گاؤں بلغار سے بڑداس کی جانب روانہ ہوا۔ جوشیلے نوجوان کوچوان کی ہمت تھی کہ اس لوہے کے گھوڑے کو اس پر خطر راستے پر دوڑائے جارہا تھا۔ ایک طرف پہاڑ سے گرے ہوئے ریتیلے تودے اور دوسری طرف خشوبلغار نالے میں آفت خیز طغیانی کے باعث سڑک کے پشتے، کہیں سے گرے ہوئے تو کہیں ایسے پر خطر کہ اب آیا کہ اب آیا۔بلغار کے لوگ ان دونوں منچلوں کی آشفتہ سری سے مسحور ہوکر سڑک کی دوسری اور سے نظریں گاڑے محو نظارہ تھے ۔وہاں کسی سے پوچھا تو معلوم پڑا کہ وزیر تعلیم ابراہیم ثنائی اپنے حلقے میں دورے پر ہیں ۔ یقین اس لئے آیا کہ وہاں میرے علاوہ بھی بہت سے شاہد و موجود تھے۔ پھر یقین نہ کرنے کی اس لئے بھی کوئی وجہ نہیں بنتی تھی کہ ہمیں اس شخص سے شناسائی بھی کوئی نئی نئی نہیں تھی۔ ہم کسی ادارے کی وساطت سے آفت و نقصان کی حدحدود کی جانجکاری کے معاملے میں ہفتہ بھر کو ٹھہرے تھے اور بلاناغہ موصوف کو ادھر ہی ڈھیرے ڈالے دیکھا گیا۔ مختلف اداروں کو تعاون اور امداد کے لئے ذاتی کوششوں سے مدعوکیاگیاتھا۔ اورآخرالایام میں کمشنر بلتستان کی زیرنگرانی انتظامی اداروں کے ضلعی سربراہان کی میٹنگ بھی کال کی گئی ۔ آفت زدہ علاقے کی حدود میں شاید ہی اتنی کامیاب نشست پہلے کبھی منعقد ہوئی ہو ۔بعدازاں وزیر اعظم پاکستان کا ہنگامی دورہ بھی کرایا جو نقصان کے ازالے کی مد میں تاحد توفیق ایک کاوش تھی ۔ متاثرہ علاقے میں حفاظتی بند کی تعمیر کے لئے بھی خطیر رقم مختص کی گئی اور اس بار بھی روایتی طریق کار سے ہٹ کر ٹھیکیداری کی بجائے مقامی لوگوں کو ذمہ داری سونپ کر نہ صرف بروقت تکمیل یقینی بنائی گئی بلکہ ہر ممکن حد تک تمام سرمایہ صرف کیاگیا ۔ ماہرین کے مطابق اس سے نہ صرف شفافیت اور معیار میں بہتری آئی بلکہ مقامی لوگوں کی معاشی فعالیت کے لئے بھی کارگر ثابت ہوئی۔ دیہی ترقیات میں اس رویئے کو مقامی سطح پر ترقی کہا جاتا ہے جس کا انہوں نے عملی مظاہرہ پیش کیا۔ وزیر تو جناب تعلیم کے تھے لیکن ترقیات و تعمیرات میں بھی وہ روایتی سیاسی حکمت عملی کو نئی جہت دینے میں کوشاں دیکھائی دئے۔ آج ان کے پاس وزارتی قلمدان موجود ہے ، ہمارا مقصد ان کی ہمہ جہت شخصیت سے آگاہی تھا۔باوجود اس کے کہ ہم انہیں کئی اور پہلوں سے روایتی سیاست اور غیر مقامی سیاسی جماعتوں کی حکومت میں انہیں مس فٹ سمجھتے ہیں ، ان کی ترقی پسند اور روشن خیال سیاسی روئے کی داد دیئے بنا نہیں رہ پائے۔
یہ اس وقت کی بات ہے کہ جب وہ ہارے ہوئے تھے اور ہمیں دستیاب تھے۔ ان کے ساتھ ترقیاتی منصوبہ سازی سے معنون کسی ہفت روزہ تربیتی ورکشاپ میں ساتھ رہنے کا موقع ملا۔ وہاں ان کی قائدانہ صلاحیتوں اور ذہانت کے دلدادہ ہوگئے۔ ان کے لکھے گئے تحقیقی تبصرے، ترقیاتی منصوبہ کی تجاویز کبھی رد نہیں ہوئے۔ اپنے آبائی علاقے کے ایل ایس او کی رہنمائی اور معاونت کے نتیجے میں ترقیاتی کاموں کی مد میں خطیر امداد موصول ہوئی۔موصوف کہتے تھے کہ بیرون ملک انہیں اسی پر تربیت کے دوران ترقیاتی پروپوزل کی تیاری سے متعلق سو سے زیادہ کتابوں کا مطالعہ کرنے کو دیا گیا تھا جس کے بعد انتہائی اختصار کے ساتھ ان تمام کے خلاصے کے طور پر پروپوزل کی تیاری کی ذمہ داری دی جاتی تھی۔ غیر سرکاری ادارے میں اپنی خدمات کے دوران انہوں نے روایتی ترقیاتی منصوبہ بندی کو نئے تقاضوں سے ہم آہنگ کرانے میں معاونت فراہم کیا۔ موصوف بہت اچھے تاریخ شناس، ادب دوست اور قلم وقرطاس سے لگاؤ رکھنے والا شخص ہے۔ انہیں ہم نے ہمیشہ سیکھتے سکھاتے ہی دیکھا ہے۔ شاید ہی کوئی ان جیسا وزیر تعلیم بھی کوئی ہوجو خود کو ہمہ تن زیر تعلیم سمجھتا ہو۔وضع قطع اور روایتی پروٹوکول سے عاری ہیں۔ محفل میں جہاں جگہ ملے بیٹھ جاتے ہیں۔ ہمیشہ تھوڑا سا غیر رسمی رویہ اپنائے رہتے ہیں انہیں برابری میں ملنا جلنا اور گفت و شنید کرنا بھلا لگتا ہے۔ تنقید نہ صرف سنجیدگی سے سہتے ہیں بلکہ ازخوداس کی دعوت دیتے ہیں ۔ ان کی شخصیت میں وہ سادگی ہے کہ ایکاایکی میں حاضر متکلم دھوکہ کھا جاتا ہے۔ جب تک بحث سنجیدہ اور با مقصد نہ ہو ان کی ذہانت اور معلومات کی گہرائی کا اندازہ نہیں ہوتا۔ موصوف ادیب بھی واقع ہوئے ہیں لیکن جس علمی اور ادبی معیارِ تحریر پر وہ بضد ہے یقیناًاس کی تکمیل عجلت میں کارندارد ۔ اب لکھا کیا ہے اور مواد کیسا ہے اس پر بات ان کی تصنیف سے قبل کرنا ناانصافی ہوگئی لیکن تاریخ بلتستان کے حوالے مذہب، سیاست اور ادب و ثقافت میں ایسی عرق ریز تحقیق و تدوین کی ہے جسے پڑھ کر قاری تاریخ بلتستان کی پرانی کتابوں سے گھن کھاجائے۔ مولوی حشمت اور اس کے پیشرو و پیرو جس زبانی کلامی جمع خرچ سے تاریخ بلتستان مرتب و تالیف کر گزرے ہیں وہ اس کے آگے ایک آپ بیتی یا پھر جدی پشتی سنی سنائی کہانیوں سے بڑھ کر کوئی حیثیت حاصل نہیں کر پائے گی۔ہمیں انتظار ہے اس شاہکار کے آنے کا، وگرنہ اس پر مزید کوئی تبصرہ کرنا قبل ازوقت ہوگا۔
موصوف اس وقت لندن کے دورے پر ہیں جہاں انہوں نے تعلیمی و تدریس کے حوالے سے منعقدہ کئی اہم بین الاقوامی محافل و نشستوں میں شرکت کی ہے۔ابراہیم ثنائی ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں ۔ تاریخ و ادب اور سائنس میں بے حد دلچسپی رکھتے ہیں۔ فرقت کے ایام میں وہ قراقرم یونیورسٹی سکردو کیمپس کے ادب، تاریخ اور ثقافت کے حوالے سے ثانوی اور اعلیٰ ثانوی سطح کے طلباء کو تحقیق وتالیف میں معاونت بھی فراہم کرتے تھے۔ بارہا موصوف خود چل کر طلبہ کے پاس جایا کرتے تھے اسی لئے طلباء اور نوجوان پوت کی ایک بڑی تعداد ان کی شخصیت ، اہلیت و ذہانت سے متاثر ہیں۔ سماجی رابطے کی سائٹ پر بھی بہت ایکٹیو رہتے ہیں اپنی سرگرمیوں اور آراء کو بروقت پوسٹ کرتے ہیں اور برخلاف چند دیگر روایتی سیاستدانوں کے وہ لوگوں کی تعریف و تنقید کا فراخ دلی سے جواب دیتے ہیں۔ پچھلے سال دنیائے حسن کی ملکہ لیڈی ڈیانا اور مشہور زمانہ فکشن کیریکٹر سپائڈر مین کے ساتھ دیئے گئے تصویری مناظر بہت سے حلقوں میں زیر بحث رہے اور سیاسی حریفوں کی آنکھ کا خار بنے رہے۔محکمہ تعلیم میں اصلاحات اور بدعنوانیوں کے خاتمے بارے انہوں نے جدید تقاضوں کے مطابق کئی اہم فیصلے کئے جن کے مثبت ثمرات کا نوجوان نسل معترف نظر آتے ہیں۔ انتظامی امور میں بے جا مداخلت سے گریز کرنے کی وجہ سے محکمہ تعلیم بلتستان میں بہت سے اہم فیصلے منتظمین اور اعلیٰ حکام نے خودلئے ، جن میں اساتذہ کی تربیت، والدین اساتذہ تنظیموں کی فعالیت،اسسٹنٹ ایجوکیشن آفیسرزکی میرٹ پر تعیناتی اور سکولوں میں ونٹر کیمپس کا اہتمام چند حوصلہ افزاء اقدامات کے طور پر مانے جاتے ہیں۔ آجکل موصوف خود اپنی اہلیت بڑھانے میں کوشاں ہیں اور امید یہی کی جارہی ہے کہ حسب سابق مسقبل میں بھی ان کے بیرونی ممالک کے دوروں کے حوصلہ افزاء نتائج برآمد ہوں گے۔ تاریخ اور سائنس کے ساتھ ساتھ سہولتکاری میں ان کی مہارتیں دیکھ کر یہی خواہش رہ رہ کر ابھرتی ہے کہ کاش وہ کسی تعلیمی ادارے میں اعلیٰ ثانوی سطح کے طلبہ کے استاد مقرر ہوتے ۔ گوکہ وزیر تعلیم ہونا کسی بھی طور کوئی کم اہم اعزاز نہیں لیکن روایتی سیاست کے میدان میں ان کے پاس اپنے وژن کی تکمیل اور مقاصد کے حصول میں معاون ماحول اور درکار وقت موجود نہیں۔ ان جیسے سنجیدہ اور اپنے شعبے سے لگاؤ رکھنے والے لیڈران کی بے قدری اورسیاسی ، مذہبی اور لسانی تعصبات کی بھینٹ چڑھانا کسی بھی طور انصاف نہیں ہوگا۔ لیکن کون جانے کہ آنے والے وقت میں بے شعور لوگ تعلیم و ترقی میں مثبت پیش رفت کے تسلسل کے لئے کس طرح اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ ہمیں ان کی ادبی کاوش اور گراں قدرزیر طبع تصنیف کا بے صبری سے انتظار ہے ۔ یقیناًاس کی کامیاب اشاعت تاریخ بلتستان کے حوالے سے نہ صرف حقیقی ارمغان ثابت ہوگی بلکہ نئی تحقیق کے دروازے بھی کھول دیں گے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button