کالمز

کفر ٹوٹا خدا خداکر کے ،آئے چلتے ہیں استور ویلی روڈ کی طرف جہاں ۔۔۔۔۔۔

تحریر: شمس الر حمن شمس

دوستوکچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے۔ میں نے اپنے ایک کالم میں یہ لکھا تھا کہ استور ویلی روڈ موت کا کنواں بنا ہوا ہے۔ استور میں جب بھی کوئی حکمران آتا تو وہ سب سے پہلے استور روڈ کا ذکر ضرور کرتا کہ استور کا اہم مسلہ ویلی روڈ کا ہے اور اس کے لئے ہم اپنی تمام تر صلاحتیں صرف کر کے اقدامات کرینگے۔۔۔۔ جب یہ بات کرتے ہیں تو عوام بھرپور تالیاں بجاتے ہیں اور عوام کو خوش کروا کر جب وہ استور سے چلے جا تے ہے تو وہ حکمران بھول ہی جاتا ہے۔۔۔۔ استور روڈ کے حوالے سے اسی طرح سابق بانچ سالہ دور میں بھی علاقے کے منتخب نمایندے سمیت صوبائی حکومت نے بارہا اعلانات کرتے رہے مگر تمام اعلانات جھوٹے اور ہوائی ثابت ہوئے۔۔۔۔ ۔استور ویلی روڈ ضلع استور کی عوام کا سب سے اہم مسلہ ہے۔ اگر کوئی بیمار آدمی کواس روڈ سے لے جاتے ہیں تو راستے میں ہی موت وا قع ہو جاتی ہے کیونکہ ر یپر کی مد میں محکمہ ورکس استور میں جو بجٹ سالانہ آتا ہے وہ بجٹ روڈ کو ٹھیک کرنے کی بجائے محکمہ ورکس کے آفیسران کے جیب میں جاتا ہے۔۔۔ ۔تو روڈ سال بہ سال مکمل خراب ہوتا جا رہا ہے جس سے شہریوں کو مشکلات کا سامنا کر نا پڑھ رہا ہے ۔۔۔اس روڈ کی خستہ حالی کے حوالے سے علاقے کے حکمرانوں نے ہر فورم پر آواز تو اٹھایا لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئی حتیٰ کہ موصوف وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن صاحب نے دو مرتبہ استور میں مختلف جلسوں کے موقعے پر عوام سے یہ وعدہ کیا کہ استور ویلی روڈ کے لئے جلد بجٹ مختص کیا جائے گا، ٹینڈر بھی جلد کر وادیا جائے گا۔ مگر بد قسمتی سے ان کے اعلانات بھی عوام سے وفا نہ کر سکے ۔۔۔۔۔ چونکہ استور میں پاکستان آرمی کے بہت ساری کیمپس ہیں اور بارڈر ایریاز میں کافی تعداد میں پاک آرمی کے جوان اپنے فرائض سر انجام دیں رہے ہیں۔۔۔۔۔ اور دفاعی اعتبار سے انتہائی اہمیت کا حامل خطہ ہے اسی وجہ سے پاکستان آرمی نے استور ویلی روڈ کے حوالے سے حکومت گلگت بلتستان کو صرف ایک ٹوئٹ ہی کیا تو دوسری طرف سپریم اپیلٹ کو رٹ گلگت بلتستان کے چیف جسٹس ڈاکٹر رانا محمد شمیم نے اس روڈ پر سو موٹو لیکر اس روڈ کو بنانے کے لئے احکامات جاری کر دیا۔۔۔۔۔ صوبائی حکومت پر دو اہم اداروں کی طرف سے پریشر آیا تو گزشتہ دنوں وزیر اعلیٰ نے ہنگامی بنیادوں پر ڈی ڈبلیو پی کی اجلاس بلا کر استور ویلی روڈ کی کشادگی اور مرمت کے لئے35کروڑ 53لاکھ30ہزار روپے کی منظوری دیا۔۔۔۔۔ اب سوال یہاں پر ہے کہ پچھلے ڈیڑھ سالوں میں علاقے کے منتخب نمایندوں نے اس روڈ کے لیےبجٹ کی منظور ی کے لئے محنت کی مگر بیوروکریسی نے اس روڈ کی فا ئیل کو دبا کر رکھ دیا۔ یہ بات صرف استور کے منتخب نمایندوں کی نہیں بلکہ پوری گلگت بلتستان کے سیاسی لوگوں کے لئے سوالیہ نشان ہے ۔۔۔۔؟ خیر جس طرح سے بھی استور ویلی کے لئے بجٹ مختص کر دیا گیا اب ایک سوال یہاں پر جنم لیتی ہے کہ کیا صوبائی حکومت اس روڈ کی مرمت اور کشادگی لوکل ٹھکیداروں سے ہی کروائے گی یا کسی اچھی کمپنی کے ذریعے کام کروائے گی ۔۔۔۔اگر لوکل ٹھکیداروں کو محکمہ ورکس کے ذریعے دینگے تو صرف ٹھکیدار کو پیسہ ملی گی۔۔۔ اور روڈ میں چندٹاکیاں لگا کر تمام پیسے ہڈپ کر ینگے۔ محکمہ ورکس کے حکام کا منہ بند کروانے کے لئے ان پیسوں کا 10فیصد حصہ ان حکام کو پہنچاینگے۔۔۔۔۔۔ تو اس پراجیکٹ پر
پالش کر کے مکمل کرنے تک ان کا منہ بن ہوگا اور آخر کا رتمام کاغذی کاروائی بھی مکمل کرینگے ۔۔۔۔۔جبکہ کسی اچھی کمپنی کو یہ کام حوالہ کرینگے تو کچھ تو بنے گا ۔۔۔۔۔کیونکہ کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے پاکستان آرمی اور عدلیہ کیوجہ میں اس روڈ کو مرمت کرنے کے لئے کچھ پیسے ملے ہیں۔ اب حکومت کو چاہیے کہ وہ اس حوالے سے عملی اقدامات کریں اور اس بجٹ کواستور روڈ پر صیح طرح استعمال کرنے کے لئے ایک اچھی سی پالیسی مرتب کرے تاکہ عوام کو ریلیف ملے ۔۔۔۔۔۔آخر کا ر ایک بات یہاں کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ بجٹ جس طرح بھی آئے لیکن کریڈ یٹ صوبائی حکومت کو ہی جاتا ہے۔ اگر اس روڈ کو صیح طرح بنانے کی کوشش کرینگے تو سیاسی طور پر بھی پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ایک بہت بڑی کامیابی ہے ۔۔۔۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button