کالمز

ہنزہ کے مسائل،محرومیاں اور سیاستدان

تحریر :امجد حسین برچہ

تعلیم یافتہ معاشرے کانظم و نسق،عادات واطوار ،رہن سہن،اخلاق اور برتاؤ اوراندز گفتگو منفرد ہوتا ہے اور ہنزہ نہ صرف خواندگی کے لحاظ سے بلکہ جغرافیائی،تاریخی،سیاحتی اور خوبصورتی کے حوالے سے دنیا میں منفرد مقام رکھتا ہے لیکن بد قسمتی سے سیاسی لحاظ سے ہنزہ یتیم کہلاتا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ ہنزہ کی سیاسی تاریخ اور منتخب عوامی نمائندوں کی کارکردگی نہ صرف مایوس کن ہے بلکہ آج کا نوجوان اس حوالے سے سخت مایوس اور پریشان ہے یہی وجہ ہے کہ نوجوانوں کی بڑی تعداد وفاقی سیاسی پارٹیوں سے نالاں مختلف تنظیموں میں متحرک نظر آ رہی ہے

جہاں ہنزہ کی محرومیوں کی ذمہ داری مختلف ادوار میں منتخب ہونے والے عوامی نمائندوں پر عائد ہوتی ہے وہاں مختلف ادوار میں الیکشن لڑنے والے ایسے افراد ہیں جس کو سیاست کی شد بد تک نہیں اور اپنے دھن دولت کی طاقت سے الیکشن لڑنے ہنزہ پہنچ جاتے ہیں ایسے امیدوار کھبی کھبار اپنے عزیز و اقارب کی فوتگی کے دوران فاتحہ خوانی کے لئے ہنزہ آتے رہے ہیں باقی ہنزہ کے مجموعی مسائل کیا ہیں،کس علاقے کے عوام کو کس قسم کے مسائل کا سامنا ہے،کہاں پانی کی ضرورت ہے کہاں سکول نہیں کس علاقے میں صحت کی بنیادی ضرورت نہیں بالکل لا علم ہوتے ہیں بلکہ ہنزہ کے حوالے سے بنیادی معلومات بھی نہیں ہوتی ہیں کہ ہنزہ کی آبادی کتنی ہے۔۔۔۔۔تحصیلیں کتنی ہیں یونین کونسل کتنے ہیں یا ضلع کونسل میں آخری مرتبہ کتنی نشستیں تھیں وغیرہ وغیرہ۔۔۔اوو ر مزے کی بات یہ ہے کہ الیکشن میں شکست کے بعد ہنزہ کے عوام کو ایک دو گالیاں بھی سنا کر ایسے غائب ہوجاتے ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کسی بھی حکومت کے سامنے مضبوط اپوزیشن نہیں ہو گی ۔۔۔۔۔حکومت کی کمی کوتاہیوں کو سامنے نہیں لایاجائے گا۔۔۔۔۔۔حکومت کے اچھے اقدامات کی تعریف اور برے اقدامات پر تنقید نہیں ہو گی تو حکومت جو مرضی آئے کرے گی اور اپوزیشن نہیں ہو گا تو کون پوچھے گا۔۔۔۔ہنزہ میں بھی 40سالوں تک بر سر اقتدار آنے والے عوامی نمائندوں سے پوچھنے والا کوئی نہیں تھا۔۔۔۔۔۔ اور آج بھی کم و بیش وہی صورت حال ہے اور گزشتہ انتخابات میں ہنزہ کے مسائل حل کرنے کے بلند و بانگ دعوے کرکے آستینیں چڑھا کر میدان میں آنے والے درجن بھر امیدواروں میں سے اس وقت ہنزہ میں ایک بھی نہیں اور الیکشن کے اگلے روز ہی تمام امیدوار پتلی گلی پکڑ کر غائب ہوگئے ہیں اور کسی امیدوار کی جانب سے ہنزہ کے مسائل پر کسی فورم پر آواز بلند کرنا دور کی بات ایک اخباری بیان تک سامنے نہیں آیا جبکہ ہنزہ اس وقت بجلی،پانی ،صحت،تعلیم اور دیگر بے شمار مسائل سے دوچار ہے اور مزے کے بات یہ ہے کہ ہنزہ سے الیکشن جیتنے والے بھی ہنزہ میں نہیں ۔۔۔۔۔

ہم اس سے پچھے الیکشن یعنی سال 2009ء کی بات کرتے ہیں جب ہنزہ کے لئے قانون ساز اسمبلی میں دو نشستوں کا مطالبہ کرکے ہنزہ کے سیاسی سماجی اور عوامی حلقوں پر مشتمل بڑی تحریک شروع کی گئی۔ ہنزہ ایکشن کمیٹی کے نامزد امیدوار جس کے لئے لوگوں نے اپنے جیب سے الیکشن کمپئین کے پیسے دئے ،الیکشن کمپئین چلانے کے لئے باقاعدہ فنڈنگ کی گئی اور ہنزہ ایکشن کمیٹی کے نامزد امیدوار نور محمد الیکشن لڑنے کے بعد سے اب تک غائب ہیں اور ہنزہ کے عوام تلاش گمشدگی کا اشتہار لگانے کے لئے تیار ہیں۔۔۔۔۔2009ء کے اسی الیکشن میں بھاری ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر آنے والے ایم کیوایم کے نامزد امیدوار معروف کاروباری شخصیت کامل جان بھی انتخابات کے اگلے روز سے غائب ہیں ۔ جبکہ اسی سال ہونے والے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ سے الیکشن لڑ کر بھاری ووٹ لینے والے اظہار ہنزائی کے کارکن آج بھی ان کی راہ تک رہے ہیں لیکن ہنزہ سے ماسوائے الیکشن لڑنے کے ان تمام امیدواروں کا ہنزہ کی سیاست اور ہنزہ کے مسائل کے حل کے حوالے سے ایک ٹکے کا بھی کردار نہیں۔۔۔۔۔۔

گزشتہ سال 2016 ء میں ہنزہ کے ضمنی انتخابات میں حصہ لینے امیدوار بھی الیکشن کے اگلے روز سے غائب ہیں۔۔۔۔۔۔ہنزہ میں انتخابات کا موسم آتے ہی کئی قسم کے موسمی پرندے ہنزہ میں داخل ہو جاتے ہیں اور چہچانے لگتے ہیں لیکن پھر اگلے الیکشن تک وہ پرندے غائب ہو جاتے ہیں حال ہی میں ہونے والے انتخابات میں ایسی صورت حال رہی اور الیکشن میں حصہ لینے والے درجن بھر امیدوار آج ہنزہ کے مسائل سے آنکھیں چرا رہے ہیں اور علاقے سے بھی غائب ہیں۔جبکہ انتخابات میں کامیاب امیدوار رکن گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی بھی گزشتہ کئی ماہ سے ہنزہ سے غائب ہیں لیکن ہنزہ میں منتخب عوامی نمائندے کے عدم موجودگی پر کسی سیاستدان یاامیدوار نے کوئی اعتراض کیا؟؟ان کی غیر موجودگی سے ہنزہ کے عوام کو درپیش مسائل بالخصوص ہنزہ کا اے ڈی پی میں ہنزہ کے منصوبوں کی نشاندہی بھی ان کی غیر موجودگی میں ایک گھر کے اندر بیٹھ کر کی گئی کسی امیدوار نے شکایت کی؟؟؟؟؟ اس بارے میں تو الیکشن میں حصہ لینے امیدواروں کو پتہ تک نہیں ہوگا۔

یہ ہنزہ کی بد قسمتی ہے کہ تاجر،ریٹائرمنٹ کے بعد سرکاری ملازم،این جی اوز میں کام کرنے افراد،فشریز میں کام کرنے والے اور دیگر افراد جن کو سیاست اور عوامی نمائندگی کا علم نہیں انتخابات میں حصہ لیں گے تو ایسا ہی ہوگا۔ان لوگوں نے سیاست کو کاروبار یا نوکری سمجھا ہے کہ کاروبار میں نفع نہیں ملا تو چھوڑ دیا اور سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہوئے تو گھر میں آرام کر لیا۔۔۔۔سیاست ایک کٹھن اور صبر آزما شعبہ ہے ہار جیت ہوتی رہتی ہے اور جیت میں زیادہ اچھل کود نہیں کرنی پڑتی اور ہار جانے پر ماتم نہیں کیا جاتا ۔۔۔۔۔۔یا ہارنے کے بعد خود کو علاقہ بدر نہیں کیا جاتا۔۔۔۔۔۔۔

اور اب ذرا تصویر کشی کرتے ہیں علاقے سے منتخب نمائندے کے مستقل کے حوالے سے کہ اگر پرنس سلیم خان نے عوامی مسائل کم کرتے ہوئے عوام کی دلوں میں زندہ رہنے کی کوشش کرتے ہیں اور عوام کے بنیادی ضروریات کی فراہمی میں کامیاب ہوتے ہیں تو آئندہ بھی عوام ان کا ساتھ دیگی لیکن اگر انہوں نے روایتی سیاست کی اور عوام کے مسائل کے حل میں ناکام رہے تو ہنزہ میں اپوزیشن ہو یا نہ ہو نہ صرف ان کی سیاست بلکہ ان کی خاندانی سیاست کا بھی خاتمہ ہوگا اور آئندہ ہنزہ سے ایسا ہی امیدوار کامیاب ہوگاجو سٹریٹ پولیٹکس (Street Politics)کے ذریعے آگے آئیں گے ماضی سے تجربات کی روشنی میں موسمی پرندوں کے لئے کوئی گنجائش نہیں رہے گی۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button