کالمز

ہووے پتر جلال تے کھوتا سارا ہی حلال

تحریر:ابو نثار

ہووے پتر جلال تے کھوتا سارا ہی حلال، یہ کہاوت آجکل زبان زد عام ہے، نہ صرف آجکل بلکہ صدیوں سے سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی چلی آرہی ہے۔ بحث ملکی سیاست کی ہو یا ہو سیاستدانوں کی کرپشن کی ، پانامہ لیکس کی ہو یا ہو الیکشن میں دھاندلی کی،کسی کی حق تلفی کی ہو یا ہو انصاف اور میرٹ کے قتل عام کا، ہر بحث کا اختتام ہی اسی کہاوت سے ہوتی ہے۔کہاوت ہمارے اندر پائی جانے والی موذی اور سماج دشمن برائی اقرباء پروری کی نشاندہی کرتی ہے۔آجکل ہم بڑے فخر سے اقرباء پروری اور سفارش کلچرکو فروغ اپنے ایمان کا حصہ سمجھتے ہوئے دے رہے ہیں۔ملازمت کا حصول ہو یا جرم میں ملوث مجرم کے دفاع اور طرفداری کو قومی فریضہ اور روایت سمجھتے ہیں۔ہم حق کو حق سمجھنے سے قاصر ہیں حق بات کو جھوٹ ثابت کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے ہیں۔ہم نے اپنی آنکھوں پر اناء اور اقرباء پروری کی سیاہ پٹی باندھی ہوئی ہے۔اور جو ہو سو ہو پر کاربند رہ کر لکیر کے فقیر بنے معاشرے میں بگاڑ کا سبب بن رہے ہیں۔جس سے حق ،سچ،انصاف، میرٹ کا قتل عام اور جرم جبر کو مزید تقویت پہنچا رہے ہیں۔

گزشتہ دنوں چلاس کے صحافیوں کوایک خبر باوثوق ذرائع سے ملی۔تحقیق اور چھان بین کے بعد شواہد کی روشنی میں محتاط انداز میں خبر بریک کی گئی۔چند معزز سمجھداردوستوں نے بڑی جوانمردی سے اس خبر کو جھوٹی ثابت کرنے کی بڑی حد تک کوشش کی۔اورصحافی برادری کی کوشش اور محنت پر پانی پھیرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔میں ان حضرات سے ہمیشہ سیکھنے کی کوشش میں انکی تحریریں پڑھتا رہتا ہوں اور انکے کہنے کو حرف آخر سمجھتا ہوں۔مگر سوشل میڈیا پر انہوں نے کمنٹس کے ذریعے جس حوصلے سے سچ کو جھوٹ ثابت کرنے کی کوشش کی مجھے بے حد افسوس ہوا۔دکھ اس بات پر ہوا کہ انہوں نے بلا جھجک مجرموں کی طرف داری کی اور اقرباء پروری کو فروغ دیا۔اور کہا کہ انکی غلطی نہیں فلاں صاحب نے غلطی سے اتنے کا چیک دیا۔اور اس اکاونٹ میں اتنے پیسے اب بھی ہیں وغیرہ وغیرہ ۔اسلام اور ایمانداری و دیانتداری کا تقاضا ہے کہ اگر غلطی سے کوئی زیادہ رقم بھی دے تو اسے فوری واپس کر دیا جاتا۔ان احباب کے علم میں لانے کے لئے میں صرف اس خبر کے حوالے سے اتنا کہنا چاہوں گا کہ اس کیس کا ڈراپ سین تین روز قبل ہوا ہے۔جبکہ انہوں نے وہ جرم دسمبر 2015میں کیا تھا ۔ایک سال دو ماہ تک انہیں کیا اس جرم کا علم نہیں ہوا ہوگا ۔بالکل ہوا ہے اس میں انہوں نے خود ہی جعلسازی کی ہے ۔فور کو فورٹی بنا کر قومی خزانے کو نقصان دینے والوں کو کوئی بھی ذی شعور فرد معاف ہر گز نہیں کرے گا۔یہ اچھا ہوا کہ بعد میں جعلسازی کا سراغ مل گیا اور قومی خزانے کو خطیر رقم کا ٹیکہ لگتے لگتے بچ گیا۔ورنہ کسی بے چارے کو اتنی خطیر رقم اپنی جیب سے ہی ادا کرنی پڑتی۔ذرائع کے مطابق اس وقت چیک وصول کرنے والے نے باقاعدہ لکھا بھی تھا کہ رقم کم ملنے پر وہ یہ چیک احتجاجاً وصول کر رہے ہیں۔

المیہ یہ ہے کہ ہم قومی سرمائے اور قومی خزانے کو نقصان دینا عین عبادت اور حلال سمجھتے ہیں۔اور جو بھی ہو اپنوں کی ہی طرفداری کرنی ہے۔ہم اس طرح کے اقدامات سے آنے والی نسلوں کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں۔ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنا ہوگا اور اپنے اندر حق کو حق کہنے اور سہنے کی سکت اور جرات پیدا کرنا ہوگا۔اور برائی کو برائی کہہ کر برائی کی حوصلہ شکنی کرنی ہوگی۔جس کا حکم ہمیں قرآن کریم نے سورۃ المائدہ میں دیا ہے آیت کا مفہوم ہے اور آپس میں نیک کام اور پرہیز گاری پر مدد کرو ،اور گناہ اور ظلم پر مدد نہ کرو،اور اللہ سے ڈرو بے شک اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔اللہ سے دعا کریں اللہ ہمیں اپنے عذاب اور نافرمانی سے بچائے آمین

میری تحریر کا مقصد کسی کی دل آزاری کرنا ہرگز نہیں ہے۔بلکہ معاشرے میں تیزی سے سرایت کرتی موذی مرض اقرباء پروری سے بچاؤ کی ایک معصوم سی کاوش ہے۔یہ امر طے شدہ ہے کہ ذمہ دار افراد کے رویوں اور سوچ کا اثر آنے والی نسلوں پر براہ راست پڑتا ہے۔نئی اور سیکھنے والی نسل جلد ذمہ دار افراد کی باتوں کو اپناتے ہیں۔اگر ہم اپنے رویوں میں اقربا پروری کو فروغ دینگے تو اقربا پروری کا دور دورہ ہوگا ۔اور یہی اقربا پروری معاشرے کی تباہی کا سبب بنے گی۔

مجھے ایک صاحب کی تحریر پڑھنے کو ملی جس میں انہوں نے اقرباء پروری کے حوالے سے لکھا ہے کہ آج کل پاکستانی سماج کا اہم مسئلہ سچ کا فقدان ہے۔اب نہ تو سچائی کو بیان کیا جاتا ہے اور اگر کوئی سچ بیان کر بھی دے تو اسے تسلیم نہیں کیا جاتا ہے۔صرف اپنے مفاد اور پسند کی باتوں کو ہی درست اور حق تسلیم کرنا آج کی مقبول روایت بن چکی ہے۔جب کسی معاشرے میں سچائی کو تسلیم نہ کیا جاتا ہو تو اس معاشرے میں صرف ظلم ہی پنپ سکتا ہے۔اور عدل و انصاف کا نظام قائم ہونا ممکن نہیں ہوتا۔ملک میں اعلیٰ اور عمدہ روایات کو فروغ دے کر ہی ملک کی بنیادیں مضبوط کی جاسکتی ہیں۔

قومیت ،لسانیت اور اقرباء پروری کی بدولت میرٹ اور انصاف کا قتل عام ہو رہا ہے جس کی وجہ سے انتہاء پسندی اور فتنہ فساد عروج پر ہے اور ہر طرف عدم برداشت کا سماں ہے۔پہلے پہل لوگ ایک دوسروں کا احترام اور ادب کیا کرتے تھے اب تو عالم یہ ہے کہ راہ چلتے کسی سے ٹکر بھی لگے تو گالم گلوچ اور نوبت ہاتھا پائی تک پہنچ جاتی ہے۔ہمارے معاشرہ ساز ہی سماجی برائیوں میں مبتلا ہو رہے ہیں۔اور کوئی حق و سچ کا برملا اظہار بھی نہیں کرپا رہے ۔اور ہووے پتر جلال تے کھوتا سارا ہی حلال والی کہاوت پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔

آئیے ہم سب ملکر یہ عہد کریں کہ معاشرے کی بھلائی کے لئے عدل و انصاف اور مساوات کو فروغ دیں۔اور قومیت ،لسانیت اور اقرباء پروری سے دور رہیں ۔اور ایک مثالی معاشرے کی تشکیل کے لئے اپنے حصے کی شمع جلائیں۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button