گلگت بلتستان

پبلک اکا ؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں سابق گورنر سیکرٹریٹ میں گھپلوں کا انکشاف

گلگت( سٹاف رپورٹر) پبلک اکا ؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں سابق گورنر سیکرٹریٹ میں سنگین گھپلے کا انکشاف کیا گیا ہے۔ جمعرات کے روز پبلک اکا ؤنٹس کمیٹی کا اجلاس چیئر مین (ر) کیپٹن سکندر علی کی صدارت میں ہوا ۔ جس میں سابق ادوار میں گورنرسیکریٹریٹ کے فنڈز میں گھپلے کا انکشاف کیا گیا۔ اجلاس میں کہا گیا کہ 2013-14میں سابق گورنر گلگت بلتستان پیر کرم علی شاہ کے دور میں ایک ہی دن میں 14 لاکھ95ہزار روپے گاڑیوں کی مرمت کے نام پر ایک ورکشاپ کو ادا کیا گیا تھا۔ جس پر پبلک اکا ؤنٹس کمیٹی نے اس واقعے کی چان بین کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دی جو ان کی تحقیقات کر کے اپنی رپورٹ پبلک ا کاونٹس کمیٹی کو پیش کر یگی۔ پبلک اوکانٹس کمیٹی نے کہا کہ گورنر سیکرٹریٹ کی جانب سے ایک ہی دن میں اتنی بڑی رقم کو چیک کے ذرئعے ادا کرنا غیر قانونی ہے اورصدر پاکستان کی جانب سے اجازت نامہ ضروری قرار دیا گیا۔

گورنر سیکریٹریٹ کی جانب سے کہا گیا کہ نئی گاڑیاں نہیں ملنے کی وجہ سے ان پرانے گاڑیوں کو مرمت کرنے کی ضرورت پیش آئی اور 1975ایکٹ کے مطابق تمام صوبوں کے گورنر کو دیے گئے اختیارت کو گلگت بلتستان میں بھی رائج کیا گیا ہے اور گورنر اپنے ثواب دیدی اختیار استعمال کر سکتا ہے۔ 2014-15میں 7لاکھ 82ہزار روپے گلگت اور اسلام آباد میں قائم گورنر ہاوس کے ذمے ٹیکس واجب ادا ہیں جو کہ تاحال ادا نہیں کئے گئے ہیں۔ جس میں انکم ٹیکس ، سیلز ٹیکس، ہارڈ اینڈ کولڈ ٹیکس، ٹرانسپورٹ کی مد میں ٹیکس ادا نہیں کئے گئے ہیں۔ پبلک اوکانٹس کمیٹی میں یہ بھی کہا گیا کہ 1975ایکٹ کے مطابق گورنر یا وزیر اعلیٰ اسلام آباد میں دفتر قائم نہیں کر سکتا ہے۔ اگر گورنر اور وزیر اعلیٰ اسلام آباد میں دفتر کرایے پر لے سکتا ہے تو وزراء اور پارلیمانی سیکرٹری کو بھی اسلام آباد میں دفتر دینا ضروری ہے۔ البتہ 1975کے ایکٹ میں ترمیم کر کے گورنر اور وزیر اعلیٰ اسلام آباد میں دفتر قائم کر سکتے ہیں۔ اجلاس میں اس مسلے کے حل کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا جس میں ایڈووکیٹ جنرل ، سیکرٹری لاء اور دیگر اعلیٰ حکام قانون کے تقاضے کے مطابق اس مسلے کا حل تلاش کرے۔

اجلاس میں کہا گیا کہ 2013-14میں 2کروڑ 48لاکھ 87ہزار روپے قانونی تقاضے کو پورے کئے بغیر گورنر ہاوس پہ خرچ کئے جس میں سٹیشنری، ہارڈ اینڈ کولڈ، کچن کے اخراجات اور ٹرانسپورٹ میں خرچ کئے ہیں۔ اس مسلے پر گورنر سیکریٹریٹ کی جانب سے پی اے سی کو مکمل بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ گورنر چونکہ وفاق کا نمائندہ ہو تا ہے اس لئے گورنر کو یہ اختیارت ہے کہ وہ اپنے مہمانوں اور اپنے سیکرٹریٹ پر خرچ ہونے والے اختیارت استعمال کر سکتا ہے جس پر پی اے سی نے اطمینان کا اظہار کیا۔

پبلک ا کاونٹس کمیٹی میں یہ بھی انکشاف ہو ا کہ 2013-14میں 21لاکھ 50ہزار روپے سرکاری خزانے سے ایک دن میں ڈی ڈی او گورنر سیکرٹریٹ محمد فاروق لون کے پرائیویٹ بنک ا کاونٹ میں ٹرانسفر کیا تھا۔ گورنر سیکرٹریٹ کی جانب سے پی اے سی کو بتایا کہ گورنر کی ثواب دیدی اختیار میں ہے کہ وہ کسی مستحق افراد اور ادارے کو دینے کے لئے اس رقم کو استعمال کرے۔ پی اے سی نے اجلاس میں کہا کہ قانون کے مطابق 10 لاکھ سے زاہد رقم گورنر کے اختیارت میں شامل نہیں ہے۔ اجلاس میں فیصلہ کیا کہ اس مسلے کے لئے ایک کمیٹی قائم کیا جائے جو قانون کے مطابق اس مسلے کا حل تلاش کر کے رپورٹ پیش کر ئیگااور سیکرٹری لاء ، اے جی سے میٹنگ کر کے اس پر غور کیا جائے گا۔

اجلا س میں 2013-14کو 1کروڑ 80لاکھ لاگت گاڑی پر مرمت کے نام پر اسلام آباد میں 19لاکھ روپے خرچ کئے ۔ گورنر سکریٹریٹ کی جانب سے پی اے سی کو بتایا کہ اسلام آباد کے ایک ورکشاپ میں شارٹ سرکٹ کے باعث یہ گاڑی مکمل طور پر جل گیا تھا جس پر یہ خرچ کیا۔

2015-16میں گورنر سیکریٹریٹ اسلام آباد اور گلگت پہ 33لاکھ 60ہزار روپے ٹیکس واجب ادا ہیں۔جس پر اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے ٹیکس میں کوئی چھوٹ نہیں دی جائے گی۔ گورنر سیکریٹریٹ سے ہرحال میں انکم ٹیکس وصول کی جائے گی۔اجلاس میں ایک ہفتے کے اندر اے جی کے ساتھ نشت کر کے گورنر سیکریٹریٹ میں ہونے والے گھپلوں کی تحقیقات کی جائے۔

اجلا س میں ممبر پبلک ا کاونٹس کمیٹی (ر) کیپٹن محمد شفیع، نسرین بانو، میجر امین بھی شامل تھے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button