بلاگز

پی ایس ایل کا فائنل قذافی سٹیڈیم لاھور سے براہ راست

تحریر :۔ محمد نسیم ادا

اگرچہ احقر کبھی میدان کا کھلاڑی نھیں رھا نہ ہی میں کھیلوں کا دلدادہ ہوں۔ لیکن جب بھی کبھی ایسا موقع آتا ہے کہ جس پرپوری قوم ایک صفحے پرہوں تو دلچسپی پیدا ہوجاتی ھے۔ پاکستان سپرلیگ بھی ایک ایسا میلہ بن گیا ہے جس پرپوری قوم ایک صفحے پرنظر آتی ہے۔اور خاص بات یہ کہ اس کا فائنل لاھور میں ہونے سے پاکستان میں انٹرنییشنل کرکٹ کی بحالی کے امکانات روشن ہوئیں ہیں۔ لہذا دیگر پاکستانیوں کی طرح مجھے بھی فائنل کے دن کا شدت سے انتظارتھا۔ بلآخرفائنل کے دن کا سورج اپنے آب وتاب کے ساتھہ طلوع ہو گیا۔ مشکل سے دن ڈھل گیا۔ رات ہو گئی اور میچ شروع ہونے کا وقت آن پہنچا مگر بدقسمتی سے بجلی نہیں آئی۔ دلوں کی دھڑکنیں تیز ہوتی گئیں، مگر بجلی کے انتظار میں کافی رات ہوگئی۔

میں تکیے پر سر رکھہ کرہاتھہ میں ریموٹ لیے ٹی وی کے اگے لیٹ گیا۔باربارمیری نظر بجلی کے بلب اور ٹی وی پر پڑتی رہی کہ کہیں لائٹ آجائے تو پورا میچ نہ سہی کم از کم آ خری آورز ہی دیکھہ لوں۔ میں اسی انتظار میں تھا کہ نہیں معلوم کیسے؟ لیکن، میں قذافی سٹیڈیم لاھور پہنچ گیا۔

وہاں پہنچ کر جب اندر جانے لگا تو ایک سکیورٹی اہلکارنے روک کر میری شناخت دریافت کرتے ہوئے کہا کہ ضلع ، تحصیل کے ساتھہ ساتھہ اپنے گاؤں کا نام بھی بتائیں۔ جب میں اپنا تعارف کراچکا تو انہوں نے مجھے ’’ظلمت انکلیو‘‘ میں جا کر میچ دیکھنے کا کہا۔ مجھے حیرت تو ہوئی، لیکن بہرکیف میں میچ دیکھنے کے لئے نشاندہی کردہ ظلمت انکلیو میں داخل ہوگیا تو میں حیران رہ گیا کیونکہ وہ ایک تنگ و تاریک کمرہ ہی تھا جہاں سے میچ دیکھنا تو دور کی بات میدان کا نظارہ بھی ممکن نہ تھا۔ کمرے کے اندر پہنچنے کے بعد مجھے لگا کہ وہاں کچھہ لوگ پہلے سے بیٹھے ہوئے ہیں۔ میرے پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ ہم ادھر آکر پھنس گئے ہیں،سکیورٹی اہلکاروں کے مطابق اب ہم نہ تو میچ دیکھہ سکتے ہیں نہ ہی میچ ختم ہونے سے پہلے کمرے سے باہر جا سکتے ہیں۔ میں نے لوگوں سے کہا کہ میرے ساتھہ آئیں، ان سے میں بات کرتا ہوں۔ میں ان لوگوں کے ہمراہ سکیورٹی اہلکار کے پاس گیا اوران سے میچ دیکھنے یا وہاں سے باہر جانے کی اجازت مانگی توانہوں نے اجازت دینے سے صاف انکار کر دیا۔ اس بات پر میری ان سے بحث شروع ہو گء۔ میں نے کہا کیا یہی انصاف کا تقاضا ہے کہ ہم سے ٹکٹ کے پیسے لے کر ہمیں ظلمت انکلیوڑر میں بند کر دیا ہے اور باقی سب میچ کے مزے لے رہے ہیں۔ جتنا میچ دیکھنے کا حق باقی سب کو ہے اتنا ہمیں بھی ہے۔

میری باتیں سن کر اس اہلکار نے مجھے ٹوک کر کہا کہ تمھارے منہ سے حقوق کی باتیں اچھی نہیں لگتی۔ جب میں نے پوچھا کیوں؟ تو انہوں نے میرے سوال پر سوال کرتے ہوئے پوچھا کہ تم جس علاقے سے تعلق رکھتے ہو وہاں کے باسیوں کو کیا تمام حقوق میسر ہیں؟ میں نے علاقے کا بھرم رکھنے کی خاطر ہاں میں جواب دیا تو انہوں نے مزید ٹوکتے ہوئے کہا کہ مجھہ سے جھوٹ بولنے کی ضرورت نہیں۔ میں بھی اسی علاقے کا فرد ہوں اور میں ملازمت کی خاطر کسی سکیورٹی ادارے میں کام کرتا ہوں لہذا میں سب جانتا ہوں۔ انہوں نے مسائل کی طرف نشاندہی کرتے ہوئے کہا شگر کے بہت سارے علاقے ایسے ہیں جہاں بنیادی ضروریات میسر نہیں۔ چند علاقوں کی عوام گندم اور آٹے کی باریوں کا انتظار کر رہی ہے تو کچھہ لوگ فکر معاش میں دربدر ہیں۔ اگر تعلیم کی بات کی جائے تو چند گاؤں ایسے ہیں جہاں بنیادی تعلیمی ادارے نہ ہونے کے ساتھہ ساتھہ وہاں کے لوگوں میں علمی شعور و آگہی بھی ناپید ہے۔ چند والدین ایسے بھی ہیں جن کیبچے سکول تونہیں جا رہے ہیں اس پر مزید یہ کہ وہ بچے جو ماؤں کے پیٹ اور گود میں ہیں انہیں بھی سکول بیجھنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔اگر بات صحت کی بنیادی سہولیات کے بارے میں ہوں تو کچھہ علاقوں میں چند بنیادی مراکز علامتی طور پر موجود ہیں مگر ان سے کوئی خاطر خواہ فائدے حاصل نہیں ہوتے۔ دوران زچگی پیدا ہونے والے مسائل کے ان گنت داستانیں زبان ذد عام ہیں۔ مگران کو حل کرنے کا کام روایتی دائیوں اور عاملوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیاگیا ہے۔ نتیجتًا سال بہ سال ماؤں اور بچوں کی شرح اموات بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ بجلی سے متعلق بات ہو تو پورے پاکستان کے سطح پرشگر کولوڈ شیڈینگ فری زون قرار دیا جاتا ہے مگر حد تو یہ ہے کہ شگر میں ایک گاؤں ایسا بھی ہے جہاں اب تک بجلی کی سہولت قطعًا میسر نہیں۔ شگر سنٹر کے قرب وجوار میں کچھہ گاؤں ایسے ہیں جہاں بجلی آنے سے پہلے جانے کی خبر لے کر آتی ہے۔ ان بے شمار مسائل کا ادراک رکھنے کے باوجود تم سب کے منہ پر مصلحت کے تالے لگے ہوئے ہیں اور کوئی اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کرنے کو تیار نہیں۔ اور یہاں آ کر کھیل کی خاطر حق کی بات کر رہے ہو۔اگرچہ شگر میں قدرت کے عطا کردہ بے شمار وسائل ہیں لیکن تم لوگوں کو اس سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو رہا ہے جس طرح ابھی سٹیڈیم میں موجود ہونے کیباوجود تم میچ نہیں دیکھہ پا رہے ہو۔

اس سکیورٹی اہلکار کی لمبی تقریر سننے کے بعد میرے پسینے چھوٹنے لگے اور شرمندگی کے باعث اپنا سر کھجاتے کھجاتے میری آنکھہ کھل گئی توخود کواس حالت میں پایا کہ میں ٹی وی کےآگے ہاتھہ میں ریموٹ لئے لیٹا ہوا تھا، اور بجلی نہیں تھی۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button