اگلے انتخابات کے لئے ہر ایک نے اپنے لئے حسین خواب سجایا ہوا ہے ۔۔اقتداویسے بھی نشہ ہے ۔۔سب حسین خواب دیکھ رہے ہیں ۔۔لیڈروں کا اپس میں کھینچاتانی ہے ۔۔کرسی کی آرزو ہے ۔۔کارکنوں میں کشمکش ہے ۔۔مفادات کی جنگ ہر سو بپا ہے ۔۔ہر کوئی اپنی پارٹی کے بر سراقتدار آنے کا خواب دیکھ رہاہے ۔۔ایک دوسرے پر تنقید ہیں ۔اپنا اپنا الو سیدھا کیا جا رہا ہے ۔۔پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ نون ،قاف ،عوامی لیگ ،پی ٹی آئی،جماعت علمائے اسلام، جماعت اسلامی اور کم ازکم ۲۰۰سے اوپر پارٹیاں سب اپنا راگ الاپ رہی ہیں ۔۔لیکن کسی کو اس بات پہ یقین نہیں کہ فیصلے آسمان پہ ہوتے ہیں ۔۔جدوجہد خلوص چاہتی ہے ۔۔لیڈرشپ معیار چاہتی ہے ۔۔اقتدار خدمت چاہتا ہے ۔۔کہتے ہیں فرغون نے ۴۰۰ سال حکومت کی۔۔ کہتے ہیں کمبخت شروع میں عادل تھا بعد میں مغرور بن گیا ۔۔اللہ کے انعامات بھلا بیٹھا۔باغی ہو گیا اپنے آپ کو خدا کہنے لگا اور دنیا و آخرت میں رسوا ہو گیا ۔۔ شبلی فرماتے ہیں ۔شاید عدل کی وجہ سے اللہ کریم نے اسے ڈیل دی تھی ۔۔نوشیروان عادل تھا ۔۔ایران کا سائرس اعظم عادل تھا ۔قران نے اس کو ذولقرنین کے نام سے پکارا۔۔
تاریخ گواہ ہے ۔جس نے بھی اللہ کی مخلوق کی خدمت کی وہ اللہ کی رحمت کے سائے میں رہا ۔۔اس کو اقتدرملا۔ اس کو عزت ملی۔۔جب وہ اللہ کی مخلوق سے لا پرواہ ہوا ۔اقتدار چھینا گیا ۔۔اقتدار کا سورج ابھرتا ڈوبتا ہے ۔۔جب ڈوبتا ہے تو نام و نشان مٹ جاتا ہے ۔۔موجودہ دور میں دنیا سے مطلق الغنانیت ختم ہو گئی ہے ۔۔جمہوریت کا راگ ہر کہیں الاپا جا رہا ہے ۔۔لیکن لیڈرشپ تاریخ سے سبق نہیں سیکھتی ۔۔لیڈر کو چاہئے کہ وہ دنیا کی تاریخ کا حافظ ہو ۔قوموں کا عروج و زوال اس کو زبانی یاد ہو۔۔وہ زوال کی وجوہات سے اگاہ ہو ۔عروج کا گر جانتا ہو ۔۔ہمارے ہاں بس بے ہنگم شور ہے ۔۔کریڈٹ کوئی نہیں دیکھتا ۔۔خدمت کو معیار کوئی نہیں سمجھتا۔۔اسلام کے اندر سیاست ڈھونڈنے والے بھی اس صفت سے عاری ہیں ۔۔المیہ یہ ہے کہ پہلے وہ اپنے آپ کو اقتدار کے قابل ہی نہیں بناتے ۔۔اقتدار واحد ضرورت ہے جس کی بھیک نہیں ۔۔نہ مانگی جاتی ہے ۔۔البتہ اپنے آپ کو اقتدار کے قابل بنانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔۔ظلم ،نا انصافی،بے راہروی اور غلامی کے خلاف لڑنا ایک معیار ہے ۔کرسی مانگ کر پھر کرسی حاصل کرکے خلق خدا سے غافل ہونا کوئی معیار نہیں ۔۔جو طاقتور اور ایماندار ہے وہ خود سٹیج پہ کھڑے ہو کر اپنے آپ کو ایماندار نہیں کہتا ۔لوگ اس کو ایماندار سمجھ کر اس کو لیڈر مانتے ہیں ۔۔وہ خود اپنے آپ کو ’’کمزور و ناچیز‘‘کہتا ہے ۔مگر لوگوں کا اعتماد اس پر مضبوط ہوتا جاتا ہے ۔۔ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے ہاں بھی سچی لیڈر شب کی یہی معیار ہونا چاہیئے۔مگر ہمارا شکوہ ہے کہ ایسا نہیں ہوتا ۔۔اس جمہوریت کے دور میں اپنا الو سیدھا کرنا بہت پست درجے کی سیاست ہے ۔۔اسلام میں تو ایک دوسرے کی تعریف کرنے کی سختی سے ممانعت ہے ۔اپنی من مانی کرنا تو معیوب ہے ۔۔وہ لوگ جو سیاست کو مذہب سے دور رکھتے ہیں وہ شاید اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ اسلام اور سیاست کا اپس میں کوئی تعلق نہیں۔۔ وہ تو قابل رحم ہیں ۔لیکن وہ لوگ جو مذہب کے اندر رہ کر سیاست کرتے ہیں ۔ان کو تو کم از کم سچی اور اصل اسلامی سیاست کا گر آنا چاہیئے ۔۔دنیا کی بڑی جمہوریتوں میں من مانیاں کم ہیں پالیسیاں اور اصول زیادہ ہیں۔ حسب اختلاف اور حسب اقتدار دونوں کے مثبت رول ہیں ۔دونوں کا بدف ملک کی تعمیر ہوتا ہے ۔۔ہمارے خیال میں’’بدعنوانی‘‘کم از کم حکمرانوں کے ساتھ تو اچھی نہیں لگتی ۔۔
ملک خداداد اللہ کی دین ہے۔ الحمداللہ اس میں جمہوریت پنپ رہی ہے ۔۔اس بار ماشااللہ حسب اقتدار کو ’’خدمت ‘‘کرتے دیکھا گیا ہے اور حسب اختلاف کو ’’خدمت‘‘ کراتے دیکھا گیا ہے ۔۔کوتاہیاں کمزوریاں بشری تقاضے ہیں ۔۔مگر بہ حیثیت قوم اپنا وقار بلند رکھنا ہمارا فرض ہے ۔۔یہ حکمرانوں پہ تو قرض ہے ۔۔اگر ہمارے حکمران اگلے انتخابا ت کی ’’تیاری‘‘ کے سلسلے میں پروپگنڈے کی سیاست کی جگہ سچ بولیں گے تو دیکھیں گے کہ قوم کتنا بیدار اور سنجیدہ ہو گئی ہے ۔۔یہ سٹیج پہ کھڑے ہوکے اپنی کمزوریاں اور مجبوریاں پیش کریں ۔کریڈ ٹ لینے کی بجائے فیصلہ اللہ پہ چھوڑ دیں ۔عوام کی عدالت میں اپنے آپ کو پیش کریں ۔کوتاہیوں پہ پردہ ڈالنے کی بجائے پردہ اٹھا دیں تو یہ ان کی بڑائی اور عظمت ہوگی ۔۔اگر سیاست میں پاکیزگی آجائے تو نہ چاہتے ہوئے بھی سچ بولا جاتا ہے ۔۔یہ سر زمین پاک ہے اور ہر مرحلے میں پاکزگی چاہتی ہے ۔۔تو لہذا پاک سرزمین کے عظیم لیڈرو؛۔۔اگلے نتخابات کے لئے اپنے آپ کو سچائی کے اب زمزم سے غسل دو ۔اقتدار کا تاج خود بخود تمہارے سر پہ سجے گا ۔۔یہ کیفیت میرے خیال میں سب محسوس کرتے ہیں مگر پتہ نہیں اس کا اظہار کرنے میں کونسی مجبوری رکاوٹ بنی ہوئی ہے ۔۔یہی المیہ ہے۔۔ جون ایلیا نے کہا تھا ۔۔۔
ایک ہی حادثہ تو ہے اور وہ یوں کہ آج تک
بات نہیں کہی گئی بات نہیں سنی گئی