کالمز

ماں ، بچہ اور ہمارا معاشرہ

عرصہ چھ سال سے تدریس کے عمل سے وابستہ ہوں آ ن عرصے میں بچوں میں جس بات کی کمی محسوس کی وہ اخلاقی معیار ہے۔ہمارے بچے ہر لحاظ سے قابل اور ذہین ہیں لیکن اخلاقی تربیت کی کمی جبکہ علم سے اگر ادب کو نکالا جائے تو پیچھے صفر رہجاتا ہے۔والدین سمجھتے ہیں کہ بچوں کو سکول میں داخل کروا کر اپنا فرض پورا کیا۔کل ایک بچے کی ماں سکول میں آئی اس نے بتایا کہ اس کا بیٹا اس کی بات نہیں مانتا مجھ سے لڑتا رہتا ہے دن بھر کھیلتا رہتا ہے۔شام کو گھر آکر ٹیلی ویژن دیکھتا ہے کتابوں کو ہاتھ لگانا گناہ سمجھتا ہے۔آپ لوگ اس کو سمجھائے۔میں نے کہا ٹھیک ہے ہم سمجھاتے ہیں اور پہلے پیریڈ میں5منٹ بچوں کو ہم اخلاقی لیکچر کیلئے مختص کرتے ہیں لیکن میرا آپ سے ایک سوال ہے آپ سے آپ کا بچہ تو ہمارے سکول میں آئے ایک مہینہ ابھی ہوا ہے لیکن آپ کے ساتھ تو یہ سات سالوں سے رہتا ہے کبھی آپ نے اپنے بیٹے کو یہ بتایا کہ آپ نے اپنے سے بڑوں کیساتھ کیسے بات کرتے ہیں کھانا کیسے کھاتے ہیں امی ابو سے کس طرح بات کرتے ہیں ، اپنے سے بڑوں کا احترام کرنا ضروری ہے گھر میں پڑھائی کے وقت پڑھنا اور کھیل کے وقت کھیلنا ہے۔مجھے بتائیں کبھی آپ نے اپنے بیٹے کو بتایا کہ اچھے اوربرے میں تمیز کیا ہے۔

اس کی خاموشی بتا رہی تھی کہ شاید اس نے کبھی اپنے بیٹے کو کبھی اخلاقیات پر5منٹ بھی بتایا ہو۔ہمارے معاشرے میں آج اخلاقی معیار اتنا گرا ہوا ہے کہ بچے اور والدین کے بیچ جو ادب کی لکیر ہوتی ہے وہ مٹ چکی ہے۔بات بات پر ماں باپ پر غصہ کرنا آنکھیں دکھانا عام معمول بن چکا ہے۔ماں باپ اپنے بچوں سے بات کرنے سے ڈرتے ہیں، اب تو یہ حالت ہوئی ہے کہ باپ کسی اور فرد کے ذریعے بچے کو اپنی بات بتلادیتا ہے۔ان اخلاقی بیماریوں کا سبب والدین خود ہیں کیونکہ انسان کی پہلی درگاہ جو ہوتی ہے وہ ماں کی گود ہوتی ہے۔

نیپولئن نے کہا تھا کہ آپ مجھے دنیا کی بہترین مائیں دو میں آپ کو اچھی قوم دونگا۔باپ روزی کمانے گھر سے باہر رہتا ہے ماں ہر وقت گھر میں موجود رہتی ہے اور ماں کی لاپرواہی بچے کو اس سٹیج پر لاکر چھوڑتی ہے کہ وہ ماں باپ کی بے ادبی جیسے گناہ کرتا ہے۔اگر ماں بچے کے اخلاقی تربیت پر توجہ دیں اور اس کی ہر وقت نگرانی اور اصلاح کرتی ہے تو وہ بڑا ہوگر جہاں ماں باپ کا فرمانبردار بنا رہے وہاں وہ معاشرے کا ایک اچھا فرد بھی بنتا ہے۔آج کل سکولوں کی بھرمار، اور معیار کی کمی کی وجہ، سے بچوں کی سکولوں میں بھی اخلاقی تربیت نہیں ہوتی گلی کوچوں میں کھولنے والے سکول بچوں کے اخلاقیات پر وہ توجہ نہیں دے پا رہی ہوتے ہیں جو دنیا چاہے ان کو اپنے فیسوں سے گزر ہوتی ہے۔اور بعض سکولوں میں تو ایسے اساتذہ لگائے جاتے ہیں جن کو خود اخلاقی تربیت کی ضرورت ہے کیونکہ ان لوگوں کو ٹیچر لگایا جاتا ہے جو میٹرک پاس ہو یا زیادہ سے زیادہ ایف اے پاس جو کم تنخواہ پر بھی پڑھانے پر راضی ہوتے ہیں آج جو اخلاقی پستی ہے اس کے ذمہ دار پرائیوٹ سکولز اور گورنمنٹ کے وہ سکول ہیں جہاں پر اکثر ٹیچرز خوش گپوں میں وقت گزارتے ہیں۔

اب ماں کی لاپرواہی اور سکولوں کی مجرمانہ غفلت اور کوتاہیوں کی وجہ سے ہمارے بچے ڈگریاں تو لیتے ہیں مگر تعلیم حاصل کرنے کا اصل جو مقصد ہوتا ہے اس سے عاری ہوتے ہیں اور یہ جب معاشرے میں آتے ہیں تومعاشرے کے بگاڑ کا سبب بنتے ہیں ہمارے معاشرے میں عدم برداشت کی وجہ سے لڑائی جھگڑے عام ہوتے ہیں۔لوگ ایک دوسرے کی عزت نہیں کرتے جھوٹ اور فریب، چوری چکاری عام ہوئی ہے گوکہ بچے کی پہلی درسگاہ اور دوسری درسگاہ ، تیسری، درسگاہ جو معاشرہ ہوتا ہے، میں جاتا ہے تو وہ معاشرہ بے سکونی اور ناانصافیوں کی آماجگاہ بن جاتا ہے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button