کالمز

بائی پاس روڈ اور حادثات کا تسلسل

تحریر: ارشاد اللہ شادؔ

بات ایک ہی ہے، عنوان بدل بدل کر سامنے آتی ہے ، حل بھی ایک ہی ہے،تعبیر تعبیر بدل بدل کر بیان کیا جاتا ہے۔عنوان اور تعبیر یکجا ہوجائے تو دیرینہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔یہ وہ سوال ہے جو الفاظ کے ذرا سے ردو بدل کے ساتھ مختلف لوگوں کی زبانوں سے مختلف انداز میں سامنے آتا رہتا ہے۔ کس قدر خوفناک اور دہشت سے لبریز سماں ہے ، ایک طرف موٹر سائیکل لگے دوسری طرف گاڑی آکے کچل ڈالے ، فضا میں موت کی بُو دماغ کی رگوں میں گھس رہی ہے، ہر سُو موت رقص کرتی دکھائی دیتی ہے ، جس سمت بھی دیکھو مایوسی استقبال کیلئے کھڑی ہے۔ابھی چند روز پہلے ایک بچہ اس روڈ پر اس طرح ایک موٹر سائیکل سوار کے ٹکر مارنے سے اللہ کو پیارے ہوگئے تھے ۔ لیکن آج پھر بائی پاس روڈ پر موٹر سائیکل سوار شخص نے ایک خاتون کی جان لے لی۔
ہم بحیثیت قوم آزمائیشوں کے ایک کٹھن دور سے گزر رہے ہیں۔ ایک جانب ہمارے اپنے پیدا کردہ مسائل ، ہمارے حکمرانوں کی پالیسیوں اور طبقہ اشرافیہ کی لن ترانیوں کی بدولت جنم لینے والے بحرانوں، بد امنی، خودکشی، مہنگائی، لوڈشیڈنگ اور معاشرتی بگاڑ اور سماجی ٹوٹ پھوٹ کے عذاب ہم پر مسلط ہیں تو دوسری جانب شاید اپنی شامت اعمال ہی کے باعث ہم مسلسل نا گہانی آفات اور قدرتی آزمائیشوں سے دوچار ہیں۔ یہ حادثات ہمارے دکھوں اور المیوں میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔ اور بد قسمتی کی بات یہ ہے ہم اب ان حادثات و سانحا ت کو معمول کی بات سمجھ کر نظر انداز کرنے لگے ہیں۔ ہمارے ہاں ایسے لوگ بڑھتے جارہے ہیں جو اس طرح کے حادثات کے محض ظاہری و تکنیکی اسباب کو ہی اصل قرار دیتے ہیں۔

ذہن ،سوچ اور دل کڑھتا ہے ۔ ہمارے بڑے تو ہمیں ہر کام اہتمام اور حسن انتظام کے ساتھ کرنا سکھاتے ہیں ، پھر اس کے ماننے والے ہی کیوں اس میدان میں پیچھے ہیں۔حادثات سے بچاؤ یا کسی بھی حادثے کے بعد اس کے نقصانات کو کم سے کم رکھنے کیلئے اسباب اختیار کرنے کی کوئی ممانعت نہیں ہے بلکہ انسانی جانوں کے ضیاع بننے والے عوامل کو روکنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اسلئے ہمیں ان حادثات و سانحات کے ظاہری اسباب پر بھی ضرور نظر رکھنی چاہیے۔ کسی بھی حادثے کے بعد واقعے کی تحقیقات کرواکے اس میں ممکنہ انسانی کوتاہی و غفلت کی نشاندہی کر کے آئندہ کیلئے ایسے حادثات سے بچاؤ کی تدابیر کی جانی چاہئیں،لیکن جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا اس سانحات کے باطنی اسباب کو بھی ہر گز نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے او ر ان اسباب کے سد باب کی بھی فکر کرنی چاہئے۔

ضلع چترال جس کی آبادی تقریباََ 5لاکھ ہے اور ایک اندازے کے مطابق موٹر سائیکلوں کی تعداد کم از کم 4لاکھ بتائی جاتی ہے۔ جن میں اکثر بغیر رجسٹریشن کے چلاتے ہیں ، اور لائسنس اکثر کے پاس ندارد، ٹریفک پولیس تو شاذو نادر کسی کو چلان کرتے ہیں جو 200روپے سے لیکر 600روپے تک ہوتا ہے ۔ اس کے بعد وہ ایک مہینے تک فری ہینڈ موٹر سائیکلیں دوڑاتے پھرتے ہیں۔ چترال میں ٹریفک حادثات کے اعداد و شمار بھیانک اور انتہائی تشویشناک ہیں جس کا اندازہ دستیاب مواد سے لگایا جا سکتا ہے۔

میں بحیثیت طالبعلم ضلعی انتظامیہ اور محکمہ پولیس سے گزار ش کرتاہوں کہ اس امر پر خصوصی توجہ دیں اور ایسے لوگوں کو چلان کے ساتھ ساتھ ان کے والدین کو پولیس اسٹیشن بلا کر انہیں وارننگ دیا جائے۔

ویسے تو اس ٹریفک حادثے میں جتنے بھی افراد اللہ کو پیارے ہوگئے سب کی جانیں قیمتی تھی،اور ان سب کی اہل خانہ ہمدردی و تعزیت کے مستحق ہیں۔وقت حال کی ضرورت ہے کہ ٹریفک قوانین کے بارے میں عوامی آگہی کیلئے سوشل میڈیا میں روزانہ کی بنیادپر پیغامات نشر کریں تو عین ممکن ہیں کہ اس سنگین مسئلے کا حل ظاہر ہوگا۔ قوی امید ہے کہ ضلعی انتظامیہ اور ٹریفک پولیس ان حادثات کی روک تھام کیلئے مثبت قدم اٹھائیں گے۔
شاید کہ ترے دل میں اتر جائے مری بات
قلم ایں جا رسید و سر بشکست…!

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button