کالمز
رُموز شادؔ ۔۔ ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ کے نام ایک تحریر۔۔


محتاج نہیں۔ آپ ماہر علوم و جدید ہے۔ آپ کے ظاہری و باطنی کمالات ، علمی خدمات ، معرکہ حق و باطل میں آپ کی سرفروشیاں اور علم افروزیاں ہر خاص و عام کو معلوم ہے۔ بالخصوص معاشرے کی بہبود اور عالم اسلام کی فلاح، علم و حکمت ، طب و سائنس، تہذیب و ثقافت، تعلیم و تربیت، صحافت ، رسائل و جرائد اور اشاعت کتب ، کردار و اخلاق کی تعمیر میں آپ کی خدمات نمایاں ، فقید المثال اور دور رس اثرات کی حامل ہے۔ اس لحاظ سے اگر فیضیؔ صاحب کو رئیس المضامین کہہ دیا جائے تو بے جا نہیں ہوگا۔ اس کے عقیدت مندوں کا جم غفیر ہے۔ آپ زبان و بیان و کالم سے خفتہ دلوں کو جگاتے ہیں اور قلم سے ماؤف ذہنوں کو صراط مستقیم پر ڈالتے ہیں ۔ آپ دور جدید کے تقاضوں کے عین مطابق دینی ، دنیوی، معاشی، سماجی اور سیاسی نظریات شرح وبسط کے ساتھ پیش فرماتے ہیں جس سے حضرت کے علمی مطالعے کی وسعت کا اندازہ ہوتا ہے۔ فیضیؔ صاحب مضامین کی عناوین کو لفظوں میں اس طرح اجاگر کرتا ہے کہ قالَ کے بجائے حالَ بنتے ہیں ۔ ہر جملہ گویا دامن محبوب کو تھام کر صدا لگا رہا ہے۔ اور مضامین کی ان عناوین پر اس طرح گہرائی اور گیرائی سے قلم بند کرنا آج تک فیضیؔ صاحب کے علاوہ کوئی بھی میری نگاہوں سے نہیں گزری ، یا مجھ جیسی محدود العلم کے مطالعے میں نہیں گزری ۔ فیضیؔ صاحب کی تمام تر مضامین جس انداز سے لکھتاہے بندہ عاجز صرف اتنا لکھ سکتا ہے کہ ایک پاکیزہ صدا بصحرا اور داد بیداد کے مترادف کڑی ہے بلکہ ایک سنہری لڑی ہے۔ روحانی ، باطنی، نظریاتی و سیاسی بلکہ میں تو یوں کہتا ہوں کہ دور حاضر کے تما م حالات کی عقدہ کشائی کیلئے یہ مضامین ایک مرشد و مرّبی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اور راقم الحروف فیضیؔ صاحب کی تما م تر مضامین کا بالاستیعاب مطالعہ کیا ہے ۔ ایک ایک لفظ سے حکمت و معرفت کے سوتے پھوٹ رہے ہیں ۔ ایک ایک جملہ خلوص میں ڈوبا ہوا ہے ، ایک ایک مضمون دور جدید کے تقاضوں کے ہم آہنگ سبق آموز جذبوں کا شاہکار ہیں۔اس کی ایک ایک سطر حسن خلق، حسن ادب کی مٹھاس میں گوندھی ہوئی ہے۔ دراصل حقیقت میں یہ مضامین اردو ادب میں بھی ایک حسین اضافہ ہے ۔ جابجا عربی ،، فارسی، اور اردو مفاہیم و مطالب سے اخذ ہے۔ فصاحت و بلاغت کے ہر جا نمونے موجود ہیں۔ اور صاحب ذوق قاری الفاظ و معانی سے پوری طرح لطف اندوز ہو سکتے ہیں ۔ ادب کا صحیح مذاق رکھنے والے حضرات بھی بھر پور استفادہ و استفاضہ اٹھا سکتے ہیں ، اور مشاہدہ کرنے والے عوام النّاس اپنے من کو موصوف کی دلنشین مضامین سے سیراب کر سکتے ہیں ۔ آپ کی ہر ایک بات سامع کی گہرائیوں میں اترتی جاتی ہے ،اور بے شمار ایسے مضامین ہے کہ قاری کو محویت کے عالم میں لے جاتے ہیں اور انگلی تھام کے منزل مقصود کی طرف گامزن کر دیتے ہیں۔