کالمز

استوری عوام کی منتخب نمائندوں سے توقعات

 تحریر:ایڈوکیٹ ایم۔غازی خان آکاش استوری

استوری عوام کا منتخب نمائندوں سے توقعات رکھنا حق بہ جانب ہیں۔عوام نے بھاری مینڈیٹ دیکر ان نمائندوں کو کامیاب کیا ہے۔اب ان نمائندوں پر بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں کہ وہ عوام کے دیرینہ مسائل کے حل کیلئے ٹھوس اقدامات اٹھائیں۔اور عوام میں پائی جانے والی محرومیوں کاازالہ کریں۔اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتاکہ استور GBکا سب سے پسماندہ ضلع ہے یہ محض زبانی با ت نہیں ہے بلکہ حقیقت ہے کہ استور کی عوام آج بھی پتھر دور کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔لوگوں کی اکثریت اپنی مدد آپ زندگی گزانے پر اکتفاکرتے ہیں لوگوں کے اندر محرومیاں حد سے زیادہ بڑھ گئی ہیں جو بیک وقت دور نہیں ہوسکتی ۔منتخب نمائندوں کو سالانہ کے حساب سے مخصوص ترقیاتی بجٹ کا لمٹڈ حصہ دیا جاتا ہے جو کہ ناکافی ہے۔منتخب نمائندوں کو چاہئے کہ وہ عوام کی پسماندگی اور چھ مہینوں کی برف کے سخت موسمی حالات کو بھی مد نظر رکھیں اور وزیر اعلیٰ صاحب، گورنر صاحب سمیت وزیر اعظم پاکستان سے خصوصی طور پر استوری عوام کی محرومیوں کا ذکر کریں اور سالانہ بجٹ میں خصوصی گرانٹ مختص کرائیں اور سر فہرست استور شونٹر روڈ کو سی پیک میں شامل کیا جائے۔استوری عوام کے لئے اجتماعی طور پر جن مشکلات کا ذکر لازمی ہے وہ یہ ہیں۔

۱۔استور میں بالائی علاقوں میں بسنے والی عوام کیلئے سڑک سے برف ہٹانے کیلئے ایک بلڈوزر مخصوص کرنے کی ضرورت ہے۔

۲۔استور کے بالائی علاقوں کیلئے نیٹکو سروس کی توسیع کی ضرورت ہے اور اسپیشل گاڈیوں کا بندوبست کیا جائے تاکہ برف باری کے سیزن میں بھی نیٹکو سروس بحال رہ سکے تاکہ لوگ کا کارپوریٹ (Cooperate)کریں اور لوگوں کو سستا اور آسان سفری سہولت مل جائے اور گورنمنٹ کی اکنامی مضبوط ہوسکے گی دراصل لوگ نیٹکو سروس سے کارپوریٹ اسلئے نہیں کررہے ہیں کیونکہ نیٹکو سروس سردیو ں میں برف پر نہیں چلتی ہیں اسلئے پرائیوٹ گاڑیوں کی طرف رجحان بڑھتا ہے۔

۳۔استوں میں یونیورسٹی کیمپس کا قیام

۴۔Boysاینڈ گرلز کالجز کا قیام۔

۵۔اسکولوں کی اپ گریڈیشن نہایت لازمی ہے بالخصوص گرلز سکولوں کا قیامUpgradationنہایت لازمی ہے۔

۶۔ہسپتالوں اور ڈسپنسریوں کا قیام اور جہاں موجود ہیں وہاں جدید سہولیات سے اراستہ کرنا لازمی ہے۔

۷۔مہنگائی پر کنٹرول کرنا۔

۸۔سرکاری دفاتر سے عوام کو سستا اور آسان انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے۔

۹۔بجلی کی لوڈشیڈنگ پر قابو پانا۔

۱۰۔خواتین کو دستکاری کے مراکز کا قیام ہر گاؤں میں سہلت فراہم کرنا وغیرہ۔

۱۱۔گندم کے کوٹے میں اضافہ کرانا۔

۱۲۔ ایگریکلچرAgricultureکے فروغ کے لئے استور میں اداروں کو وسعت دینا وغیرہ۔

۱۳۔ہوسکے تو کیڈٹ کالج کی منظوری قابل ستائش ہوگی۔

استور میں نہ پرائیویٹ سیکٹرہے اور نہ ہیN.G.Osبالائی علاقوں کا رخ کرتے ہیں مندرجہ بالا کام ایلکٹڈ Electedنمائندوں سے لینے کیلئے عوام کو متحد اور متفق ہو کر ڈیمانڈ کرنا چاہئے تاکہ منتخب نمائندے محض سالانہ ترقیاتی بجٹ پر اکتفا نہ کریں۔وزیر اعلیٰ صاحب کے دائرہ اختیار سے بھی مفاد حاصل کرنے کی کوشش کریں اور وزیراعلیٰ صاحب اور گورنر صاحب سے مل کر وزیر اعظم صاحب سے رسائی حاصل کریں اور کمیاں کو ممکن بنائیں جس سے پوری عوام کا فائدہ ہوگا اور روزگار کے زیادہ مواقع ملیں گے۔

عوم کو روزگار کی فراہمی یقیناًحکومت کی اولین ذمہ داری ہے جسکا ادراک حکومت کو ہونا چاہئے اسلئے نمائندوں کو چاہئے کہ عوام کو روزگار/نوکریاں اداروں کو وسعت دینے سے پیدا کی جاسکتی ہیں اور نئے ادارے بنانے سے نوکریاں پیدا کی جاسکتی ہیں اس طرف نمائندوں کو دباؤ ڈالنے سے فائدہ ہوگا۔موجودہ سسٹم کے اندر اتنی گنجائش نہیں کہ سب کو نوکریان ملیں لیکن عوام کو حق حاصل ہے کہ انہیں روزگار ملے۔حق صحیح سمت کا تعین کرکے حاصل کیا جاسکتا ہے۔کیونکہ یپرائیویٹ سیکٹر نہ ہونے سے سارا زور گورنمنٹ پر ہے حلقہ 2کے نمائندے برکت جمیل کی کارکردگی کی قریباََ دوسالہ کارکردگی سابقہ ادوار کی پانچ سالہ کارکردگی سے زیادہ ہے اسکے کام خود بولتے ہیں جسکا کریڈٹ بھی برکت جمیل کو جاتا ہے۔عوام تھوڑا صبر و تحمل سے کام لیں تو امید ہے برکت جمیل کے کام میں بھی برکت آئے گی البتہ برکت جمیل کو اپنے وفادار ساتھی کی وفا کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے جس سے مستقبل میں سیاسی نقصان کا اندیشہ بڑھنے کا امکان ہے۔حلقہ ون کے وزیر موصوف کے کام بھی عوام ہی کیلئے ہیں اسمیں مزید بہتری لانے اور پورے حلقے کی عوام کو مد نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ایلکٹڈ نمائندے آپس میں کوارڈینیشن سے ضلع بھر کی عوام کی مہرومیوں کو دور کرسکتے ہیں اگر صحیح منیجمنٹ اور بروقت فیصلے کرسکے تو!عوام کو صبر و تحمل کے ساتھ منتخب نمائندوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے نہ کہ حوصلہ شکنی۔جائز تنقید عوام کا حق ہے اور ترقی کی ضمانت ہے۔اگر استوری عوام متحد اور متفق ہوکر منتخب نمائندوں سے اجتماعی کام کی ڈیمانڈ کریں تو سب کیلئے روزگار کے دروازے کھلیں گے اسلئے نیٹکو سروس کو وسعت دینے سے زیادہ روزگار ملے گا اسی طرح اسکولوں کو Upgradationکرنے سے زیادہ اسامیان پیدا ہونگی اور بجلی کے بڑے پراجیکٹس کے قیام سے زیادہ نوکریاں پیدا ہونگی۔زراعت کے ادارے کو وسعت دینے سے بھی نوکریاں پیدا ہونگی۔ہسپتالوں اور ڈسپنسریوں کو وسعت دینے سے نوکریوں کے ذرائع پیدا ہونگے اور جو ادارے یا اداروں کے برانچز استور میں نہیں ہیں ان اداروں یا برانچز کے قیام سے بھی عوام کو روزگار کے نئے مواقع ملیں گے جو سب عوام کیلئے ہیں ہونگے۔بس صرف صبر و تحمل اور صحیح سمت کا تعین کرنے سے یہ سب کچھ ممکن ہوسکے گا۔اسی طرح یونیورسٹی کیمپس کے قیام سے بھی روزگار کے نئے ذرائع ملیں گی۔اگر منتخب نمائندے ایسا کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو عوام کے دیرینہ مسائل حل ہونا شروع ہونگے۔اگر ایسا کرنے میں ناکام ہوگئے تو پھر عوام کو جمہوری حق حاصل ہے کہ وہ اگلا اقدام احتجاج یا ووٹ سے کریگی اور جب عوام کے معیار زندگی میں بہتری آئے گی اور عوام میں خوشحالی آئے گی تو ایسے عوام دوست نمائندوں کو ہمیشہ کیلئے عوام اپنا ووٹ ان کیلئے وقف کریں گے۔جمہوریت کے ثمرات جب عوام کو حاصل ہونگے تو جمہوریت مضبوط ہوگی۔جمہوریت عوام کی خوشحالی سے ہی مضبوط ہوتی ہے ۔جب عوام خوشخال ہوگی تو جمہوریت مضبوط ہوگی اور علاقے سمیت ملک و قوم بھی مضبوط ہوگی۔امن و آشتی کی فضا بنے گی، عوام میں خوشحالی آئے گی ملک و قوم کو استحکام حاصل ہوگا۔

عجب تماشا ہے تیرے دیس میں آکاش

تجھ کو ہے فکر معاش کی تلاش برسوں سے

اور وہ سناتے ہیں لوریاں جمہور کی برسوں سے

عکسِ جمہوریت صرف سرکاری و ٹھیکداری کے گرد نظر آتی ہے برسوں سے

وہ جنکے ووٹ کے سبب منصب اقتدار جمہور نصیب ہوتا ہے

انہی کے (عوام) کے اردگرد غربت نظر آتی ہے برسوں سے!

(ایم۔غازی خان آکاش)

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button