دوستوں کو مجھ سے شدید شکایت ہے کہ میں دیامر سے باہر ہی نہیں آتا میرے ٹوٹے پھو ٹے الفا ظ دیامر کے ارد گرد ہی گھومتے ہیں۔اس کو میں بھی شدت سے محسوس کر رہا ہوں لیکن کیا کریں دیامر میں اتنے مسائل ہیں کہ ان سے فرصت ہی نہیں ملتی میں اپنے چار سوں عوام کو مصائب و آلام میں ڈوبتے دیکھتا ہوں ۔میرے ارد گرد آہ بکا ہے۔ انسانیت بلک سسک رہی ہے ۔مظلوم ظالم کے شکنجے میں ہے ۔غریب پر آسمان ٹوٹ پڑی ہے ظلم۔ کے انتہا کو قبائلی لبادے میں جواز فراہم کرتے دیکھ رہا ہوں ۔کمزور کی گردن طاقتور کی پنجوں میں کسی ہوئی ہے ۔انسانیت سچائی حقائق قومیت پر قربان ہے ۔گروہ بندیاں ہیں ۔چوک چوراھے قوموں کے ناموں سے منصوب کیے جارہے ہیں۔ یہاں حق گوئی جرم ہے ۔شریف رزیل ہے۔ قاتل عزت دار ہے۔ لب کشائی پر مشکلات کے گرداب میں الجھنا یقینی ہے ۔ایسے میں صرف دو ہی راستے بچتے ہیں ۔یا تو خاموش تماشائی بننا ہے یا پھر آزان حق کیلے کمر بستہ ہونا پڑتا ہے ۔کب تک جہالت کے طعنے سنتے رہے ۔نسلوں کی نسلیں اس نیم قبائیلی رواج کے بھینٹ چڑ گئے ۔کم از کم آنے والی نسلیں تو محفوظ رہے ۔جس کو صدقہ جاریہ سمجھ کر بس زرا سا اپنا حصہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں ۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ ہماری یہ کوشش سمندر میں کنکر پھینکنے کی برابر ہے ۔جتنی ہمت اتنی کوشش ہے۔ پہلوانی تو ہے نہیں کہ بازی ہی پلٹ دے ۔اس کوشش میں سب کی بھلائی ہے کیو نکہ گلگت بلتستان کا ایک ایک ضلع ایک ایک اعضا ہے اور یہ اعضا مل کر ایک جسم بنتا ہے ایک ضلع سر ہے تو دوسرا دھڑ ہے کوئی آنکھ ہے تو کوئی کان ہے یہ تمام اعضا مل کر ایک جسم یعنی گلگت بلتستان بنتا ہے اب جسم کے ایک اعضا میں کینسر ہو تو جلد یا بدیر پورا بدن گھائل ہو جاتا ہے میرے خیال میں ایک پڑھا لکھا پر امن اور صحت مند دیامر پورے گلگت بلتستان کی ضرورت ہے چونکہ یہاں پیدا ہونے والے خرافات کے اثرات پورے صوبے پر پڑتے ہیں ایسی طرح صوبے کے دوسرے اضلاع میں پیدا ہونے والی بے چینی کے اثرات سے دیامر بھی محفو ظ نہیں رہتا ہے یقیناًگلگت بلتستان کے حدود اربعہ میں جتنے بھی علاقے قبائل زبانیں تہذ یبیں یا بودوباشت ہیں سبھی ایک دوسروں کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں کوئی یہ کہتا ہے دیامر الگ ہے گلگت یا بلتستان کو آگے بڑھا و تو میرے خیال میں وہ غلطی پر ہو گا چو نکہ پڑوسی مٹی کے ڈھیر پر ماتم کریں تو دھول آپ کے محلات پر بھی پڑ سکتی ہے جتنا حق جس کا ہے اس کو ملنا چاہیے صحافی لکھاری یا سیاستدان حاکم ہو کہ محکوم سب کو انصاف کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے اب میں صحافی ہوں میں دیامر ڈیم کے زد میں آنے والی زمین کی معاوضہ کی بات کروں اور ہنزہ نگر میں کے کے ایچ کے متا ثرین کی بات کو دباؤ ں تو میں کون سی حقائق پرمبنی صحافت کرتا ہوں؟اگر کوئی شخص قراقرم یونیورسٹی کے ہنزہ کیمپس کی بات کرتا ہے دیامر کو جہالت کا طعنہ دیکر بطور تنز مدرسوں کے قیام کا مشہورہ دیتا ہے اس شخص کو صادق اور امین کیسے کہہ سکتے ہیں؟کوئی فرد اپنے طاقت سیاسی اسر رسوخ کو استعمال کر کے تمام مراعات اپنے طرف کھینچنے میں لگے غریب کے بستی تک کچا سڑک بھی نہ ہو امیر کے محلات تک مٹل روڈ بنایا جائے ضرورت مند کی ضرورت کو بالائے طاق رکھ کر بغیر ضرورت کی بے جا نوازشیں ہو اور ان نوازشوں کو حق بجانب قرار دینے والے کے سامنے نظام مفلوج ہو کر ترقی اور انصاف کا نام دے تو کیا ایسی صورت میں حقائق کو سامنے لانے والے متعصب یا بنیاد پرست کہلاسکتے ہیں؟ہم نے بھی دیامر کے نام پر دھائیں دی ہیں تو بس یہ سب کچھ محسوس کرنے کے بعد دی ہیں لیکن اب زرا باریکی سے دیکھنے کے بعد معلوم ہوا کہ پورے صوبے کا یہی حال ہے کہیں بھی عوام کی سنوائی نہیں ہے کسی نہ کسی شکل میں معاشرتی اور انتظامی بد حالی کا سامنا تمام اضلاع کے عوام کر رہے ہیں اتنی محدود آبادی اور اس میں اتنے مسائل کہ حل ہی نہیں ہو رہے ہیں اس دن ایک اہم زمہ دار کہہ رہے تھے کہ پورے گلگت بلتستان کی آبادی پنجاب کے سب سے چھوٹے ضلع کی آبادی سے بھی کم ہے۔ جتنی گلگت بلتستان کی آبادی ہے اتنے علاقے کو پنجاب میں ایک اسسٹنٹ کمشنر سنبھا لتا ہے جبکہ ادھر دس ڈپٹی کمشنر چیف سیکرٹری سمیت پورا صوبائی نظام اعلی عدلیہ بشمول صوبائی اسمبلی گور نر وزیر اعلی اور وزراء سبھی مو جود ہیں ۔ اوپر سے بقول صوبائی حکومت فنڈز کی کوئی کمی نہیں ہے تو یہ بیس لاکھ لوگ کیوں مطمئن نہیں ہے ؟ جبکہ پنجاب میں ایک اسسٹنٹ کمشنر جتنے علاقے کو ڈیل کرتا ہے اس میں بجلی پانی گیس ہوسپٹل تمام تر سہولیات موجود ہیں گلی سڑکیں سب پکی ہیں۔
ادھر آس پڑوس تو چھوڑو صوبائی دارالحکومت کو دیکھو تو سارا بھید کھل جاتا ہے گلگت جٹیال کو دیکھے آج بھی لکڑی کے پول پر بجلی کا سسٹم لگا ہوا ہے پانی کیلے لوگ ترس رہے ہیں ٹینکروں کے زریعے پانی حاصل کر رہے ہیں کچی سڑکیں نالیاں گلیاں اس پورے سسٹم پر سوالیہ نشان بنے ہوئے ہیں جب فنڈز کا مسلہ نہیں ہے ایک اسسٹنٹ کمشنر کے بجائے اتنی بڑی کھیپ موجود ہیں تو یہ سارے مسائل ابھی تک حل کیو ں نہیں ہوتے؟جبکہ پنجاب میں ایک اسسٹنٹ کمشنر گلگت بلتستان جتنے علاقے کے مسائل کو قابو میں لاسکتا ہے اور ادھر اتنی ظفر موج نا کام ہے تو کیو ں نہ اس سسٹم کو ختم کر کے پنجاب کی طرح ایک اسسٹنٹ کمشنر پر گزارہ کریں؟مسائل تو ویسے بھی حل ہونے نہیں ہیں کم از کم قومی خزانہ پر پڑا بھوج تو ہلکا ہوگا۔یونین سے کونسل تک پھر ترقی کرتے کرتے آج قانون ساز اسمبلی تک پہنچ گئے مجھے کوئی ان تمام چکروں کا فائدہ جو عام عوام تک پہنچی ہوں ایک بھی انگلی پر گن کے دیکھائے؟ با با کڑھائی میں سر مخصوص گروہ کی ہے جو پورے گلگت بلتستان میں محض دو فیصد ہیں اور یہی دو فیصدبچاری عام عوام کو استعمال کر رہے ہیں کبھی کھینچ کر سڑکوں پر لاتا ہے کبھی آپس میں لڑا تا ہے زات پات رنگ و نسل مذہب و لسانیت کے تفریق سے اپنی سیاسی دکان چمکاتا ہے فا ئدہ خد اٹھاتا ہے اور نقصان غریب عوام میں بانٹتا ہے اب آینی حقوق کا مسلہ زور شور سے گلگت بلتستان کے طول و عرض میں پھیلا ہوا ہے وفاق بھی کچھ دینے کے موڈ میں ہے لیکن میرے نزدیک اس سے بھی غریب عوام کو کوئی خاص فائدہ نہیں ہو گا بس چوری چکاری کیلے ایک اور دروازہ کھلے گا اور وفاق سے برائے راست تعلق بنے گا یہی گنے چنے مخصوص ٹولیے کا کام آسان ہوگا ۔یہاں کی بے چینی اپنے جگہ پر قائم رہے گی جب تک قوم میں اجتماعی سوچ بیدار نہ ہو دوسروں کے حقوق اپنے فرائض کا ادراک نہ ہو تب تک بدحال گلگت بلتستان کا کچھ نہ ہونے والا ہے۔ اللہ تعالی ہماری حالت پر رحم فرمائیں۔