کالمز

جشنِ نوروز مبارک

از: الواعظ نزار فرمان علی

’’۔۔اور ان کیلئے مردہ زمین ایک نشانی ہے ۔ہم نے اسے زندہ کیا اور ہم نے اس میں سے اناج نکالا۔ پس وہ اس میں سے کھاتے ہیں ۔اور ہم نے اس میں کھجوروں اور انگوروں کے باغ پیدا کئے ۔اور ہم نے اس میں چشمے بہا دیے ۔تاکہ وہ اس کے پھلوں میں سے کھائیں اور اسے ان کے ہاتھو ں نے نہیں بنایا۔پھر وہ کیا شکر نہیں کرتے‘‘۔القرآن

قرآن پاک میں آفاق و انفس کی آیات کی طرف بڑے جامع اور خوبصورت انداز میں توجہ دلائی گئی ہے،چند اہم آیات (نشانیوں)میں آسمان اور زمین کی خلقت،آسمان کا بغیر ستون کے قائم رہنا،زمین کا اپنے مدار پر گردش کرنا ،سمندروں اور جانوروں کا مسخر کیا جانا اور بہت کچھ ۔جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اے نبی ؐ ! تم سے وہ لوگ چاند کے گھٹنے کے بارے میں سوال کرتے ہیں تم ان سے کہہ دو کہ چاند کے گھٹنے بڑھنے سے آدمیوں کے کاموں اور حج کا وقت معین ہونا ہے‘‘ القرآن

اسی طرح دیگر سیاروں اور ستاروں کی مسلسل گردش کے اثرات ہمارے دنیا پر پڑتے ہیں۔قدیم علم ہیٗت کے مطابق فلک البروج کے بارہ حصے ہیں ہر ایک حصہ کو ایک برج کہا جاتا ہے،چنانچہ سورۃ بروج میں ارشاد ہوتا ہے ’’اس آسمان کی قسم جو برجوں والا ہے‘‘۔اس آیت سے برجوں کی حقیقت اور اس کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے ان بارہ برجوں کے عربی نام یہ ہیں’’حمل،ثور،جوزا،سرطان،اسد،سنبلہ،میزان،عقرب،قوس،جدی،دلو اور حوت شامل ہیں‘‘چنانچہ آفتاب پورے ایک سال میں فلک البروج کا دورہ ختم کرتا ہے اس دورے کی ابتداء آفتاب کے برج حوت سے نکل کر برج حمل میں داخل ہونے سے ہوتی ہے۔سورج کے برج حمل میں داخل ہونے کو نوروز کہتے ہیں۔نوروز فارسی کے دو الفاظ نو "نیا” اور روز” دن” یعنی نیا دن کے ہیں۔چنانچہ قدرتی موسم میں خوشگوار تبدیلی یعنی خزاں کے چھٹنے اور بہار کے ابھرنے کی نہ صرف نوعِ انسانی بلکہ دیگر مخلوقات کے لئے بھی شادمانی کا باعث ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے نوروز فطرت کی عید کا دن ہے۔علامہ اقبال ؒ پیام مشرق کی اہم نظم فصل بہار میں خزاں کی رت بدلنے اور موسم بہار کی آمد کا ذکر دلکش انداز میں بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اے انسان بیدار ہوجا اور چشم بینا سے فطرت میں برپا ہونے والی تبدیلی سے سبق حاصل کر، اٹھ باہر نکل اور دیکھ کہ پہاڑوں اور بیابانوں میں موسم بہار کے بادلوں نے خیمہ لگالیا ہے۔بلبل ، طوطی ، تیتر اور مینا بھی مستی بھرا گیت گا رہے ہیں۔ندی کے کنارے گلاب ،لالہ اور چنبیلی کے بے شمار پھول کھلے ہیں، موسم بہار کی ہوا چلنے لگی ہے حسن نے نئے نئے تازہ پھول چن لئے ہیں، عشق نے نیا روگ لگا لیا ہے، چمن کے خون میں عجیب جوش پیدا ہو گیا ہے، اے خاموش اور ساکت بیٹھے ہوئے انسان تو بھی ہوشمندی کے اصول توڑ دے اور شرابِ معرفت پی لے اور حقائق کو عیاں کرنے والی نظر پیدا کرتاکہ تو کائنات اور خودی کے سربستہ رازوں کو جان کر لازوال بن جائے۔بے شک بہارِ نو کے آتے ہی ماحول میں عجیب سی ہلچل ہونے لگتی ہے ہر سو گنگناتے پرندے ، مہکتی ہوائیں ، مینا کی رم جھم، لہلہاتے کھیت، کھلکھلاتے درخت، تتلی و بھنورے رقصاں ، منجمد جھیل و چشمے پگھلتے ہی آبی حیات نئی زندگی کا دلربا راگ الاپتے ہیں۔تبدیلی سے ایک خوبصورت حکایت یاد آئی کہتے ہیں کہ سلطان محمود غزنوی نے اپنے غلام ایاز سے کہا کہ میری انگوٹھی پر ایسا جملہ لکھو جسے غم میں دیکھوں تو خوش ہوجاؤ ں اور خوشی میں دیکھوں تو غمگین ہوجاؤں ایاز نے لکھا ’’یہ وقت ہمیشہ نہیں رہے گا‘‘۔جی ہاں اس موسم میں نباتی زندگی فرسودہ لباس چھوڑ کر نیا لباس زیب تن کر لیتی ہے فطرت میں جدت و تازگی انسانی افکار و اعمال پر عمدہ اثرات مرتب کر تی ہے۔ موسم سرما کی سردو بے کیف زندگی کے بعد بہارِ گُل و گُلزار کا آغاز نیم مردگی سے مکمل زندگی کی جانب، نیند سے بیداری، جمود سے حرکت ، خاموشی سے گویائی، مایوسی سے اُمید، جہل سے علم ، گناہ سے نیکی اور شکوک و شبہات سے نورِ ایقان کی سرمدی نعمت کی طرف لوٹنا یقیناًایک انسان کے لئے سب سے بڑی کامیابی خوشی کا ذریعہ ہے اسی صورت میں فطرت میں واقع ہونے والا بہار ہماری اندرونی دنیامیں روحانی بہار لانے کے لئے معاون ثابت ہو سکتا ہے۔

عالم ظاہر ایک مکتب کی مانند ہے جس کے مظاہر انسان کو کوئی نہ کوئی اخلاقی اور روحانی پیغام دے رہے ہیں اگر ہم منشاء خداوندی کے مطابق آفاق و انفس کی نشانیوں کا بغور مشاہدہ کریں تو ہمیں خدمت خلق کے حوالے سے اہم تصورات عیاں ہونگے۔اگر ہم درخت کی تخلیق پر غور کریں کہ یہ کس طرح ہمیں ٹھنڈا سایہ اور تازہ پھل مہیا کرتے ہیں اور اس کے عوض وہ ہم سے کچھ تقاضا نہیں کرتے ہیں۔سورج قدرت کی ایک عظیم نشانی ہے یہ رنگ ونور کا منبع اور نظام شمسی کا روح رواں ہے۔ہر روز سورج سے بے پناہ روشنی اور توانائی سے روئے زمین شاداب و آباد ہورہی ہے ۔انسان سمیت تمام مخلوقات فیض یاب ہورہے ہیں اور بدلے میں سورج ہم سے کچھ نہیں مانگ رہا ہے۔قدرت کا ایک اور سبق پھول اپنی رنگینی و مہک اور پھل اپنی لذت سے سب کو فرحت بخشتے ہیں اورہم سے کوئی قیمت وصول نہیں کرتے۔جذبہ قربانی و ایثار کی مثال درخت سے دیتے ہوئے مولانا وحیدالدین خان فرماتے ہیں’’درخت کیا ہے ایک بیج کی قربانی،ایک بیج اپنے آپ کو فنا کرنے کے لئے تیار ہوتا ہے تو اس کے بعد ہی یہ ممکن ہوتا ہے کہ ایک سرسبز شاداب درخت زمین پر کھڑا ہو‘‘بلاشبہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ساری انسانیت کوغیر معمولی خوبیوں اور صلاحیتوں سے نوازا ہے۔یہ خوبیاں اور صلاحیتیں عطیہ خداوندی کے ساتھ ساتھ امانت الہیٰ کی حیثیت رکھتی ہے۔ان کا درست استعمال یعنی صحیح مصرف ان امانتوں کی حفاظت کے مترادف ہے اور ان صلاحیتوں سے خلق خدا کو نفع نہ پہنچانا دراصل خدا کی عطا کردہ امانت میں خیانت کہلاتا ہے جس کا نقصان خود انسان کو ہوتا ہے۔اس ککا خلاصہ یہ ہے کہ وہ زندگی ہی کیاجو دوسروں کے کام نہ آئے۔

جیسا کہ عظیم صوفی بزرگ نوروز کی حقیقتوں کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ظاہری نوروز کا تعلق سال اور مہینوں کے آنے جانے سے ہے مگر باطنی نوروز اندرونی تبدیلی کا نام ہے۔ دینداروں کا نوروز تو بُرے عمل سے اپنے آپ کو بچانے کا نام ہے اور نا سمجھ لوگوں کا نوروز دنیاوی مال و اسباب کی نمائش ہے اور حقیقی نوروز تو ایسانوروز ہے جو ہر قسم کی شکست و زوال سے محفوظ ہو۔ آمین

آپ سب کو دل کی اتھاہ گہرائی سے جشن نوروز مبارک، اس یوم سعید پر اللہ رب العزت کے حضور عاجزانہ دعا ہے کہ اے قاضی الحاجات، رافع الدرجات،دانا و بینا ، اہل وطن، امت اور پوری انسانیت کو امن،سلامتی،صحت تندرستی،اخوت ،بھائی چارہ ،ترقی ،خوشحالی اور آبادی نصیب فرما۔آمین یارب العالمین

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button